مضامین

ارشد شریف، غمِ حیات زیادہ ہے اور خوشی کم ہے

پاکستان کی دھرتی کے بہادر سپوت، ریسرچ جرنلزم کے ستون، محبِ وطن صحافی، با کردار اور قابل اینکر پرسن اور شہیدوں کے وارث ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے مضافات میں سر پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ پاکستان کے اس شجاع فرزند نے بڑے شعور اور ارادے سے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔ جس جرم کے ارتکاب میں پاکستان کی سرزمین ان پر تنگ کردی گئی تھی، انھوں نے اس سے توبہ نہ کی بلکہ ہجرت اختیار کی اور باہر جا کر وہی کام جاری رکھا، جسے وہ اپنے پیشہ وارانہ فہم کے مطابق درست اور برحق سمجھتے تھے۔ پاکستان میں ان کے خلاف دہشت گردی سمیت بہت سی دفعات کے تحت مقدمے قائم کیے گئے۔ ملک سے ہجرت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے قتل کے لیے پیشہ ور قاتلوں کی خدمات حاصل کر لی گئی تھیں۔ ان کے نہایت قریبی ساتھیوں نے انھیں فوری طور پر ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ وہ ملک سے جس حالت میں نکلے، وہ اپنے مقام پر ایک افسوسناک اور غم ناک قصہ ہے۔

قرآن حکیم کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو جب فرعون کے دربار کے اندر سے کسی نے خبر دی کہ حکمران آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو حضرت موسیٰ جس عالم میں مصر سے نکلے، اُس کی تصور کشی یوں کی گئی ہے:
وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ ‎O‏ فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ‎O "اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سِرے سے دَوڑتا ہوا آیا اور بولا "موسیٰؑ! سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں” یہ خبر سنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہمتا نکل کھڑا ہوا اور اس نے دعا کی کہ "اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا۔”(القصص۔۲۰و۲۱) البتہ موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کے لیے مدین میں حضرت شعیبؑ موجود تھے، لیکن ارشد شریف تو اس طرف جا نکلے، جہاں انھیں کا اقتدار ہے، جن کی مداخلت یا سازش کے خلاف وہ پاکستان میں آواز اٹھا رہے تھے۔

اس وقت پورا پاکستان غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ طرح طرح سے رنج و کرب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں، صحافتی تنظیموں، سیاسی راہنمائوں غرض تمام طبقوں کی طرف سے ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ارشد شریف پاکستان میں اپنی نوعیت کے منفرد صحافی تھے۔ انوسٹیگیٹیو جرنلزم کے بعض شعبوں میں وہ منفرد تھے۔ وہ صراحت اور بے باکی میں بھی ایک مثال تھے۔ وہ اپنی بات کی سپورٹ میں تاریخ، ادب اور شاعری سے بھی مدد لیتے۔ وہ موسیقی اور گیتوں سے بھی اپنے تاثرات بیان کرتے۔ وہ عالمی سیاست کے اتار چڑھائو کا مطالعہ کرتے اور تاریخی شواہد سے اپنے بیان کو مزین کرتے۔

وہ پاکستان کے عاشق تھے۔ وہ قانون کی بالادستی کے نقیب تھے۔ وہ آئین پاکستان کو ایک مقدس دستاویز جانتے تھے۔ صداقت اور سچائی کے بیان میں وہ خوف کے دریا پار کر جاتے تھے۔ اقتدار اور طاقت انھیں ڈرا نہ سکتے تھے۔ حرص و طمع ان کی فکر، قلم، آواز اور الفاظ کو آلودہ نہ کرسکتے تھے۔ انھوں نے اگر موجودہ حکمرانوں کی ہوش ربا کرپشن کو دستاویزات کے ذریعے آشکار کیا تو تحریک انصاف کی حکومت کے دوران میں جن باتوں کو غلط سمجھتے تھے، انھیں بھی جرأت مندی اور دیانت داری سے بیان کیا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی قانون و آئین کی پابندی کا مطالبہ کرتے تھے۔ وہ پاکستان کو ہر لحاظ سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ آزاد خارجہ پالیسی کے حامی تھے۔ وہ ایک ترقی کرتا ہوا خوشحال پاکستان دیکھنے کے آرزو مند تھے۔

وہ شائستگی سے بات کرتے، اختلاف رائے برداشت کرتے۔ ہم نے کئی ٹی وی پروگراموں میں دیکھا کہ ان کو چپ رہنا بھی آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے کتنی ہی دیر تک کبھی کچھ نہ کہتے تھے۔ وہ خالص صحافی تھے۔ صحافت، تاریخ اور سماج کا مطالعہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے لیے کرتے تھے۔ انھوں نے گولہ باری اور گولیوں کی برستی بوچھاڑ میں سرحدوں سے رپورٹس کیں۔ وہ شدید سردیوں اور شدید گرمیوں میں مختلف محاذوں سے کوریج کرتے رہے۔ سمندر بھی ان کی پہنچ سے دور نہ تھے۔ وہ واقعاً ایک شجاع صحافی تھے۔ پاک فوج سے شدید محبت رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ پاک فوج آئین پاکستان کی حدود میں اپنا پیشہ وارانہ کردار ادا کرتی رہے۔

ارشد شریف کو صحافتی ذمہ داریوں سے عمدگی سے عہدہ برا ہونے کی وجہ سے صدر مملکت نے پرائیڈ آف پرفارمنس عطا کیا۔ انھیں ملکی اور غیر ملکی بہت سے اداروں نے اعزازات سے نوازا۔ پاکستان میں اچھے، بے باک، نڈر اور لائق صحافیوں کی کمی نہیں، لیکن ارشد شریف سے کہا جاسکتا ہے:
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے
شرافت اس کے چہرے سے عیاں تھی، وہ بولتا تھا تو سچائی کے پھول جھڑتے تھے۔ اس کا بیان اس کے دل کا ترجمان ہوتا تھا۔ وہ کسی کے لیے سچ نہیں بولتا تھا۔ وہ سچ کو سچ کے لیے بیان کرتا تھا۔

اس کا غم اتنا ہمہ گیر ہوگا، اس کا اندازہ نہ تھا۔ اس کی فرقت کے گیت اس کے غنیم بھی گنگنائیں گے، یہ سوچا نہ تھا۔ اُس کی عظمت کے ترانے ستمگروں کے ایوانوں میں بھی گونجیں گے، اس کا خیال نہ کیا تھا۔ وہ تاریخ میں زندہ رہے گا۔ اس کا خون حقیقی آزادی کی تحریک کو ایک نئی قوت دے گا۔ پاکستان ہمیشہ اپنے اس فرزند پر ناز کرے گا۔ وہ نصاب کی کتابوں میں پڑھایا جائے گا۔ وہ روایتوں اور حکایتوں میں زندہ رہے گا۔ اس کا عکس جمیل آنکھوں کی روشنی دے گا۔ آج جو سوز بن کر سینے میں اتر گیا ہے، وہ اہل وطن کے دلوں کی دھڑکنوں میں دھڑکتا رہے گا۔ ارشد شریف تجھ پر، تیرے عظیم باپ پر اور تیرے شہید بھائی پر سلام اور تیری عظیم سوگوار ماں کے لیے احترامات۔ ارشد شریف! عالم غربت میں تیری موت نے زندگی کی حقیقت کو ایک مرتبہ پھر ان الفاظ میں دہرایا ہے:
غم حیات زیادہ ہے اور خوشی کم ہے
تحریر: سید ثاقب اکبر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button