حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ، سلسلہ امامت کی چوتھی اورسلسلہ عصمت كی چھٹی كڑی ہیں۔
اسم گرامی علی کنیت ابو محمد القاب میں سے مشہورترین لقب زین العابدین آپ کے والد گرامی امام حسین علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "شہربانو یا شاہ زناں”ہے ۔آپ ایک روایت کے مطابق ۵شعبان ۳۸ھ کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے ۔
امام علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے جب سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ہوئی۔ آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور شاید علی علیہ السّلام ہی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے نام پر علی رکھا تھا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام ابھی دوبرس کے تھے جب آپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے تایا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سائے میں پروان چڑھے۔بارہ برس کے تھے جب امام حسن علیہ السّلام کی شہادت ہوئی۔ اب امامت کی ذمہ داریاں آپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سنبھال چکے تھے۔ شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جہاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پہنچ کر حدود شباب میں قدم رکھ رہےتھے۔اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ہوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رہنے کا سامان خود اپنی زندگی میں فراہم کردیا۔
۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام ۲۲ سال کے تھے جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رہے اسی لئے کربلا کے جہاد میں اس طرح شریک نہ ہوسکے جس طرح ان کے بھائی شریک ہوئے۔ قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا۔ وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ہوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے۔ادھر امام حسین علیہ السّلام شہید ہوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اہلیبیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا۔ اس وقت کااہل حرم کااضطراب، خیام میں تہلکہ اور پھران ہی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظہار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ہیں مگر کیا کہنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انھوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا۔آپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂشکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:”لاالٰہ الاَّ اللهُ حقّاًحقاً لاَالٰهَ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالھٰ الاّ الله تعبدًاورقاً”(یعنی کوئی معبود نہیں سوائے الله کے جو حق ہے یقیناً حق ہے , کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے۔ایمان اور سچائی کی روسے کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے۔ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے،میں اسکی گواہی دیتا ہوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ۔
گیارہ محرم کو فوج دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتہائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رہے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ہوجائے۔ انہیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارہےتھے۔ پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ہوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پہنچا۔ سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررہے تھے کہ یہ وہی کوفہ ہے جہاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاہزادیاں آج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ہے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ہے۔ سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتہائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود بھی ایک کوهِ وقار بنے ہوئے خاموش کھڑے تھے۔ ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین، وہ کہنے لگا:کیا الله نے علی ابن الحسین کو قتل نہیں کیا؟ امام نے جواب دیا۔»وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنہیں لوگوں نے قتل کردیا، وہ سرکش جاہل کہنے لگا۔”نہیں! بلکہ الله نے قتل کیا”امام نے یہ آیت پڑھی کہ "اَللهُ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا” یعنی الله ہی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ہے اور الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ہے جو سب کے لئے ہے۔اس پر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کہا۔ تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ہے اور فوراً قتل کا حکم دیا۔ یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کہا کہ مجھ کو بھی اس کے ساتھ قتل کیاجائے۔ سیّد سجاد علیہ السّلام نے کہا کہ پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے۔ ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میںآل محمد کے بہتے ہوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ہوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سہم جائیں گے مگر حسین علیہ السّلام کے بہادر فرزند نے تیور بدل کر کہاکہ ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ہے؟ کیا ابھی تک تجھے نہیں معلوم کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمای فضیلت ہے۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنہوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ہوگیا او رثابت ہوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شہادت سے ان کی اولاد و اہل حرم پر کوئی خوف نہیں چھایا بلکہ قاتل اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ہوچکے ہیں۔
کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ہوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وہاں کے بازارخاص اہتمام سے سجائے گئے تھے ، تمام شہر میں آئینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں عید مل رہے تھے۔ اس وقت حسین علیہ السّلام کے اہل حرم جو تکلیف محسوس کررہے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے , ایسے وقت انسان کے ہوش وحواس بجانہیں رہتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ہر موقع پر ہدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رہا تھا اموی حکومت کے ایک ہوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا۔ اے فرزندِ حسین کس کی فتح ہوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا۔ تم کو اگر معلوم کرنا ہے کہ کس کی فتح ہوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت کہی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ہوئی۔ ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمشق کے دروازے پر پہنچا تو ایک بوڑھا سامنے آیا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ وبرباد کیااو رملک کو تمہارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا۔ اور خلیفہ وقت یزید کا تم پر غلبہ فرمایا۔ ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ہم لوگوں سے واقف نہیں۔» فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ آیت قرآن پڑھی ہے”قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیٰ "کہہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اہلبیت کی محبت کے تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ بوڑھے نے کہا ہاں یہ آیت میں نے پڑھی ہے , فرمایا وہ رسول کے اہل بیت ہم ہی ہیں جن کی محبت تم پر فرض ہے۔ یوں ہی خمس والی آیت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ہے اور آیہ تطہیر میں اہلبیت کالفظ ہے یہ سب آپ نے اس کو یاد دلایا۔ بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رہا پھر کہا کہ خد اکی قسم تم لوگ وہی ہو ؟ سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا۔ ہاں قسم بخدا ہم وہی اہلبیت اور قرابتداررسول ہیں۔ یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا،عمامہ سر سے پھینک دیا۔ سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا۔خداونداگواہ رہنا کہ میں آل محمدکے ہر دشمن سے بیزار ہوں۔ پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا۔کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ فرمایا, اگر توبہ کرو تو قبول ہوگی اور ہمارے ساتھ ہوگے۔ اس نے عرض کیا کہ میں اس جرم سے توبہ کرتا ہوں جو میں نے واقف نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی شان میں گستاخی کی۔
کوفہ میں دربار ابن زیاد میں اور پھر بازارِ کوفہ میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے سید سجاد علیہ السّلام اور دیگر اہلِ حرم کی دلیرانہ گفتگو، خطبے اور احتجاج وہ تھے جنہوں نے دنیا کو شہادت حسین علیہ السّلام کامقصد بتایا اور اس طرح امام زین العابدین علیہ السّلام نے اس مشن کوپورا کیا جسے امام حسین علیہ السّلام انجام دے رہے تھے۔
واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام نے انتہائی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے۔ اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے۔ ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ پر گریہ , یہی آپ کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رہیں۔ آپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ہیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نہیں کیا , ہر ہر وقت پر آپ کو حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں۔ جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے۔ جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رہتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبراجاتے تھے۔ اور انہیں آپ کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ہونے لگتا تھا۔ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے۔ ا یک فرزند غائب ہوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں۔ میرے سامنے تو اٹھارہ عزیز واقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نہیں، قتل ہوگئے ہیں۔ میں کیسے نہ روؤں۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہ افرد لگاتار ایک ہی طرح کے انسانی کمالات اور بہترین اخلاق واوصاف کے حامل ہوتے رہے جن میں سے ہر ایک اپنے وقت میں نوعِ انسانی کے لئے بہتر ین نمونہ تھا، چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سیّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے۔ اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جوہر وہ تھا جو کربلا کے آئینہ میں نظرآیا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت آپ کی انتہا درجہ پر تھی۔ آپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کاحلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کر تحمل سے کام لے بلکہ آپ عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے۔
آپ کی مخصوص صفت جس سے آپ زین العابدین اور سیدالساجدین مشہور ہوئے وہ عبادت ہے۔باوجود یہ کہ آپ کربلا کے ایسے بڑے حادثے کو اپنی انکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ باپ بھائیوں اور عزیزوں کے دردناک قتل کے مناظر برابر آپ کی آنکھوں میں پھرا کرتے تھے اس حالت میں کسی دوسرے خیال کاذہن پرغالب آنا عام انسانی فطرت کے لحاظ سے بہت مشکل ہے مگر باپ کے اس غم وصدمہ پر جس نے عمر بھر سید سجاد علیہ السّلام کو رلایا اگر کوئی چیز غالب آئی تو وہ خوف خدا اور عبادت میں محویت تھی۔ یہاں تک کہ اس وقت آپ کے تصورات کی دنیا بدل جاتی تھی ، چہرہ کارنگ متغیر ہوجاتا تھا اور جسم میں لرزہ پڑجاتا تھا کوئی سبب پوچھتا تو فرماتے تھے کہ خیال کرو , مجھے کس حقیقی سلطان کی خدمت میں حاضر ہونا ہے۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کو زمانہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اپنے داداعلی ابن ابی طالب(ع) کی طرح خطبوں (تقریروں ) کے ذریعہ سے دُنیا کوعلوم ومعارف اور الٰہیات وغیرہ کی تعلیم دیں، نہ ان کے لئے اس کاموقع تھا کہ وہ اپنے بیٹے امام محمد باقر علیہ السلام یااپنے پوتے جعفر صادق علیہ السلام کی طرح شاگردوں کے مجمع میں علمی ودینی مسائل حل کریں اور دنیا کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں۔ یہ سب باتیں وہ تھیں جو اس وقت کی فضا کے لحاظ سے غیر ممکن تھیں۔
اس لئے امام زین العابدین علیہ السّلام نے ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا جو بالکل پر امن تھا اور جسے روکنے کادنیا کی کسی طاقت کو کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ تمام دنیا والوں سے منہ موڑ کر وہ اپنے خالق سے مناجات کرتے اور دعائیں پڑھتے تھے۔ مگر یہ مناجاتیں اور دعائیں کیا تھیں ؟ الٰہیات کاخزانہ , معارف وحقائق کاگنجینہ، خالق اور مخلوق کے باہمی تعلق کاصحیح آئینہ۔ ان دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ , صحیفہ سجادیہ اور زبور آلِ محمد کے ناموں سے اس وقت تک موجود ہے۔
افسوس ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی یہ خاموش زندگی بھی ظالم حکومت کوناگوار ہوئی اور اموی بادشاہ ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہردلوا دیا اور اس طرح۲۵محرم ۹۵ھ شہر مدینہ میں شہادت ہوئی۔ امام محمد باقر علیہ السّلام نے اپنے مقدسّ باپ کی تجہیز وتکفین کاانتظام کیااور جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السّلام کے پہلو میں دفن کیا۔