
امریکہ کی تکفیری دہشت گردی کو مصنوعی سانسیں دینے کی کوشش
مقامی ذرائع سے حاصل ہونے والی رپورٹس اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حکام بغداد کے قریب واقع اپنے فوجی اڈے "عین الاسد” سے مسلسل داعش کے بچے کھچے عناصر کو عراق کے صوبہ دیالہ منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ عراق میں قابض امریکی فوجی جو داعش کے خلاف جنگ کا جھوٹا دعوی بھی کرتے ہیں، چینوک ہیلی کاپٹرز کے ذریعے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے اہم کمانڈرز کو عراق کے مختلف حصوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ عراق اور شام میں اسلامی مزاحمتی فورسز کے ہاتھوں داعش کی مکمل نابودی کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اس تکفیری دہشت گرد گروہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ نے داعش کے اہم کمانڈرز کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اور مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے انہیں مختلف علاقوں میں منتقل کر رہا ہے۔
امریکہ جن علاقوں میں داعش کے بچے کھچے عناصر منتقل کرنے میں مصروف ہے ان میں افغانستان، برصغیر پاک و ہند، افریقہ کے بعض علاقے اور عراق میں امریکہ کے زیر تسلط علاقے شامل ہیں۔ اسی طرح شام کے بعض سرحدی علاقوں میں بھی تکفیری دہشت گرد عناصر کی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق حالیہ چند دنوں میں اس سلسلے میں تیزی آئی ہے اور امریکہ بہت تیزی سے مختلف علاقوں میں داعش کے بچے کھچے عناصر کو تعینات کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمتی فورسز خطے میں سینٹکام اور پینٹاگون کی تمام سرگرمیوں پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں اور مناسب وقت آنے پر ان کے خلاف بھرپور اقدامات بھی انجام دیں گے۔ ہم اس تحریر میں خطے میں جاری امریکہ کے خطرناک کھیل کے مختلف پہلو واضح کرنے کے درپے ہیں۔
عراق اور افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں میں تیزی نیز گذشتہ چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران اس تکفیری گروہ یا اس کی ذیلی شاخوں کی جانب سے بعض افریقی ممالک میں دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کی اصل وجہ وہ بڑا منصوبہ ہے جو اسلام دشمن قوتوں نے دین مبین اسلام کے خلاف آغاز کر رکھا ہے۔ جب 2013ء میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ایک عظیم لشکر کی صورت میں شام اور عراق پر مسلط کیا گیا اور اس گروہ نے اپنے ظالمانہ اقدامات کا آغاز کیا تو اسی وقت اس کے اہداف و مقاصد واضح تھے۔ اس پوری سازش کا اصل مقصد دین مبین اسلام کا بگڑا ہوا چہرہ دکھا کر دنیا والوں کو اسلام سے متنفر کرنا تھا۔ اس مقصد کیلئے اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو بگاڑ کر داعش کے کریہہ چہرے کی صورت میں ظاہر کیا گیا۔
جیسا کہ خود مغربی مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ دنیا خاص طور پر مغربی ممالک میں دین مبین اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مغربی حکمران اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ لہذا انہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ مغربی عوام کو اسلام سے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے جو مختلف طریقے اور ہتھکنڈے اپنائے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اسلام کے نام پر ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جائے جو ظالمانہ اقدامات کی بدترین مثال قائم کر دے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یوں مغربی عوام کے دل میں اسلام سے شدید نفرت پیدا کی جا سکتی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب تکفیری دہشت گروہ داعش ابھر کر سامنے آیا اور اس نے غیر انسانی اقدامات انجام دینا شروع کئے تو مغربی میڈیا اسے خاص کوریج دیتا تھا اور ان کے چھوٹے سے چھوٹے اقدام کو بھی پہلی خبر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
دوسری طرف مغربی ذرائع ابلاغ نے لفظ "اسلام” کو "تکفیریت” کے مترادف قرار دینا شروع کر دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دنیا میں جو بھی مسلمان ہے وہ تکفیری سوچ کا حامل ہے۔ اس کا فطری نتیجہ مغربی دنیا میں مسلمان مہاجرین کے خلاف منافرت پھیلنے اور ان کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات بڑھ جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مغرب میں موجود ایک ٹولہ جو کثیر ثقافتی معاشرے کی تشکیل کے مخالف ہے نے اس پروپیگنڈے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مغربی ممالک سے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا۔ اسی طرح اس ٹولے نے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد ظاہر کرنے کی کوشش میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہئے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن ہی وہ شخص ہے جس نے 2006ء میں عالم اسلام کو قومی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دینے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل دراصل اسی منصوبے کا تسلسل ہے۔ اس وقت امریکہ کی جانب سے اس گروہ میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش میں بھی وہی مقاصد کارفرما ہیں۔ لہذا میدان جنگ میں داعش کے خاتمے سے زیادہ اہم تکفیری سوچ کو ختم کرنا ہے اور یہ کام صرف "بیان کے جہاد” سے ہی ممکن ہے۔ بیان کے جہاد کے ذریعے امریکہ کی منافقت واضح کی جا سکتی ہے اور اس حقیقت کو فاش کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح امریکہ دین اور مذہب کی آڑ میں اپنے پست اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اگر بیان کے جہاد کے ذریعے مسلمانوں اور دنیا کے دیگر افراد میں بیداری پیدا ہو جائے اور وہ امریکہ اور داعش کے حقیقی چہرے سے آشنا ہو جائیں تو نہ ہی امریکہ اور نہ ہی اسرائیل اور دیگر شیطانی طاقتیں دین اور مذہب کا غلط استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں گی۔ لہذا دنیا بھر کے اہل ایمان مفکرین مل کر تکفیری دہشت گردی کی نظریاتی بنیادوں کا خاتمہ عمل میں لا سکتے ہیں۔
تحریر: محمد مہدی ایمانی پور