حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہاکا مختصر زندگی نامہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنی جدہ ماجدہ کی سیرت پہ عمل کیا
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنی جدہ ماجدہ کی سیرت پہ عمل کیا اور آپ سے جو روایات نقل کی گئی ہیں زیادہ تر حضرت علی ؑ کی امامت و ولایت کے بارے میں ہیں کیونکہ علیؑ کی ولایت کے اثبات کے ساتھ دوسرے آئمہ ؑ کی ولایت بھی ثابت ہوجاتی ہے۔حضرت فاطمہ معصومہ ؑ اپنی جدہ ماجدہ سے نقل کرتی ہیں :
’’انسیتم قول رسول اللہ ص یوم غدیر خم من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘
کیا تم غدیر خم کے دن رسول خدا ﷺ کا یہ قول بھول گئے ہو کہ آپ ﷺنے فرمایا ’’ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے‘‘
اسلام میں ولایت و امامت ایک بنیادی بحث ہے اس پہ خاص توجہ کے ساتھ ساتھ اسے اصول دین میں بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے یہاں تک کہ کسی مسلمان کے اعمال کی قبولیت کا معیار بھی ولایت کی قبولیت کے ساتھ مشروط ہے۔ انسانی کمال کے مراحل میں ولایت اور بصیرت دو اہم نکات ہیں اور ولایت کی قبولیت بصیرت کا ایک تقاضا ہے۔ ولایت بذات خود پروردگار عالم سے منسوب ہے لیکن اس کے اذن سے معصومین ؑ کو بھی ولایت کا درجہ حاصل ہے جیسا کہ خداوند متعال نے سورہ نساء کی آیت نمبر 59 میں صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا ہے
’’یا ایہا الذین آمنوا اطیعوااللہ و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم‘‘
چونکہ یہ ایک اہم موضوع ہے لہذا تاریخ میں خواتین بھی اس امر کی حفاظت میں پیش پیش رہی ہیں جس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات بھی شامل ہے جنہوں نے اپنی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ س اور حضرت زینب کبری س کی طرح ولایت و امامت کے دفاع کیلئے آگاہانہ ہجرت کی اور اپنی بصیرت سے اس بارے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئےشیعہ خواتین کیلئے اہم نمونے کے طور پر ابھریں۔
امام رضا ؑ نے مامون عباسی کی دعوت پر مدینے سے خراسان جانے کا ارداہ کیا ۔آپؑ کی ہجرت کا ایک سال گذر گیا تھا اور حضرت معصومہ ؑ بھائی کی جدائی میں بے قرار تھیں۔اس وقت آپ ؑ نے اپنی بہن کو خط لکھ کے انہیں اپنے پاس آنے کیلئے کہا اور حضرت معصومہ ؑنے بھائ کے دیدار کیلئے عزم سفر کیا کیونکہ وہ وقت آپہنچا تھا کہ بہن اپنے بھائ کی غربت اور حقانیت کی آواز کو حجاز سے طوس تک پھیلا کے لیےاپنے آپ کو راہ ولایت میں جاں فشانی کیلئے تیار کرے۔آپ نے اس راہ میں رنج سفر کو بخوشی قبول کرتے ہوئےقدم اٹھایا۔ ہاشمی ، علوی جوان آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ نے عالمانہ امامت و ولایت کی حمایت کی اور اپنی حیات و زندگی کی بقاء اس کے دفاع میں دیکھی لہذا مدینے سے مرو کیلئے عزم سفر کیا اور دوران سفر کئی مقامات پہ دشمن کی سازش کو بے نقاب کیا۔اس عظیم خاتون نے چشم بصیرت سے اپنے زمانے کے امام کی شناخت حاصل کی اور ان کی ولایت کی حفاظت کی خاطر ہجرت کی اور اپنی جان امام ؑ پر قربان کی۔آپ نے اپنےاس اقدام سے صرف امام رضا علیہ السلام کی امامت کا دفاع نہیں کیا بلکہ اس مقام ولایت کی حفاظت کی جو خدا پرستی کی نشانی ہے،آپ نے ہمیں ولایت کی پیروی کا درس دیا۔2
امام رضا ؑ سے آپ کا ولائی رابطہ
حضرت معصومہ ؑ کے خاندان نبوت سے ہونے کی اہمیت اس حد تک ہے کہ امام ہشتم و نہم ؑ نے ان کی زیارت کی تاکید اور حکم دیا ہے
عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا (ع) عَنْ زِیَارَةِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع بِقُمَّ- فَقَالَ مَنْ زَارَهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ.
سعد ابن سعد کہتا ہے :میں نے امام رضاؑ سے حضرت فاطمہ بنت موسی ابن جعفرؑ کی قم میں زیارت کےحوالے سے پوچھا تو آپؑ نے فرمایا : جو کوئی اس (فاطمہؑ) کی زیارت کرے،اس کیلئے جنت ہے۔3
عَنِ ابْنِ الرِّضَا (ع) قَالَ: مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَّتِی بِقُمَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ.
اسی طرح ابن الرضا،امام محمد تقی الجواد ؑ نے فرمایا : جو کوئ میری پھوپھی کی قبر کی قم میں زیارت کرے،اس کیلئے جنت ہے۔ 4
جنت میں لے جانے والے تمام اعمال ایک جیسے نہیں،کچھ اعمال خیر اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ انسان جنت میں داخل ہو اور کچھ اعمال کی وجہ سے جنت انسان کے اختیار میں دےدی جاتی ہے نہ کہ انسان جنت کے اختیار میں ہوتا ہے۔امام ہشتم اور نہم ؑ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ ؑ کی زیارت کرے جنت اس کیلئے ہے کیونکہ آپ اہل ولایت ہیں اور جو کوئی اہلبیت عصمت و طہارت کے ساتھ ولائی رابطہ رکھتا ہو اسکی کوشش ہوگی کہ اس کی ذات بھی عطر ولایت سے معطر ہو اور وہ خود اولیائے الہی میں سے ہوجائے،جو خدا کے دوستوں میں سے ہوگا ولی اللہ ہوگا اور اس صورت میں جنت اس کی مشتاق ہوگی۔
جیسا کہ تمام لوگ کریمہ اہلبیتؑ کی بارگاہ میں یوں گویا ہوتے ہیں :
إشفَعی لی فی الجنة فإن لَکِ عِندَ الله شأناً من الشأن
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس الہی ولایت کی حامل ہیں اور،قرآن آپ کے ساتھ ہے اور آپ قرآن کے ہمراہ ہیں،اگر کوئی اس مقام کو پہچانے اور اس کی معرفت کے ساتھ آپ کی زیارت کرے تو ضرور جنت کا مستحق قرار پائے گا۔5
اگر ولایت کو خطرہ ہو تو خواتین کا گھروں میں بیٹھنا جائز نہیں
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مرو جانے کے ایک برس بعد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی زیارت کے لئے اپنے چار بھائیوں اوربہت سے چاہنے والوں کے ہمراہ ایران کی جانب روانہ ہوئیں جب یہ مختصر سا قافلہ شہر ساوہ کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم سے کچھ دشمنان اہل بیت نے آپ لوگوں کا راستہ روک لیا اور ان پر حملہ کرکے خاندان پیغمبر کے تقریبا تیئیس افراد کو شہید کردیا اس دلخراش واقعہ کا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ آپ بیمار پڑ گئیں یا ایک روایت کی بنیاد پر آپ کو زہر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے باقی بچے ہوئے افراد سے پوچھا یہاں سے قم کتنی دور ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا بہت ہی نزدیک ہے آپ نے فرمایا مجھے فورا قم لے چلو کیونکہ ہم نے اپنے بابا سے بارہا سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے اور اس طرح مرو کی جانب جانے والا قافلہ قم کی طرف روانہ ہوگیا ۔قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد کی خبر تمام لوگوں کے لئے بہت ہی مسرت بخش تھی بزرگان قم اور وہاں کے عوام حضرت کے استقبال کے لئے نکل پڑے انہوں نے محبت و عقیدت سے سرشار آپ کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا استقبال کرنے والوں سے پہلے شہر قم کی معروف شخصیت موسی بن خزرج پہنچ گئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا سے خواہش ظاہر کی کہ اے معصومہ آپ ہمارے گھر میں قیام کیجئے آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا ۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کے غم جدائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت یا ایک قول کی بناء پر آپ کو جو زہر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے بیمار پڑگئیں اور صرف سترہ دن زندہ رہیں۔6
ولایت و امامت کی پیروی،آپؑ کی شہادت کی وجہ بنی
حضرت فاطمہ معصومہؑ شروع ہی سے اہلبیت عصمت و طہارت ؑ کی توجہ کا مرکز رہیں اور اس شان کی منزلت سے متعلق روایات یا حضرت فاطمہ زہراؑ سے متعلق ملتی ہیں یا جناب زینب کبریؑ کے حوالے سے۔آپؑ کا تقویٰ و پاکدامنی،عبادت،والد گرامی کی اسارت اور بھائی کی ہجرت کے دوران لوگوں کی علمی رہنمائی ، اہلبیتؑ کی احادیث و روایات کی بلاخوف تبلیغ،ولایت کی پیروی اور تبلیغ وہ اسباب تھے جو آپ کی شہادت کی وجہ بنے۔
اگرچہ اسلام نے خواتین کے پردے کی انتہائی تاکید کی ہے اور انکے لئے معاشرے کے محاذاور نسلوں کی تربیت کسی بھی لحاظ سے میدان جنگ میں نبرد سے کم نہیں لیکن یہ اس وقت تک ہے جب یہ جہاد اس سے بھی واجب ترین کام یعنی ولایت کے دفاع سے نہ ٹکرائے اس موقع پر وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خاتون جنت حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا مسجد میں خطبہ دینے کیلئے جاتی ہیں۔عام حالات کے برعکس صرف ضرورت کے تحت۔
لہذا خواتین کیلئے امر ولایت کی حمایت میں گھر سے نکلنا ایک مستحسن عمل ہے اور مخدرات عصمت وطہارت کی سیرت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ولایت و امامت کی راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔
مآخذ
1)- الغدیر، ج 1، ص 197؛ اعلام النساء المؤمنات، ص 578.
(2)-.persianblog.ir 30velayat
(3)- وسائل الشیعہ، ج14، ص576.
(4)- کامل الزیارات، النص، ص: 324.
(5)- شاخصہ ھای وجودی مقام و منزلت حضرت معصومہ(س) از منظر آیت الله العظمی جوادی آملی
(Alhajij.com -(6