روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر کالم نگار اور اینکرپرسن جاوید چوہدری صاحب کا ایک کالم بعنوان نیور اگین آٹھ دسمبر 2020ع کو اپلوڈ ہوا۔ یوں تو وہ اس سے پہلے بھی اسرائیل کے حوالے سے کالم لکھ چکے ہیں، لیکن اس مرتبہ انہوں نے پینترا بدل کر پرانے موقف کو ایک نئے انداز میں بیان کیا ہے۔
جانو جرمن یہودی صحافی کے دوست جاوید چوہدری کو جواب
انکا دعویٰ ہے کہ ایک جرمن یہودی صحافی جو مڈل ایسٹ پر کام کرتا ہے، اسکے ساتھ فیس بک کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔ جب متحدہ عرب امارات نے پاکستانیوں کے لیے ویزے بند کردیے تھے، تب جاوید چوہدری نے جرمن یہودی صحافی سے رابطہ کرکے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی۔
چونکہ انہوں نے اس موضوع پر جرمن یہودی صحافی کا تذکرہ کیا اس لیے ہم نے بھی اس تحریر کا عنوان جانو جرمن یہودی صحافی کے دوست جاوید چوہدری کو جواب، رکھا ہے۔
انتہائی مضحکہ خیز پس منظر
کالم نگار جاوید چوہدری صاحب نے انتہائی مضحکہ خیز پس منظربیان کیا ہے۔ اگر ویزا امارات نے بند کیا تو اسلام آباد میں امارات کا سفارتخانہ موجود ہے، وہاں بھی کسی سے پوچھ سکتے تھے۔ ایک پاکستانی صحافی اور وہ بھی اتنا تجربہ کار، کیا اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس خبر کی تفصیل کا سب سے پہلا اور مستند ترین رسمی ذریعہ کیا تھا!۔
اسرائیل کے موضوع پر فیڈڈ مواد
صاف ظاہر ہے کہ وہ سعودی، اماراتی، امریکی ذرایع تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔ انکی تحریریں اس حقیقت کی چغلی کھاتی ہیں کہ اسرائیل کے موضوع پر وہ فیڈڈ مواد پیش کرتے آرہے ہیں۔ البتہ نیور اگین کے عنوان سے انہوں نے جرمن یہودی صحافی کو درمیان میں رکھ کر جو حقیقت بیان کی وہ یہ ہے کہ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کے ذریعے پاکستان کے خلاف یہ کارروائی کی ہے۔
پاکستان کو پہلا جھٹکا
یہ پاکستان کو پہلا جھٹکا ہے اوور دوسرا جھٹکا ایک اور اسلامی ملک کی طرف سے سامنے آئے گا۔ اور اسکے بعد پاکستان اکیلا رہ جائے گا۔ یعنی جاوید چوہدری نے کل ملاکر وہی بات نئے انداز میں پیش کردی کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں مزید ایسے مخاصمانہ اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور ساتھ ساتھ جھوٹ پرمبنی اسرائیلی موقف کو جرمن یہودی صحافی کے نام سے دہرادیا۔
چوہدری صاحب اور انکے کالم کے قارئین نوٹ فرمالیں
فلسطین ایشو کے حوالے سے چند حقائق پیش جاوید چوہدری صاحب اور انکے کالم کے قارئین نوٹ فرمالیں۔ یہ ایک عرب اکثریتی سرزمین ہے۔ عرب ایک لسانی و ثقافتی شناخت ہے نہ کہ دینی و مذہبی۔ عرب میں مسلمان اور عیسائی دونوں ہی شامل ہیں۔
فلسطینی تحریکوں میں عرب مسلمان اور عیسائی دونوں ہی ساتھ
تو یہ مسئلہ محض مسلمانوں کا نہیں عیسائیوں کا بھی ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین سمیت مسلح مزاحمتی فلسطینی تحریکوں میں عرب مسلمان اور عیسائی دونوں ہی ساتھ رہے ہیں۔ نام ور فلسطینی دانشور پروفیسر ایڈورڈ سعید عیسائی فلسطینی تھا۔ حنان عشروی عیسائی خاتون فلسطینی رہنما ہیں۔
اسرائیل کا اپنا وجود غیر جمہوری ہے
یہ چند مثالیں ہیں۔ یہ اس لیے پیش کی ہیں کہ ان زاویوں سے جاوید چوہدری صاحب اسرائیل کے موضوع کو بیان کرتے آرہے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ کہ اسرائیل کا اپنا وجود غیر جمہوری ہے اور اسی لیے عرب دنیا میں ڈکٹیٹر اور موروثی سلطان، شاہ و شیوخ کو حکمران بناکر مسلط کیا گیا۔ حسنی مبارک ڈکٹیٹر اسرائیل کو تسلیم کرتا تھا۔ اردن کا شاہ حسین اسرائیل کو تسلیم کرتا تھا۔
مراکش اور اسرائیل ساٹھ برسوں سے خفیہ تعلقات
آگے بڑھیے اور مراکش سے متعلق حقیقت جان لیجیے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق مراکش اور اسرائیل ساٹھ برسوں سے خفیہ طور پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے آرہے ہیں۔ حتیٰ کہ اسرائیل نے جون 1967ع کی جنگ میں تین عرب ملکوں کو ایک ہی جنگ میں شکست دے کر بیت المقدس پر جو غیر قانونی قبضہ کیا، اس کی کامیابی کا سہرا بھی مراکش کے سر جاتا ہے۔
پچیس برسوں سے امارات اور اسرائیل خفیہ تعلقات
مراکش نے تعلقات نارملائز کرنے کا اعلان اب دسمبر 2020ع میں کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھی اعلان اب ہوا ہے ورنہ پچھلے پچیس برسوں سے دونوں کے مابین خفیہ تعلقات قائم تھے۔
سعودی عرب اور سرائیل کے سفیروں کی خوشگوار ملاقات
سعودی عرب اور اسرائیل کے بھی غیر اعلانیہ تعلقات عرصے سے قائم ہیں۔ جب بیگم عابدہ حسین امریکا میں پاکستانی سفیر تھیں تو وہ سعودی عرب اور سرائیل کے سفیروں کی خوشگوار ملاقات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کرتیں تھیں۔
جانو جرمن یہودی صحافی کے دوست جاوید چوہدری کو جواب
بیگم عابدہ حسین نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب پاور فیلیئر میں سعودی سفیر بندر بن سلطان کی اس وقت کے اسرائیلی سفیر کے ساتھ تعلق کا آنکھوں دیکھا حال قلمبند کیا ہے۔ تو محض اعلان ہونا باقی ہے ورنہ سعودی ولی عہد سلطنت سے سعودی شہرنیوم میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتنیاہو اور موساد کے سربراہ کی ملاقات کی خبر بھی اسرائیلی صحافی نے لیک کی تھی۔ عمان میں بھی اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتنیاہو نے اعلانیہ دورہ کیا تھا۔
فلسطین ایشو آج بھی ایک حقیقت
انہوں نے تو اپنی دانست میں فلسطین ایشو کو دفن کرکے رکھ دیا لیکن فلسطین ایشو آج بھی ایک حقیقت ہے۔ اسرائیل اور ان عرب ملکوں کے خفیہ تعلقات اور مدد و تعاون کے باوجود فلسطین کا ایشوزندہ رہا۔ فلسطین میں پہلی جمہوری حکومت حماس کی بنی تو اسرائیل و امریکا سمیت پوری دنیا نے اس کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دی۔ تو مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں جمہوریت سے نفرت امریکا، ڈکٹیٹر و بادشاہت اور اسرائیل سبھی میں ایک قدر مشترک ہے۔
آمریت و غیر نمائندہ غیر جمہوری حکومت
زایونسٹ امریکی سعودی عربی غربی اسرائیلی بلاک نے ہی آمریت و غیر نمائندہ غیر جمہوری حکومتوں کو یہاں مسلط رکھا ہواہے۔ سعودی عرب میں تو تقریباً ایک صدی سے جمہوریت نہیں ہے۔ حسنی مبارک تین عشروں تک مصر کا ڈکٹیٹر حکمران رہا۔ وہ امریکا و اسرائیل دونوں کا اتحادی تھا۔
اخوان المسلمین کا محمد مرسی الیکشن کے نتیجے میں صدر بنا تو اسے کتنی کم مدت میں سازش کرکے برطرف کرکے عبدالفتاح ال سیسی کو حکمران بنادیا۔ جبکہ محمد مرسی قید میں دم توڑ گیا۔
پانچ ہزار سالہ تاریخ کے جھوٹے دعوے
پانچ ہزار سالہ تاریخ کے جھوٹے دعوے سے متعلق حقیقت بھی جان لیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موجودہ عراق سے ہجرت کرکے فلسطین میں کچھ عرصہ قیام کیا۔ کچھ عرصہ انہوں نے مکہ میں زندگی گذاری۔ حضرت ابراہیم ع کے بیٹے حضرت اسماعیل ع کی اولاد عرب کہلائی۔ حضرت اسحاق علیہ کی اولاد یہودی کہلائی۔ حضرت ابراہیم ع کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور ہی میں فلسطین میں قحط کی وجہ سے انکی اولاد کو مصر منتقل ہونا پڑا تھا۔
بنی اسرائیل طول تاریخ میں نافرمان اور سرکش ترین امت
حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں تھے۔ چونکہ حضرت یعقوب ع کا ایک لقب اسرائیل تھا اس لے انکے بیٹے بنی اسرائیل کہلائے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ بنی اسرائیل طول تاریخ میں نافرمان اور سرکش ترین امتوں میں سرفہرست رہی۔ حضرت موسی ؑ انکے نجات دہندہ بنے۔ انہوں نے ان سے وفا نہیں کی۔ انہوں نے حضرت ہارون کو جانشین بنایا، یہ سامری کی اطاعت میں لگ گئے۔
انبیاء ع سے اس نافرمان بنی اسرائیل امت کو کیا نسبت!؟۔
پیغمبر خدا حضعرت موسیٰ ع کے دور میں بنی اسرائیل کی نقل مکانی کا آغاز ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ انبیاء ع سے اس نافرمان بنی اسرائیل امت کو کیا نسبت!؟۔ یہ نافرمانی و سرکشی کی وجہ سے مختلف نوعیت کی مشکلات میں مبتلا ہوتے رہے۔ پیغمبران خدا عدل و انصاف کے لیے مبعوث ہوتے ہیں اور یہ بنی اسرائیل خود پیغمبران خدا کے نافرمان رہے۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کا دور یہودی حکومتوں سے زیادہ
خیر قصہ طویل نہ ہوجائے۔ یہودی اس سرزمین فلسطین پرطول تاریخ جتنا عرصہ رہے، اس سے زیادہ عرصہ دیگر اقوام یہاں رہ چکیں ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکوانے میں یہودیوں کا سازشی کردار تھا۔ طول تاریخ میں حکومتی ادوار کے لحاظ سے بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کا دور یہودی حکومتوں سے زیادہ رہا ہے۔
کسی بھی دور میں سرزمین فلسطین کا نام اسرائیل نہیں رہا
یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی دور میں سرزمین فلسطین کا نام اسرائیل نہیں رہا۔ حضرت عمر کے دور حکومت میں فلسطین مسلمان حکومت کے ماتحت علاقہ قرار پایا۔ تب بھی ہاں یہودیوں کی تعداد غیر یہودیوں کی نسبت کم ہی تھی۔ یہودی اپنے حالات کو بہتر کرنے کے لیے یہاں سے نقل مکانی کرتے رہے۔ غرضیکہ وہ پوری دنیا میں مختلف ممالک میں آباد ہوگئے۔ پھر ایک سامراجی نسل پرستانہ سازش کے تحت انیسویں صدی میں انہوں نے زایونسٹ تحریک کے پلیٹ فارم سے فلسطین پر ناجائز قبضے کی نیت سے یہاں آنا شروع کیا۔
سامراجی نسل پرستانہ سازش
بڑے پیمانے پر یہودی نقل مکانی کرکے یہاں پڑاؤ ڈالنے لگے۔ پہلی جنگ عظیم تا دوسری جنگ عظیم انکی نسل پرستانہ سازشانہ آمد و آبادکاری کا سلسلہ جاری رہا۔ سال 1948ع میں جن یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا ان میں سوائے ایک کے سب دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے یہودی تھے۔ اور تب بھی عرب فلسطینیوں کی اکثریت تھی۔
فلسطینی دیگر ملکوں کے پناہ گزین کیمپوں میں
جمہوری اصولوں کے تحت بھی یہودی فلسطین میں اپنا ملک نہیں بناسکتے۔ قانونی لحاظ سے بھی نہیں بناسکتے کیونکہ یہ غیر مقامی یہودی ہیں۔ زیادہ تر یورپی ممالک، روس اور امریکا سے یہاں آئے ہیں۔ آج بھی ان ملکوں میں یہودی امن و سکون سے رہتے ہیں۔ جبکہ فلسطینی دیگر ملکوں کے پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذاررہے ہیں۔
اسرائیل ایک لینڈ مافیا، غیر قانونی قبضہ گروپ ہے
یہ کھلا ظلم ہے۔ اسرائیل ایک لینڈ مافیا، غیر قانونی قبضہ گروپ ہے۔ یہ ایک ناجائز نسل پرست وجود ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرلینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر بھارت کہے کہ پاکستان اسکا حصہ ہے یا کشمیر کی طرح اٹوٹ انگ ہے تو وہ اسرائیل سے زیادہ مضبوط دلیل سمجھی جاسکتی ہے۔
جانو جرمن یہودی صحافی کے دوست جاوید چوہدری کو جواب
اس لیے پاکستان اور کشمیر سمیت پوری انسانیت کا مفاد اس میں ہے کہ فلسطین کے ایک انچ پر بھی غیر فلسطینی دعویٰ قبول نہ کیا جائے۔ اور اسرائیل پورے کا پورا فلسطین کی سرزمین پرغیر فلسطینی یہودی نسل پرستوں کے ناجائز قبضے پر مشتمل علاقے کا نام ہے۔
اب اس جانو جرمن یہودی صحافی کے نام سے مزید کوئی اوٹ پٹانگ تکے مت نقل کیجیے گا، جاوید چوہدری صاحب!۔