انٹرویو

اگر خطے میں کوئی جنگ ہوئی تو امریکا سروائیو نہیں کرسکے گا

سوال: کیا کشمیر ایشو پر حکومتی اقدامات کافی ہیں؟، دوسرا کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: کشمیر کے مسئلے پر حکومتی اقدامات ناکافی ہیں، میری نگاہ میں بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت میں دو الگ طرح کے مکتب فکر ہیں، ایک جس کو شاہ محمود قریشی صاحب لیڈ کرتے ہیں اور اس میں انکا انداز بہت زیادہ امیدوار نہیں ہوتا بلکہ وہ مشکلات کو زیادہ بتاتے ہیں، اپنی سیاسی اور اقتصادی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے وہ انڈیا کے سحر کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، دوسرا مکتبہ فکر وہ ہے جسے خود عمران خان لیڈ کرتے نظر آتے ہیں، جس میں کہتے نظر آتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، آپ نے دیکھا کہ بھارتی صدر کو پاکستانی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دی گئی، یہ ایک مناسب بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کشمیریوں نے اس مسئلے کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی 70 سال کی غفلتوں کا مداوا کرسکتا ہے، تمام طبقات اس وقت بھارت کے خلاف ہوگئے ہیں، جو بھارت نواز تھے، وہ بھی مخالف ہوگئے ہیں اور بھارتی اقدام کو مسترد کرچکے ہیں، دس لاکھ دشمن کی فوج ٹریپ ہوگئی ہے، آپ کے پاس بہترین موقع ہے کہ لوکل لوگوں کی مدد کریں اور تحریک کو بڑھاوا دیں۔

یاد رکھیں کہ کشمیری آپ کو مددگار سمجھتے ہیں، ماحول بنانے میں وہ جتنی مدد کرسکتے تھے انہوں نے کر دی ہے، 50 دن کے کرفیو میں انڈیا کی فوج کا اس علاقے کو نہ کھولنا اور خوف میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کشمیری بھارت کو قبول نہیں کر رہے، اس وقت انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، اس کو اس طرح سے نہیں دکھایا جا رہا، جس طرح سے دکھانا چاہیئے تھا، عالمی سطح پر ایشو کو بہتر انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے، لابنگ کرنے کی ضرورت ہے، جب بھی کسی مسئلے کو دنیا نے حل کرنا ہوتا ہے، اس مسئلے کو بڑا بنانا پڑتا ہے، اس مسئلے کو سنجیدہ بنانے کی سخت ضرورت ہے کہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے، یہ مسئلہ بڑھا تو پورے خطے کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، اگر فوجیں آگے بڑھتی ہیں اور کشیدگی کی فضا قائم ہوتی ہے تو انڈیا پر پریشر آئے گا۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ برطانیہ یا امریکا مسئلہ حل کرے گا، تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، برطانیہ نے ہی یہ مسئلہ چھوڑا اور امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ مسئلہ حل ہو، کشمیر پر یہی صورتحال برقرار رہی تو کشمیر تیزی سے عالمی مقاومت کے بلاک میں چلا جائیگا، جو فطری بلاک ہوگا۔ مزاحمت کے لوگ کسی کی طرف نہیں جھکیں گے، کیونکہ بالآخر عزت، غیرت کے معاملات ہیں، کشمیریوں کی عورتوں کی عزت و حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے، وہاں جارح لوگ ہیں، حقوق پامال کر رہے ہیں، پہلے بھی مزاحمت کے بلاک نے پسے ہوئے لوگوں کو کھڑا ہونا سکھایا ہے، اگر یہ معاملہ اس طرف چلا گیا تو بہت تیزی کے ساتھ تحریک جان پکڑے گی۔

سوال: کشمیر پر عالمی رسپانس کیسے دیکھ رہے ہیں، دوسرا وزیراعظم سعودی عرب کا تیسرا دورہ کر رہے ہیں، جبکہ سعودیہ نے ایک حرف تک نہیں کہا، ان دوروں کا مقصد کیا نظر آرہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: کشمیر پر جو عالمی ردعمل ہے، وہ چونکہ ایک عرصے سے ہماری کشمیر کمیٹی کے ڈیڈ ہونے کی وجہ سے اس طرح نہیں اٹھ سکا، جس طرح اٹھنا چاہیئے تھا، کشمیر سیل مکمل طور پر ڈیڈ تھا، عملی طور پر کشمیر کے مدعی ہونے کے ناطے ہم اپنے کیس کو لے کر نہیں چل رہے تھے تو کشمیر کا مسئلہ دبا ہوا تھا، انڈیا نے آئینی ترامیم کرنے کی کوشش کی اور لوگوں نے جو مزاحمت کی ہے، اس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے، دنیا کا یہ کوئی چھوٹا علاقہ نہیں، جغرافیائی طور پر یہ علاقہ بہت اہم ہے، آبادی کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور سی پیک اور ترقیاتی کام کے حوالے بھی اس علاقہ کی اپنی اہمیت ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چائنہ کی ترقی کا راستہ سی پیک سے گزرتا ہے تو چائنیز کو روکنے کا راستہ بھی یہیں سے گزرتا ہے، اس لحاظ سے عالمی ردعمل جو آیا ہے، وہ تقسیم ہے، امت مسلمہ امت کے طور پر کھڑی نہیں ہوسکی، اسلامی ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اچھے اور قریبی ہیں، ان میں یو اے ای اور سعودی عربیہ ہیں اور اس دورانیے میں دونوں ملکوں نے نہ صرف مودی کو دعوت دی بلکہ ویلکم کیا اور اعزازات سے نوازا ہے۔

اسی طرح اس ایک اسلامی ملک جہاں پر عوامی اور حکومتی سطح پر کشمیری مزاحمت کو سپورٹ کیا گیا ہے اور پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی ہے، ہم ابھی تک ان کے پاس نہیں گئے ہیں، اس کیفیت میں ہم نے دوست اور دشمن کی صحیح پہچان نہیں کی ہے، دشمن کے دوست کو دشمن بھی نہیں سمجھا جو ہماری ناکامی کی علامت ہے۔ اسی طرح ہم یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے میں ناکام ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کا کشمیر کا معاملہ اٹھانا آپ کی کارکردگی ہے، لیکن جس طرح سے اٹھانا چاہیئے تھا، نہیں اٹھایا گیا۔ ہماری لابنگ کمزور ہے، عالمی اور اسلامی ممالک میں بھی ہماری لابنگ کمزور ہے۔ میرے خیال میں حکومت نے اپنی آپشنز صحیح استعمال نہیں کیں، دفتر خارجہ کو فوری متحرک نہیں کیا۔ وزیراعظم سعودی عرب چلے گئے، مگر انہوں نے ایک حرف تک ادا نہیں کیا، آپ وہاں نہیں گئے، جہاں آپ کو مکمل سپورٹ مل سکتی ہے۔ سعودی عرب اور گلف ممالک پاکستان کے موقف کے حامی نہیں ہیں۔

سوال: حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا، لیکن مسائل جوں کے توں ہیں، آپ اسے کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: یہ درست ہے کہ حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے اور بعض جہتوں میں مثبت ترقی ہوئی ہے اور بعض وہ جہتیں بھی ہیں، جہاں بہت مثبت کام ہوسکتا تھا لیکن نہیں ہوا، جیسے لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کیلئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیئے، اس کیلئے اضافی پیسوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، جہاں لا اینڈ آرڈر بہتر نہیں ہوتا، وہاں اقتصادی ترقی بھی نہیں ہوتی، اسی طرح غریبوں کیلئے جو بنیادی چیزیں فراہم ہوسکتی تھیں، جیسے کسان اور ایک عام آدمی کو بجلی، گیس اور دیگر چیزوں میں ریلیف دیا جاسکتا تھا، نہیں دیا گیا، الٹا زندگی کی دوڑ میں یہ طبقہ بہت متاثر ہوا ہے، ان کیلئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا ہے، ترقیاتی منصوبوں پر کچھ خرچ نہیں کیا جا رہا، اور فقط قرضے واپس کیے جا رہے ہیں، اس میں توازن قائم نہیں رکھا جا رہا۔

اس کے علاوہ کرپشن میں کمی ہوئی ہے، بڑے بڑے کرپٹ لوگ جن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا تھا، ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، اسی طرح ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جا رہا ہے، بجٹ خسارے میں کمی آئی ہے، برآمد اور درآمدت میں توازن آرہا ہے، لیکن جس طرح ہماری خارجہ پالیسی کو متوازن بنانا چاہیئے تھا، اس کو عملی طور پر نہیں بنایا جاسکا، جیسے آپ یمنیوں کے خون بہنے پر تو خاموش رہیں، لیکن تیل تنصیبات پر حملوں پر بات کریں، آل سعود کے ظلم پر خاموش رہیں، کچھ وراثت میں ملنے والی پالیسیاں ابھی تک چلائی جا رہی ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں ملک میں مثبت چیزوں میں بہتری نہیں آئی، مگر منفی چیزوں میں کمی ہوئی ہے۔

سوال: نیب کارروائیاں جاری ہیں، خورشید شاہ بھی اندر ہوگئے، اپوزیشن کہتی ہے سلکٹو جسٹس ہو رہا ہے، کیا واقعی ایسا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: نیب اور چیف جسٹس کے بیانات کو اگر آپ سامنے ملا کر پڑھیں تو یہ تاثر صرف چیف جسٹس نے نہیں لیا بکہ عوام میں بھی یہ تاثر ہے کہ سیلکٹو جسٹس ہو رہا ہے، یہ تاثر اگر صحیح ہو تو بذات خود یہ ایک غلط چیز ہوگی اور اگر یہ تاثر غلط بھی ہے، تب بھی حکومت کو اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومتی اور اتحادی حلقوں میں کرپٹ لوگوں کے خلاف تلوار نہ چلے، احتساب ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے اور سب کا ہونا چاہیئے۔ مجموعی طور پر حکومت کی کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی لگ رہی ہے اور اسے آگے بڑھنا چاہیئے، خورشید شاہ کے بعد اور شخصیات کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔

سوال: مولانا فضل الرحمان کے ممکنہ احتجاج کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس وقت مولانا فضل الرحمان مزاحمت کی سیاست کرتے نظر آرہے ہیں اور پیپلزپارٹی اور نون لیگ مزاحمتی سیاست سے دود دکھائی دے رہی ہیں، اس سے ان جماعتوں کا نقصان ہوگا اور ووٹ بینک بھی متاثر ہوگا۔ یہ جماعتیں عوامی پذیرائی بھی بہت کم کر بیٹھیں گی اور عین ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں توازن برقرار نہ رکھ سکے، یہ پریشر اب سندھ میں چلا گیا ہے، اپوزیشن مضبوط پریشر میں ہے، چیف جسٹس کی بات سے لگتا ہے کہ عدالت میں بھی سلکٹو جسٹس ہو رہا ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے کیس میں بہت کچھ واضح ہوگیا ہے۔ عدالت کو صرف سیاست دانوں کے ہی کیس نہیں سننے چاہیئے، خود ججز کے خلاف جو پہلے سے درج کیسز ہیں، انہیں بھی سننا چاہیئے۔

سوال: یمن تنازعہ کس کروٹ بیٹھتا نظر آرہا ہے، سعودی تنصیبات پر حملے اور الزامات کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: یمن تنازع بہت واضح ہے، جیسا کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ سعودی استعمار کی ناک یمن میں رگڑی جائے گی، یہ بالکل واضح ہوگیا ہے۔ یمنیوں کے وزیر دفاع نے تازہ پریس کانفرنس کی ہے اور انہوں نے واضح کہا ہے کہ کوئی جگہ ہماری پہنچ سے باہر نہیں ہے اور ہم اس سے مزید بڑھ کر بھی وار کرسکتے ہیں، کوئی جگہ ہماری اپروچ سے باہر نہیں ہے، انہوں نے یو اے ای کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر امارات نے باقی فوج کو نہ بلایا تو آئندہ اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ داد دینی چاہیئے کہ یمنیوں نے نپی تلی کارروائی کی ہے اور ایک بھی بندہ نہیں مارا گیا، بس آئل تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حوثی اللہ پر توکل اور توسل میں بہت مضبوط ہیں۔

یمنیوں نے اپنی اہلیت، لیاقت اور استعداد کار میں بہت اضافہ کیا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری دکھائی ہے، یمنیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں، لیکن انہوں نے سعودیہ اور یو اے ای کی اقتصادیات کو آگ دکھا دی ہے، مذاکرات کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، جنگ بند کریں۔ یہ جنگ ختم کرنا پڑے گی، یمنیوں کو اپنی حکومت بنانے اور چلانے میں آزاد چھوڑنا ہوگا، یہ جنوب اور شمال کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیں گے، اگر تقسیم کی سازش کامیاب نہ ہوئی تو انقلاب اسلامی سے متاثر سعودی عرب کے بارڈر پر ایک اور اسلامی حکومت ہوگی، جو مزاحمت کے بلاک کا حصہ ہوگی۔ ایک اور بات کہنا چاہوں گا کہ یمن نے یہ جو پندرہ سو کلو میٹر یا سولہ سو کلو میٹر دور ڈروں اٹیک کیا ہے، یہ ایک اور نشاندہی ہے کہ یہ بحرین سے 50 کلو میٹر دور حملہ ہوا ہے، جہاں امریکن پانچواں بحری بیڑا موجود ہے، جسے علم تک نہ ہوسکا اور ڈیٹکٹ تک نہیں کرسکا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی بحری بیڑے بھی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہو جائیں گے، جو سپر طاقت کیلئے ایک علامت ہے۔

سوال: جواد ظریف نے سی این این کو انٹرویو دیا ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو پھر ایران آخری امریکی سپاہی کی اس خطے میں موجودگی تک جنگ لڑے گا۔ اس بیان کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: جواد ظریف کا بیان بہت ہی زبردست بیان ہے، انہوں نے ایرانی پالیسی میں سے بعض چیزیں جس انداز میں بیان کی ہیں، ان میں سے چند نکات میں بیان کرتا ہوں۔ نمبر ایک یہ کہ امریکن فورسز یہاں جارح ہیں، وہ اس علاقے کی نہیں ہیں، وہ اجنبی ہیں، لہذا علاقے کے لوگ ان کو پسند نہیں کرتے، یہاں ان کے رہنے کا کوئی آئینی جواز ہی نہیں، مگر بعض ملکوں سے جبر کے ذریعے انہوں نے یہ اختیار لیا ہوا ہے، اگر اس خطے میں کوئی جنگ ہوتی ہے تو امریکا اس علاقے میں سروائیو نہیں کرسکتا، ایران کی جانب سے ڈرون اتارنا، ڈرون کو تباہ کرنا، آبی گزرگاہ پر جہازوں کو روکنا، ماضی میں خود امریکیوں کو ہاتھ باندھ کر لے جانا اور پھر چھوڑ دینا ثابت کرتا ہے کہ ایران بہت آگے ہے، فرض کرتے ہیں کہ یمنیوں کو ڈرون ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارت ایران نے دی ہے تو پھر بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران کی رسائی بہت آگے بڑھ گئی ہے، وہ یمن میں بھی ہے، عراق میں بھی ہے اور شام میں بھی ہے، وہ فلسطین میں بھی موجود ہے، اس صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکا ایران سے جنگ کرنے کی جرات کرسکتا ہے، جواب نہیں ہے۔

میں نے رائٹر میں مغربی صحافی کو پڑھا ہے، جو کہتا ہے کہ آخری بڑی جنگ چنگیز خان کی ہوئی اور وہ بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ اتنے بڑے جغرافیہ پر جنگ نہیں لڑی جاتی۔ یہ اس سے بڑا جغرافیا ہے، جہاں امریکی سلطنت غرق ہو جائی گی، یہ انقلابیوں کیلئے بہترین موقع ہوگا کہ وہ اسے سینڈوج بنا دیں۔ اوپن جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تیل والے ممالک جن کا کوئی نظریہ نہیں ہے، وہ مزاحمت نہیں کرسکتے۔ ایک حملے میں اگر تیل کی پیدوار آدھی رہ جاتی ہے اور ایک براہ راست جنگ جس میں ایران شامل ہو جائے تو پھر سوچیں کیا ہوگا۔؟ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کو سمجھ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جو ان کی تباہی پر ختم ہو، وہ سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کے کندھے پر رکھ کر کام کریں گے، جو ہر صورت ناکامی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button