جس سے حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام راضی ہوجائے تو اسے خدا کی رضایت بھی حاصل ہو جاتی ہے،علامہ شیخ احمد علی نوری
مذکورہ حدیث کی رو سے جس سے حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام راضی ہوجائے تو اسے خدا کی رضایت بھی حاصل ہو جاتی ہے
شیعہ نیوز : جامعۃالنجف سکردو میں منعقدہ ایام فاطمیہ کی آخری مجلس عزا سے ممبر جی بی کونسل و صوبائی رہنما مجلس وحدت مسلمین شیخ احمد علی نوری کا خطاب آپ نے اپنے خطاب میں تمام مسلمانوں کے نزدیک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی مسلمہ حدیث "فاطمہ میرا حصہ ہے جس نے اسے اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی ہے اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے (نعوذ باللہ) خدا کو اذیت پہنچائی ہے” پیش کی۔حضرتِ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام نے اسلام کی سربلندی، پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی حفاظت اور امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ایک اور حدیث کی رو سے اللہ کی رضایت اس وقت حاصل ہوتی ہے جسے حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کی رضایت حاصل ہوجائے۔ تمام انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کا بنیادی ہدف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں سے جو بھی اچھا کام انجام دیتا ہے ان سب کا بنیادی ہدف بھی رضائے الٰہی کا حصول ہے۔
مذکورہ حدیث کی رو سے جس سے حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام راضی ہوجائے تو اسے خدا کی رضایت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ مردوں میں تمام انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام انسانیت کے کمال کے درجے پر فائز تھے جبکہ خواتین میں سے چار خواتین کمال تک پہنچیں ان میں سر فہرست حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔شہید مطہری تمام اور کمال میں فرق یوں بیان کرتے ہیں: مثال کے طور پر نمازِ تمام سے مراد وہ نماز ہے جس کا کوئی حصہ کم نہ ہو جبکہ کمال سے مراد وہ نماز ہے جس کی ادائیگی کے وقت مؤمن کا رابطہ دنیا سے مکمل کٹ جائے اور اس کا ذہن، فکر اور اس کے ملحوظ خاطر فقط خدا ہو۔ تام نماز کی ادائیگی کے بعد نماز کی قضا واجب نہیں ہوتی گویا فقط واجب انسان سے ساقط ہو جاتا ہے۔
بعد ازاں آپ نے حضرتِ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کی حیات طیبہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا: حضرت زہرا علیہا السلام بیٹی کے عنوان سے، آپ شریک حیات کے عنوان سے اور سیدہ کونین والدہ کے طور پر حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام نے بیٹی کی حیثیت سے وہ کردار پیش کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو "ام ابیہا” کا لقب دیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپ اپنی ہر ممکنہ کوشش کے ذریعے اس مشکل کو دور رہنے کی کوشش کرتیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ پر کیچرے پھینکے گئے تو آپ کو سہارا دینے والی، آپ کی دیکھ بھال کرنے والی اور آپ کے بدن اطہر کو صاف کرنے والی ہستی کا نام حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام ہیں۔بیوی کے عنوان سے آپ نے وہ کردار ادا کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق آپ نے کبھی اپنے شوہر نامدار سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی بکاؤمیڈیا بھی اسرائیلی وبھارتی ایجنڈے پر رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف سرگرم
جب آپ شہید ہوگئیں تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: اے فاطمہ! آپ میری مشکلات کا سہارا تھی۔جب حضرت علی علیہ السلام کو جبری بیعت کے لیے لے جانے کا وقت آتا ہے تب حضرتِ علی علیہ السلام کی حفاظت کی خاطر حضرت فاطمہ آگے آتی ہیں۔ماں کی عنوان سے آپ نے جو کردار پیش کیا اس کی مثال کائنات میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔آپ کی اولاد میں سے حضرت زینب علیہا السلام کے شعلہ بیاں خطبے، صبر امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور شجاعت امام حسین علیہ السلام کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اسی لیے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
اسلام کی کھیتی کی فصل حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام ہیں۔تمام ماؤں کے لیے بہترین نمونۂ عمل حضرتِ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کا وقت آیا تو ملک الموت تین مرتبہ در رسول پر اجازت طلب کرتے رہے۔ آخری بار رسول مکرم اسلام صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے زہرا! یہ تیرے در کا احترام کہ جس میں داخلے کے لیے ملک الموت بھی اجازت لینے آتا ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے سانحہ ارتحال کے بعد اسی در کو نذر آتش کیا گیا۔ اسی ہستی کے پہلو کو زخمی کیا گیا۔ آپ کی فریاد بلند ہوئی۔ جب مولا علی علیہ السلام کے گلو اطہر میں رسی ڈال کر دربار کی طرف لے جانے لگا تو حضرتِ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام اپنے مصائب بھول گئیں اور آپ دربار میں حاضر ہو گئی۔آخر میں عالم اسلام کی سربلندی، شہدائے مقاومت کو شہدائے کربلا کے ساتھ محشور ہونے، جبہہ مقاومت کی فتح نصرت، اسرائیل کی نابودی اور مرحومین کی مغفرت کی دعا کی۔