انٹرویو

معروف مذہبی اسکالر علامہ امین شہیدی کا خصوصی انٹرویو (حصہ دوئم)

سوال : آپکے خیال میں گذشتہ دنوں امریکی صدر بائیڈن کے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے بیان کا کیا اسی رجیم چینج اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام سے کوئی تعلق ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ایک ایٹمی پاکستان کسی بھی صورت دنیا پر حاکم سرمایہ دارانہ نظام کو سوٹ نہیں کرتا، اس لئے وہ یہ کوشش کریں گے کہ جس طرح سے انہوں نے یوکرین کو ایٹمی اسلحہ سے محروم کرکے انہیں دھوکہ دیا تھا کہ ہم تمہاری حفاظت کریں گے، پاکستان کو انڈیا کی وجہ سے اس صورتحال کا شکار وہ نہیں کرسکے۔ لیکن انہوں نے اپنی کوششیں ہمیشہ جاری رکھی ہیں کہ پاکستان کو معیشت کے حوالے سے عدم استحکام کا شکار کرکے اور سیاسی حوالے سے عدم استحکام کا شکار کرکے اتنا کمزور بنا دیا جائے کہ پاکستان کمپرومائز کرنے کی پوزیشن پر آجائے۔ امریکیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے، اب وہ امریکی چاہے جوبائیڈن کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں یا ٹرمپ کی۔ چونکہ امریکہ میں پالیسی کا تسلسل ہوتا ہے، وہ پاکستان کی طرح سے نہیں ہے۔ ان کی پالیسی یہی ہے کہ اسلامی دنیا میں ایٹم بم نہیں ہونا چاہیئے اور پاکستان ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، اس لئے وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم باقی رہے، لہذا وہ اسے ختم کرنے یا پاکستان سے چھیننے کے حوالے سے ہر طرح حربہ استعمال کریں گے، تاکہ پاکستان پریشر میں رہے۔ بائیڈن کا حالیہ اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔

پاکستان میں ان کو ایک ایسی حکومت چاہیئے جو ہر معاملہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملائے، ان کے سامنے جھکے، ان کی پالیسز کو فالو کرے اور ان کے کسی بھی حکم کے سامنے ناں نہ کرے۔ جب آپ اقتصادی طور پر کمزور ہوتے ہیں تو آپ اسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں، چونکہ عمران خان نے بعض مقامات اور بعض معاملات پر سر اٹھانے کی کوشش کی تو یہ امریکیوں کو پسند نہیں تھا۔ جو صورتحال پاکستان کی ہے، آپ اس کا مشاہدہ اسی تناظر میں کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں عدم استحکام امریکی پالیسیوں کا حصہ ہے اور ہمیشہ امریکیوں کو سوٹ کرتا ہے، پاکستان میں اگر استحکام آجائے تو یہ امریکیوں کو سوٹ نہیں کرتا۔ لہذا پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو، امریکی ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہیں گے کہ پاکستان کمزور سے کمزور تر ہو۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ امریکیوں کے معاہدے انڈیا کے ساتھ بڑے تگڑے ہوتے ہیں، انڈیا جیسے 600 سے زیادہ زبانوں کے حامل ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہوتا ہے، وہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو نظر نہیں آتا؟ اس پر وہ کبھی بات نہیں کرتے۔ پاکستان میں اگر ایسی کوئی بات ہو تو عالمی میڈیا اس کو بہت فوکس کرتا ہے اور بڑھا چڑھا کر پاکستان پر پریشر بڑھاتا ہے۔ پاکستان کی اس وقت جو اندرونی صورتحال ہے، اس میں بہت حد تک خود امریکیوں اور ہم مغربی طاقتوں کا رول ہے۔

علیحدگی پسند قوتوں کی سپورٹ میں بھی ان کا رول ہے اور آزادی کے نام پر مختلف نظریات کو پروموٹ کرنے میں بھی ان کا رول ہے، این جی اوز کے ذریعے بھی پاکستان کی دفاعی لائن کو کمزور کرنے کے حوالے سے بھی ان کا رول ہے۔ پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ان کے اپنے زرخرید لوگوں کو پروموٹ کرنے کے حوالے سے بھی ان کا رول ہے، ان کو ایک کمزور پاکستان اور پاکستانی حکمران چاہئیں، لہذا جب وہ پیسہ خرچ کرنے پر آتے ہیں تو آپ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ رجیم چینج اور حالیہ سیاسی و معاشی عدم استحکام اور امریکی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جب آپ دیکھتے ہیں کہ پاکستان روس سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے اور یوکرین کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کرتا ہے تو ہماری اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی اس پالیسی کے خلاف صرف امریکیوں کی حمایت، یوکرین کی حمایت اور روس سے فاصلہ رکھنے کے حوالے سے اپنا موقف دیتی ہے اور اس کا دفاع کرتی ہے، کیونکہ اس کا مقصد امریکیوں کو خوش کرنا ہے۔ امریکی بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کمزور سے کمزور تر ہو۔ لہذا اس وقت پاکستان کی صورتحال حال بہت تشویش ناک ہے۔

سوال : ایران میں مھسا امینی کی موت پر ہنگامہ آرائی اور داعش کا امامزادہ احمد بن موسیٰ کاظم علیہ السلام کے مزار پر حملہ، دشمن نے ایران کیخلاف اب کیا منصوبہ بنا رکھا ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: دنیا پر حاکم سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اگر کسی ملک نے من حیث الملک یا من حیث القوم کوئی بغاوت کی ہے تو وہ ملک ایران ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 42 سالوں سے اس اسلامی انقلاب کو اور اس ملک میں موجود حاکم نظام کو ختم کرنے کی امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیا، تمام وسائل بروئے کار لائے، جنگ مسلط کی، ان کے لوگوں کو خریدا۔ ہر حوالے سے ہمیشہ عدم استحکام کا شکار کیا، دنیا بھر کے اقتصادی نظاموں سے ان کو کاٹا، وہ پابندیاں جو تاریخ بشریت میں کسی قوم پر نہیں لگائی گئیں، وہ ایران پر لگیں، تاکہ انقلاب کا اور اس اسلامی ریاست کا خاتمہ کرکے ایک کٹھ پتلی نظام اور حکومت وہاں قائم کی جائے۔ لیکن ایران ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوا۔ اب انہوں نے نفسیاتی اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ایران کے اندر موجود ان طبقات، جو پہلے دن سے اس نظام کے مخالف تھے، ان کو اور استعمال کرنا شروع کیا، ان میں کچھ وہ تھے جو شاہ کے حامی تھے، کچھ کرد قبائل ہیں، کچھ وہ عناصر ہیں، جنہیں یورپ اور امریکہ لے جا کر ان کی تربیت کی گئی ہے، ان کا اپنے ہی ملک کے خلاف برین واش کیا گیا ہے۔

مھسا امینی کی وفات کو بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا، اگر یہ نہ ہوتا تو وہ کسی اور بہانے سے یہ بغاوت کرنے کی کوشش کرتے، اگرچہ انہوں نے ایسی موومنٹ شروع کرنے کی کوشش کی، مگر ایرانی حکومت اور وہاں کے انٹیلی جنس اداروں کی کوشش اور ہوشیاری کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ لیکن مھسا امینی کی موت کے واقعہ نے ان کو ایک موقع فراہم کیا، جس کا نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ عجیب بات نہیں ہے کہ امریکیوں کے ٹی وی چینلز اور سعودی ٹی وی چینلز ایرانی عوام کو دستی بم بنانا سکھا رہے ہیں، ان کو ٹی وی چینلز پر وہ تمام طریقے بتا رہے ہیں کہ کس طرح آپ یہ کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ عجیب نہیں ہے کہ کہ وہ انٹرنیٹ کی مفت سہولت ان جوانوں کو فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ان نوجوانوں کو جن میں شعور نسبتاً کم ہے، اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایران میں مسائل بہت ہیں، مشکلات بہت ہیں، مہنگائی ہے، کرپشن کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں، لیکن امریکہ نے اس سب کو اپنے اس مقصد کے لیے بڑے ہی تکنیکی طریقے سے استعمال کیا ہے، تاکہ انقلاب کو کمزور کیا جاسکے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ان دو مہینوں کی تمام تر کارروائیوں میں وہ ہزاروں کی تعداد میں تو لوگ نکل سکے، یعنی کہیں پانچ سو، کہیں ہزار، کہیں دو ہزار لیکن اس سے کچھ نہیں کرسکے۔

انہوں نے نے عالمی الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کو استعمال کرکے ایران کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے میں تو بھرپور کردار ادا کیا، لیکن ایران کے اندر کوئی ایسا کام نہیں کر پائے کہ جس سے نظام کو مفلوج کرسکتے۔ کوششیں تو بہت ہوئیں، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔ حضرت سید احمد ابن موسیٰ، جو امام رضا علیہ السلام کے بھائی ہیں، ان کے مزار کے اندر جو واقعہ پیش آیا، وہ واقعہ بھی ظاہر ہے کہ داعش کے نام پر تو ہوا، لیکن اس کے پیچھے وہی امریکی ہیں۔ ایک مقولہ ہے کہ ’’جو واقعہ ہوتا ہے، اس میں خیر کا پہلو ہوتا ہے۔‘‘ اس طرح کے واقعات میں ایرانی قوم کو مضبوط ہونے اور اس طرح کی بغاوتوں کا مقابلہ کرنے میں بڑی مدد ملی، لہذا اس واقعے کے فوراً بعد جو عوامی ردعمل تھا اور جس طرح پورے ایران سے لاکھوں لوگ اپنی حکومت کی حمایت میں گذشتہ ان چالیس، پینتالیس دنوں میں ہونے والی کارروائیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے، وہ بہت بڑا پیغام تھا۔ آئندہ بھی اس قسم کی کوششیں ہوتی رہیں گی کہ کسی طرح سے ایران کو اور اسلامی نظام کو کمزور کیا جائے۔ انہوں نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں، وہ اخلاقی حوالے سے بڑے عجیب و غریب ہیںَ۔ انہوں نے اسلامی آداب اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ننگی گالیاں اس احتجاج کا حصہ بن چکی ہیں، بلکہ اس کا اصل موٹیو ہیں، اس نظام میں موجود علماء کرام اور رہبر کو ننگی گالیوں سے نوازنا اس کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔

وہ قبیح ترین جملے جو کسی بھی معاشرے کے اندر قابل قبول نہیں ہوتے، وہ ان کو دیواروں پر لکھتے ہیں اور اس کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی جاتی ہے، یعنی ان نعروں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جو نظام اس وقت وہاں پر رائج کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود عوام کے اندر ان کی پذیرائی بہت ہی کم اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا آنے والے وقت میں اگرچہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا لیکن عوامی بیداری کے ذریعے سے اور اپنی حکمت عملی کے کے ذریعے نظام اس سب کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے جن جن لوگوں کو پکڑا گیا ہے، ان سے تفتیش کے بعد اصل عوامل تک وہ پہنچ چکے ہیں اور ان کے نام بھی سامنے آرہے ہیں۔ جن جن ممالک نے اس میں رول ادا کیا، جن ممالک نے فنڈز دیا، جن سفارتخانوں نے فنڈ کیا یا جن ممالک میں جا کر ان لوگوں کی ٹریننگ ہوئی۔ ان لوگوں کے اکاؤنٹس میں جن ممالک سے پیسے جمع کرائے گئے، وہ ساری چیزیں اب آہستہ آہستہ باہر آرہی ہیں۔ جب عوام کے اندر ایک شعور پیدا ہوتا ہے تو عوام اس سب سے الگ ہوتے جاتے ہیں، اس وقت ایران میں عملی طور پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔

سوال : امریکہ بظاہر تو اس خطہ میں واپسی کے امکان کو رد کرچکا ہے, تاہم کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یوکرین جنگ، ایران، عراق اور پاکستان کو اندرونی طور پر ڈسٹرب کرنے کیلئے بائیڈن انتظامیہ کسی بہانے سے پھر یہاں حملہ آور ہوسکتی ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: دیکھیں، اس خطے میں امریکیوں نے اس سے پہلے جب بھی اس طرح کے اقدامات کیے ہیں، ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ امریکیوں کا جو سیاسی تجزیہ تھا یا وہ جن مقاصد تک پہنچنا چاہتے تھے، ان میں ان کو ہمیشہ ناکامی ہوئی ہے۔ افغانستان میں انہوں نے بیس سال کی ناکامی کے بعد واپس جانے میں ہی عافیت سمجھی اور حکومت انہی کے حوالے کی، جن کے خلاف وہ لڑ رہے تھے۔ عراق کے اندر بھی ایسی ہی صورتحال رہی۔ امریکیوں نے بہرحال یہاں پر آنے کے بعد جتنا پیسہ خرچ کیا، اس حساب سے وہ کما نہیں سکے۔ یعنی کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ لہذا ایسے میں ان کا پلٹ کر دوبارہ اس خطے میں آنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ان کے لئے ممکن نہیں ہے اور دوسری طرف خود امریکہ جو خود اندرونی طور پر پریشانی سے گزر رہا ہے، مہنگائی بےتحاشا بڑھ چکی ہے، لوگوں کے اندر بے چینی بے پناہ ہے۔

سیاسی حوالے سے پوری دنیا میں ان کے لیے جس طرح کی صورتحال جنم لے رہی ہے، امریکہ پوری دنیا میں نفرت کا نشان بنتا جا رہا ہے۔ یہ خود امریکیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے، وہ اس حوالے سے بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے یورپ کے اندر جو صورت حال ہے، مہنگائی بھی ہے، تیل اور گیس کی کمی اور سردیوں کی آمد، یہ چیزیں نہ یورپ کے لیے سوٹ کرتی ہیں اور نہ ہی امریکیوں کو سوٹ کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا اس خطہ میں دوبارہ آنا اب ممکن نہیں ہے۔ ہاں وہ اس خطہ کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے عدم استحکام پیدا کرتے رہیں گے اور خطے کے ممالک کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ وہ یہ کوششیں جاری رکھیں گے، لیکن وہ خود ان کا شاید اس خطے میں آنا ممکن نہیں رہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button