بشار الاسد حکومت ایرانیوں کے بغیر 2 ماہ بھی قائم نہ رہ سکی
رہبر معظم نے بشارالاسد کو ترکی سمیت، عربوں اور مغربی طاقتوں کی سازشوں سے خبردار رہنے اور انکے وعدوں پر بھروسہ نہ کرنے کی تلقین کی تھی اور "ہیئت تحریر الشام" کے فتنے سے بھی آگاہ کیا تھا
شیعہ نیوز: عربوں اور غربوں پر بھروسہ بشار الاسد کی 24 سالہ حکومت کے خاتمے کا سبب بنا، 09 اکتوبر 2024 کو بشار الاسد نے باقاعدہ طور پر ایران کو شام سے نکل جانے کا کہا، جس کے بعد بمشکل 2 ماہ بھی بشار السد کی حکومت قائم نہ رہ سکی۔
اطلاعات کے مطابق عرب حکمرانوں نے مغربی طاقتوں کی جانب سے بشار الاسد کو پر امن طور پر حکومت سے الگ ہو کر اقتدار باغیوں کو سونپنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی، جس کے عوض انکو تمام تر سہولیات کے ساتھ کسی دوسرے ملک میں پر آسائش زندگی کی آفر کی گئی، جبکہ دوسری جانب بشار الاسد بھی شام میں سالوں سے جاری خانہ جنگی سے تنگ آ چکے تھے لہذا عربوں اور غربوں کے دعدوں پر بھروسہ کر کے انہوں نےدہائیوں پر محیط اپنے خاندانی اقتدار کو ہاتھ سے جانے دیا۔ یہ وجہ ہے کہ جب باغیوں نے شام میں خروج کیا تو شامی افواج بغیر کسی مزاحمت کے پسپا ہوتی چلی گئیں اور "ہیئت تحریر الشام” کے نام سے متحارب گروپوں کا اتحاد باآسانی شام پر مسلط ہوتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: آیت اللہ سید علی خامنہ ای بروز بدھ اہم خطاب کریں گے
یاد رہے کہ باغی تنظیم "ہیئت تحریر الشام” کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے 2003 میں عراق جا کر القاعدہ میں شمولیت اختیار کی بعد ازاں 2006 میں انہیں امریکی افواج نے گرفتار کرلیا اور پانچ سال تک قید میں رکھا۔ امریکی قید سے رہائی پانے کے بعد ابو محمد الجولانی کو شام میں القاعدہ کی شاخ، النصرہ فرنٹ قائم کرنے کا کام سونپا گیا۔ سنہ 2016 میں انہوں نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر ’جبہۃ فتح الشام‘ رکھا ، بعد ازاں دیگر گروپوں کو ضم کر کے 2017 میں "ہیئت تحریر الشام” نامی تنظیم تشکیل دی جس کا مقصد شام کو اسد حکومت اور ایرانی ملیشیاؤں سے آزاد کرانا اور اپنے نظریے کے مطابق “اسلامی ریاست” قائم کرنا تھا۔
اطلاعات کے مطابق 6 ماہ قبل شامی صدر بشارالاسد نے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کی جس میں رہبر معظم نے بشارالاسد کو ترکی سمیت، عربوں اور مغربی طاقتوں کی سازشوں سے خبردار رہنے اور انکے وعدوں پر بھروسہ نہ کرنے کی تلقین کی تھی اور "ہیئت تحریر الشام” کے فتنے سے بھی آگاہ کیا تھا اور انکے مقابلے میں استقامت دکھانے کی صورت میں اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی، لیکن بشارالاسد نے عرب ہونے کی ناطے عرب حکمرانوں کی گارنٹی کے ساتھ مغربی طاقتوں کے وعدوں پر بھروسہ کیا جس کے باعث ایران کو شام سے نکل جانے کے مطالبے کے بعد بمشکل دو ماہ بھی اقتدار میں نہ رہ سکا۔