آئی ایس او کا تاریخی سفر
تحریر: تجمل شگری
تاریخی پس منظر:
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پاکستان کے شیعہ طلباء کی ایک ملک گیر الہیٰ تنظیم ہے، جو کہ 22 مئی 1972ء کو دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس کا قیام آیت اللہ مرتضیٰ حسینؒ صدر الفاضل، آغا علی موسویؒ، صفدر حسین نجفی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی قیادت میں یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ہوا۔ یہ گذشتہ 51 سال سے شیعہ طلبہ کی دینی و دنیاوی تربیت و معاونت کر رہی ہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے ایک الہیٰ جدوجہد کا آغاز کرنے سے قبل ملک بھر میں شیعہ طلباء مختلف پلیٹ فارمز پر سرگرم تھے، سفیر انقلاب ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی نے مختلف شخصیات سے رابطے شروع کیے اور اس بات پر زور دیا کہ شیعہ طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا چاہیئے، قبیلہ سازی کے اس عشق نے ان الہیٰ جوانوں کو سکون سے رہنے نہیں دیا بلکہ ان جوانوں نے دن رات محنت کرکے یہ پیغام ہاسٹل در ہاسٹل ایک ایک طالبعلم تک پہنچایا، جن پر شیعہ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ان مخلص جوانوں کی پرخلوص کاوشوں کے ساتھ یہ محبت بھرا پیغام پورے ملک میں پھیل گیا اور 22 مئی 1972ء کو آئی ایس او کا سورج طلوع ہوا۔
آئی ایس او کا نصب العین:
آئی ایس او پاکستان کی بنیاد شیعہ طلباء کے درمیان بھائی چارگی، طلباء کو درپیش مسائل کے حل، ملت کی بیداری اور اتحاد و یگانگت کے فروغ پر رکھی گئی۔ اس وقت ملت کے حالات نہایت گھمبیر تھے، ان حالات میں یہ تنظیم کا نصب العین نہایت اہم تھا، یہی وجہ تھی کہ آئی ایس او کے نصب العین میں یہ شامل کیا گیا کہ اس الہیٰ کاروان کا ہدف قرآن و سنت اور تعلیمات محمد و آل محمد کے مطابق نوجوان نسل کی تربیت کرکے ان کو اس قابل بنانا ہے کہ اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بسر کرسکیں۔ اس الہیٰ تنظیم کے دستور کے مطابق یہ تنظیم ولایت فقیہ سے متمسک ہے اور رہبر مسلمین جہان سید علی خامنہ ای کو تنظیم کا لیڈر اور رہنماء تصور کرتی ہے۔ آئی ایس او کا ممبر بننے کے لیے ولایت فقیہ کا معتقد ہونا ضروری ہے۔ آئی ایس او ولایت فقیہ کی ترویج اور اشاعت میں ہمیشہ صف اول میں نظر آتی ہے۔
مفتی جعفر حسین کے دور قیادت میں آئی ایس او کا کردار:
گذشتہ نصف صدی میں آئی ایس او پاکستان نے جہاں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی تو ایک طرف شیعہ قیادت کا دست و بازو بن کر قوم کی امیدوں کو جلا بخشی۔ جہاں اس شجرہ طیبہ نے ملک و قوم کے لیے تربیت یافتہ افراد دیئے تو ایک طرف سیاسی میدان میں ظلم و ستم کے خلاف ایک توانا آواز بن کر شیعہ قیادت کی پشت و پناہ بن کر کھڑی رہی۔ اس وقت کے نازک حالات میں آئی ایس او نے شیعہ قیادت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، 1980ء میں جب مفتی جعفر حسین مرحوم منظر عام پر آئے اور انہوں نے زکواۃ آرڈننس کے زبردستی نفاذ کے خلاف کامیاب جدوجہد کرکے اپنی طرز تفکر اور بحثیت قائد سرگرمیوں کا آغاز کیا، قبلہ کی قیادت میں یہ جدوجہد کا آغاز دراصل عملی و فکری وجود کا آغاز تھا، اُس وقت آئی ایس او نے مرحوم مفتی جعفر حسین کا بھرپور ساتھ دیا۔
اس وقت کے بزرگان خوب واقف ہیں کہ آئی ایس او اس نئی قیادت کے ساتھ کس طرح میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہی۔ اپریل 1980ء کی بات ہے کہ کہ عراق میں مجاہد عالم دین شہید باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ کو صدام حکومت نے شہید کر دیا اور بربریت کی ایک تاریخ رقم کی تو اس وقت پاکستان بھر میں آئی ایس آو کے جوان اور بابصیرت عوام عراق حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، مطالبات منظور نہ ہوئے تو 4،5 جولائی کو کنونشن رکھا گیا، ابھی چند دن باقی تھے، حکومت نے زکواۃ آرڈیننس جاری کر دیا، جس مین مکتب تشیع کو یکسر نظر انداز کیا گیا، لہذا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 5 جولائی کا کنونشن نفاذ فقہ جعفریہ کے عنوان سے منانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کنونشن میں جہاں دیگر تنظیموں اور شخصیات نے اہم کردار ادا کیا، وہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور نوجوانان امامیہ نے بھرپور کردار ادا کیا۔
شہید عارف حسین الحسینی اور آئی ایس او:
اگست 1983ء میں مفتی جعفر حسین کی رحلت کے بعد ملت بے سائبان ہوکر رہ گئی۔ ملت 6 ماہ تک بغیر قیادت کے رہی۔ پھر قیادت کی انتخاب کا مرحلہ، اعتراضات اور عدم استحکام کی ایک فضا پیدا ہوئی۔ کافی جدوجہد اور مشکلات سہنے کے بعد 1984ء میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا اجلاس بلایا گیا، یہ اجلاس بھکر میں منعقد ہوا، اور 10 فروری 1984ء کو شہید عارف حسین الحسینی کی شکل میں ایک بابصیرت قیادت نصیب ہوئی۔ قیادت کے انتخاب کے بعد ایک سازش کے تحت شہید عارف حسین الحسینی کے لیے حالات ناسازگار بنانے کی کوشش کی گئی اور ملت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کسی حد تک کامیاب رہی، لیکن اس پرفتن دور میں آئی ایس او کے جوان شہید قائد کے دست و بازو بن گئے۔
شہید عارف حسین الحسینی کو قائد منتخب کرنے کے بعد آئی ایس او کے مرکزی نائب صدر برادر ظفریاب حیدر نقوی نے کہا، "اے میرے عظیم قائد آئی ایس او پاکستان آج قصر زینب میں یہ عہد کرتی ہے کہ ہر مشکل وقت اور ہر پرخطر راہ میں آپ کا ساتھ دے گی۔ ہماری صلاحیتیں، ہماری توانائیاں اور ہماری جوانیاں آپ کے اشارے کی منتظر رہیں گی۔” آئی ایس او نے قائد محترم کا دست و بازو بن کر قیادت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہید خود فرماتے ہیں کہ "آئی ایس او کے جوان میرے بال و پر ہیں، جن کے سہارے میں پرواز کرتا ہوں۔”
شہید عارف حسین الحسینی کی شہادت سے آج تک کا سفر:
آئی ایس او پاکستان کے جوانوں نے شہید قائد عارف حسین الحسینی کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر سرزمین پاکستان میں ولایت و امامت کا پرچم بلند کیا، آئی ایس او نے ملک خداداد پاکستان کی سرزمین پر امریکہ مخالف فکر کو پروان چڑھایا۔ اس الہیٰ کاروان نے ملک بھر میں اجتماعی شعور و بیداری کو اجاگر کیا۔ شہید قائد کی شہادت کے بعد ایک بار پھر ملت ایک دلسوز قائد سے محروم ہوگئی۔ اس نازک مرحلہ پر آئی ایس او نے تیسری شیعہ قیادت علامہ سید ساجد نقوی کی بھرپور حمایت کی۔ آئی ایس او نے تقریباً 8 سال تک علامہ سید ساجد نقوی کا ساتھ دیا۔ آئی ایس او نے ملکی انتخابات میں تحریک جعفریہ کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے تحریک جعفریہ اور آئی ایس او متحد نہ رہ سکیں، اس طرح امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نمایندہ ولی فقیہ سے الگ ہوگئی اور تنظیمی دستور سے نمائندہ ولی فقیہ کی اطاعت کا نکتہ حذف کرلیا۔
اگر ہم مختصر ذکر کرنا چاہیں تو شہید قائد کے بعد آئی ایس او نے علامہ سید ساجد نقوی، علامہ جواد نقوی اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری و دیگر علماء کرام کے زیر سایہ انقلاب امام زمان عجل کی جانب گامزن رہنے کی کوشش کی، ہر قیادت کو آزمایا لیکن آئی ایس او کسی سے مطمئن نظر نہیں آرہی۔ یہ آئی ایس او کی روایت شکنی کی واضح دلیل ہے۔ اس وقت آئی ایس او ملک میں کسی قیادت کی قائل نہیں بلکہ آئی ایس او کے دستور کے مطابق یہ کاروان ولایت فقیہ سے متمکس ہے اور ولایت فقیہ کے زیر نگرانی میں سفر طے کر رہا ہے۔ البتہ اس وقت پاکستان میں آئی ایس او اور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان روابط مضبوط ہیں۔ کچھ جگہوں پر شیعہ علماء کونسل، امت واحدہ اور دیگر ملی تنظیموں کے ساتھ آئی ایس او کے بہتر روابط ہیں۔ دیگر تنظیمیں اور علماء کرام اسی نکتے پر اعتراض کرتے ہیں کہ آئی ایس او ایک انقلابی کاروان ہے اور اس الہیٰ کاروان کو جمہوری جماعتوں کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ انقلابی جہت میں آگے بڑھنا چاہیئے۔
تشیع کے تین ڈھڑے اور آئی ایس او:
اس وقت پاکستان میں ملت تشیع سیاسی طور پر تین لیکن فکری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ سیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو ایک گروہ علامہ سید ساجد نقوی، دوسرا گروہ علامہ راجہ ناصر عباس اور تیسرا گروہ علامہ جواد نقوی کی سربراہی میں انقلاب امام مہدی کے لیے زمینہ سازی کر رہا ہے، فکری طور پر ملت تشیع دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک گروہ اس وقت میں پاکستان میں جمہوری حکومت کا حصے بننا ضروری سمجھتا ہے، تاکہ شیعی مفادات کا تحفظ ہوسکے، اس بلاک میں مجلس وحدت مسلمین، شیعہ علماء کونسل، جی ایس او، آئی ایس او سمیت کچھ تنظیمیں شامل ہیں۔ دوسرا گروہ جس کی قیادت علامہ جواد نقوی صاحب کر رہے ہیں، ان کا موقف ہے کہ جمہوری پراسس کا حصہ بننا ہرگز درست نہیں ہے، بلکہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیئے۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ اختلاف صرف فکری اختلاف ہے، دشمن کی جانب سے یہ اختلاف دشمنی میں بدلنے کی سازش روز روشن کی طرح واضح ہے۔ علاؤہ ازیں ایک قابل وضاحت سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ایم ڈبلیو ایم، ایس یو سی، آئی ایس او اور جے ایس او وغیرہ ہم فکر ہیں، لیکن یہ سب متحد نہیں ہیں۔؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ یہ تنظیمیں ہم فکر ہونے کے باجود متحد کیوں نہیں ہیں۔؟
خلاصہ:
آئی ایس او نے 51 سالہ شاندار تاریخ رقم کی ہے، اس تنظیم کو نصف صدی گزر چکی ہے، مختلف ادوار میں مختلف کوششیں کی گئیں، تاکہ اس تنظیم کو کمزور کیا جاسکے، لیکن اس الہیٰ کاروان کے مخلص جوانوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ہر بار نئے عزم کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔ آئی ایس او اپنے شاندار ماضی اور روشن مستقبل کے ساتھ انقلاب امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی جانب رواں دواں ہے، پاکستان کی سرزمین پر اس جماعت نے انقلاب کا پرچم بلند کیا، ولایت کا جھنڈا بلند رکھا، ولایت فقیہ سے متسمک ہوکر ولایت فقیہ کو پاکستان بھر بلکہ دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ آئی ایس او پاکستان ملک بھر میں شیعہ طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت کے لیے اقدامات کر رہی ہے، پری بورڈ ایگزام، تعلیمی سیمینارز، کوئیز پروگرامز، اسکاؤٹ کیمپ سمیت متفرق تربیتی سرگرمیاں آئی ایس او کے تحت ملک بھر میں جاری و ساری ہیں۔
آج اس تنظیم کو مسائل درپیش ہیں تو فقط نظریاتی اختلافات ہیں، ان نظریاتی اختلافات کو لیکر افراتفری پھیلانے کی بجائے امن، بھائی چارگی اور اتحاد و اتفاق جیسی اعلیٰ اقدار کو فروغ دینا چاہیئے، تاکہ ہم ایک عظیم انقلابی کاروان اور شجرہ طیبہ کی نعمت سے محروم نہ ہو جائیں۔ آئی ایس او، پاکستان کی سرزمین پر وہ واحد تنظیم ہے، جسے ولایت فقیہ کی تائید حاصل ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای حفظ اللہ آئی ایس او کے جوانوں کو اپنی آنکھوں کا نور سمجھتے ہیں۔ لہذا عالمی نہضت اسلامی سے وابستہ یہ تنظیم ملت پاکستان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے، اللہ پاک ہمیں اس شجرہ طیبہ سے منسلک رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔