دنیا

روس کی قومی سلامتی کے سیکریٹری کے دورہ تہران سے امریکا خوفزدہ

شیعہ نیوز: امریکی تھنک ٹینک ڈیفنس آف ڈیموکریسی فاؤنڈیشن نے روس کی قومی سلامتی کے سیکریٹری سرگئی شويگو کے دورہ تہران اور ایران کے اعلی حکام سے ان کی ملاقات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دورہ پانچ اگست کوایسی حالت میں انجام پایا ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کے امکان کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ اس امریکی تھنک ٹینک کا تجزیہ یہ ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتین کے ایک قریبی فرد نے تہران کا دورہ کیا اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر کمانڈر علی اکبر احمدیان سے جو اس وقت ایران کی قومی سلامتی کے سیکریٹری ہیں، ملنے کے علاوہ صدرمسعود پزشکیان سے بھی ملاقات اور گفتگو کی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک ڈیفنس آف ڈیموکریسی فاؤنڈیشن نے تشویش کے ساتھ لکھا ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں روس کی قومی سلامتی کے سیکریٹری سرگئی شویگو تہران پہنچ گئے اور اسی کے ساتھ روس نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت بھی کی اور ایران کے صدر نے بھی روس کو اپنے ملک کا اسٹریٹیجک پارٹنر قرار دیا ۔

مذکورہ امریکی تھنک ٹینک نے سرگئی شویگو کے دورہ تہران کا تجزیہ روس اور اسلامی جمہوریہ ایران کے باہمی فوجی تعاون کے تناظر میں کیا ہے جس میں بقول اس کے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد گزشتہ دو برس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

مذکورہ امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ سرگئی شویگونے ایران کے ساتھ فوجی روابط کی تقویت کے لئے تہران کا دورہ کیا ہے ۔ اس امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ سرگئی شویگو اس سے پہلے روس کے وزیر دفاع تھے اور اس وقت بھی انھوں نے ایران کے سینیئر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

امریکی تھنک ٹینک ڈیفنس آف ڈیموکریسی فاؤنڈیشن نے اپنی تجزیاتی رپورٹ ميں لکھا ہے کہ سرگئی شویگو نے گزشتہ اپریل میں روس، ہندوستان، چین، ایران، پاکستان، قزاقستان، ازبکستان، کرغیزستان اور تاجکستان پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر بھی اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات اور باہمی سیکیورٹی اور فوجی روابط کی تقویت اور فوجی معاہدوں کے بارے میں مذاکرات کئے تھے۔

اس تجزیاتی رپورٹ کے مطابق امریکا روس کی قومی سلامتی کے سیکریٹری کے دورہ تہران سے خوش نہیں ہے حتی امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی اس دورے کو مایوس کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ واشنگٹن کو یہ امید نہیں ہے کہ ماسکو علاقے میں کشیدگی کم کرنے میں کوئی کردار ادا کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button