مقالہ جات

معرکہ حق و باطل ہے | مفتی گلزار احمد نعیمی

کیا تم قرآن نہیں سمجھتے۔؟ جس میں آیا ہے کہ "تم آپس میں رحم دل ہو اور دشمنوں پر سخت"؟ کیا تم نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں سنا ؟ کہ "جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے،”

شیعہ نیوز : آج کل سوشل میڈیا پر امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس کا ایک کلپ گردش کر رہا ہے، جس میں انھوں نے اسرائیل کے خلاف جہاد کو فتنہ قرار دیا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ اس فتنے سے دور رہیں اور اپنے حکمرانوں اور علمائے کرام کی اتباع کریں۔ امام حرم کعبہ کا یہ بیان بہت ہی قابل افسوس ہے۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ آزادی فلسطین کے لیے جہاد کرنے والوں کے حوالے سے ایسا بیان دیں گے۔ اس موقع پر مجھے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا شعر یاد آرہا ہے اور اس شعر کا مطلب بھی شیخ عبدالرحمن السدیس کے بیان کے بعد مجھ پر صحیح طور پر واضح ہوا ہے۔ علامہ نے کہا تھا:
‎چوں کفر از کعبہ برخیز زد
‎کجا ماند مسلمانی
‎اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفر کعبے سے ہی نکل رہا ہو تو پھر مسلمانی کہاں باقی رہے گی۔ یقیناً یہ بات جو علامہ نے کہی ہے، وہ صد در صد درست ہےـ یہ آج کے دور کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ اہل حرم ان لوگوں کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں، جو اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں، اسلامی روایات کے دشمن ہیں، قرآن و سنت کے نظام کو کسی صورت میں بھی دنیا کے کسی حصے میں پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

‎یہ لوگ کس طرح اہل غزہ اور مقاومت کے دوسرے گروہوں کو مٹانے کی لیے اپنے بے بہا وسائل استعمال کر رہے ہیں، ہم ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کو فتنہ قرار دے رہے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو اس جنگ سے دور رہنے کا درس دے رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس جنگ کے لیے پورے عالم اسلام کو آمادہ کرنے کے لیے کعبۃ اللہ سے باقاعدہ مہم شروع کی جاتی۔ مسلمان حکمرانوں اور عوام کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو کر اہل فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن معاملہ بالکل برعکس ہے، اے کاش! ہم اس بات کو سمجھ سکتے کہ یہ جنگ فتنہ نہیں ہے بلکہ یہ معرکہ حق و باطل ہے۔ یہ حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی جنگ ہے۔ یہ باطل کو مٹانے کی جنگ ہے۔ یہ استکبار کے ظلم و ستم سے اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اور عزت و ناموس کو بچانے کی جنگ ہے۔

‎اپنے بیان میں شیخ عبدالرحمن السدیس نے کہا ہے کہ مسلمان اپنے حکمرانوں اور علماء کی اتباع کریں۔ پوری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ مسلم حکمران ہر معاملے میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی اتباع کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیخ حرم تمام مسلمانوں کو باطل کی پیروی کرنے کا درس ارشاد فرما رہے ہیں۔ جہاں تک علمائے کرام کا تعلق ہے تو عرب ممالک کے علماء کے حوالے سے تو بالکل واضح ہے کہ وہ خاموش تماشائی بن کر اس جنگ سے عربوں کو دور رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے علمائے کرام نے چند دن پہلے واضح طور پر جہاد فی سبیل اللہ کو امت پر فرض ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ علمائے کرام چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کے اہل حل و عقد فلسطینی مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیں اور ظلم و ستم سے انھیں نجات دلائیں۔ اب شیخ حرم نے جب اس مقدس جنگ کو فتنہ قرار دے دیا ہے تو یقیناً دنیا اسلام کے مسلمان ایک بڑی کنفیوژن کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن اہل حق بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جنگ آج کی جنگ بدر اور جنگ خیبر ہے۔یہ فتنہ نہیں ہے، یہ مسلمانوں کی عزت و ناموس کی جنگ ہے۔ یہ اسلام کی عزت و ناموس کی جنگ ہے۔

‎اس موقع پر میں اپنے ایک عزیز دوست جناب ڈاکٹر مصطفی یوسف اللداوی جن کا غزہ سے تعلق ہے، عظیم مجاہد ہیں، اسرائیل کی جیلوں میں کئی سال گزارے ہیں اور آجکل وہ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں تشریف فرما ہیں۔ اسلامی مقاومت کی ایک متحرک ترین تنظیم التجمع العلماء المقاومۃ کے مرکزی رہنماء ہیں اور مسلسل غزہ کی صورتحال کو اپنے کالموں میں لکھتے ہیں۔ اہل غزہ پر جو ظلم ہو رہا ہے، انھوں نے جو اس کی تصویر کشی کی ہے، میں اپنے قارئین کی خدمت میں وہ عربی میں لکھتے ہیں، ظاہر ہے وہ اہل عرب ہیں۔ ان کے ایک کالم کے اقتباسات میں سے کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں "غزہ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے باشندے قتل کیے جا رہے ہیں۔ اس کی قوم کو مٹایا جا رہا ہے، وہاں زندگی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ امید مر چکی ہے اور وہاں اب کچھ بھی زندگی کے قابل نہیں بچا۔ وہ انھیں بھی مار رہے ہیں، جو پہلے ہی قتل ہوچکے ہیں، وہ قبریں کھود رہے ہیں، جن میں لاشیں دفن کی گئیں، وہ روحوں کو دوبارہ کچل رہے ہیں، جو پہلے ہی سلب کی جا چکی تھیں۔ وہ زمین کو ان کے قدموں کے نیچے سے اڑا رہے ہیں۔ ان کے اندر اور اس پاس آگ بھڑکا رہے ہیں۔

‎وہ مہلک ترین میزائلوں سے انھیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اجسام فضاؤں میں بکھر رہے ہیں اور آزاد زمین پر منتشر ہو رہے ہیں۔ وہ زندہ لوگوں کو مٹی تلے دفن کر رہے ہیں۔بلڈوزروں سے ان پر مٹی ڈال کر انھیں دم گھونٹ کر مار رہے ہیں۔ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ سب کچھ سن رہی ہے، لیکن خاموش ہے۔ چپ سادھے ہوئے ہیں۔ نہ کوئی حرکت، نہ کوئی مذمت، نہ کوئی مذمتی بیان۔ غزہ میں سانسیں بھی اب گنی جا چکی ہیں اور محدود ہوچکی ہیں۔ وہ گھونٹتی جا رہی ہیں۔ چھینی جا رہی ہیں، جو کوئی بھی وہاں زندہ ہے، کھڑا ہے اور سانس لے رہا ہے، اسے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس کے باشندوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور ان کے نام شہری فہرستوں سے مٹائے جا رہے ہیں۔ وہ ہمیں جینے نہیں دینا چاہتے، نہ ہی ہماری بقا کے خواہاں ہیں۔ اپنی توراتی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے وہ ہم پر تلوار چلا رہے ہیں۔ ہمیں چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ قتل کر رہے ہیں۔ ہماری زمین جلا رہے ہیں، ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں اور ان کے قتل کی مشینری سے نہ ہمارے جانور بچے ہیں، نہ ہی درخت، نہ ہی گھروں کے مکین۔ وہ بچ جانے والوں کو تلاش کرتے ہیں، تاکہ دوبارہ حملہ کرکے بچی کھچی جانیں بھی چھین سکیں اور جو پہلے ہی زخمی ہوچکے ہیں، ان پر کاری ضرب لگا کر انھیں ختم کر دیں۔”

‎جی شیخ حرم! آپ خود ہی ارشاد فرما دیجئے کہ یہ فتنہ ہے یا مسلم قوم کی نسل کشی ہے۔ یہ فتنہ ہے یا ظلم ہے۔؟ مجھے یقین ہے کہ آپ نے اپنے دل سے یہ بیان نہیں دیا ہوگا۔ آپ سے دلوایا گیا ہوگا۔ آپ کو اپنی نوکری اور ملازمت کی یقیناً فکر ہوگی، لیکن آج جو غزہ کے مظلوموں کے ساتھ غداری کرے گا، وہ کبھی بھی سکون اور چین نہیں پائے گا۔ وہ لوگ آج نہیں تو کل تباہ و برباد ہوں گے، جو غزہ پر ہونے والے مظالم کے بارے میں خاموش ہیں یا طاغوت اور استکبار کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف اللداوی نے پوری دنیا سے گلہ کے انداز میں جو کچھ کہا ہے، ان کے کالم سے ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے انسانیت کو پکارا ہے کہ وہ اہل غزہ کی امداد کے لیے آئیں۔ انھوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کو صدا دی ہے کہ وہ غزہ کے مظلوموں پر ہونے والے ظلم و ستم سے انھیں نجات دلائیں۔

یہ بھی پڑھیں : جنرل سیکریٹری شیعہ علماءکونسل پاکستان علامہ شبیر حسن میثمی کا مختلف علاقوں میں مساجد و امام بارگاہوں کا افتتاح

انھوں نے کہا: اے لوگو ــــــ ! عربوں اور مسلمانوں، عیسائیوں اور بدھ مت کے ماننے والو! موحد و اور مشرکو ! کیا کوئی مددگار ہے، جو ہماری مدد کو آئے؟ کیا کوئی آزاد انسان ہے، جو ہمارے ساتھ کھڑا ہو۔؟ کیا کوئی غیرت مند ہے، جو ہمارے لیے غصے میں آئے؟ کیا کوئی آواز ہے، جو ہمارے لیے بلند ہو اور اسرائیل اور امریکہ کے منہ پر چیخ بن کر گونجے۔؟ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ اسرائیل کس قدر ظلم کر رہا ہے۔؟ کس حد تک وہ اپنی درندگی میں آگے جا چکا ہے۔؟ وہ تمام قوانین کو پامال کر رہا ہے، ہر ضابطہ توڑ رہا ہے اور کسی پکڑ یا سزا سے نہیں ڈرتا۔؟ کیونکہ امریکہ جو دنیا بھر میں ظلم اور دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست ہے، اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسے سہارا دیتا ہے۔ اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اسے ہتھیار اور وسائل مہیا کرتا ہے۔ اس کے دفاع کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے اور لوہے و آگ سے ہمارے خلاف لڑتا ہے۔

اے عربو! کہاں ہے تمہاری عربیت۔؟ کہاں گئی تمہاری غیرت۔؟ کہاں گئیں تمہاری اقدار اور تمہاری اصل روایات۔؟ کہاں ہے وہ زبان جو تمہیں ایک کرتی ہے اور وہ سرزمین جو تمہیں اٹھاتی ہے۔؟ اور وہ آسمان جو تمہیں سایہ دیتا ہے۔؟ کیا تمہیں اپنے اہل غزہ اور فلسطین پر ہونے والے ظلم و ستم پر غصہ نہیں آتا؟ کیا تم آواز بلند نہیں کرو گے۔؟ تاکہ دنیا تمہاری قدر کرے، تمہیں اہمیت دے۔؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم اپنی عزت کھو رہے ہو۔؟ اپنی وقعت کھو رہے ہو؟ اور کوئی تمہیں اہمیت دینے والا نہیں بچا۔ یاد رکھو! جو خود کو کم تر سمجھتا ہے، اس پر ذلت آسان ہو جاتی ہے اور جو خود کو عزت دیتا ہے، اس کو دشمن بھی رسوا کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اے مسلمانو! تمھارا ایمان کہاں ہے۔؟ تمھارا دین تمہیں کیا سکھاتا ہے۔؟ کیا تم اپنے رب کی کتاب نہیں پڑھتے۔؟

کیا تم قرآن نہیں سمجھتے۔؟ جس میں آیا ہے کہ "تم آپس میں رحم دل ہو اور دشمنوں پر سخت”؟ کیا تم نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں سنا ؟ کہ "جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے،” تو کہاں ہو، تم اے مسلمانوں۔؟ ہم پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے، جو قتل و غارت ہو رہی ہے، غزہ میں جو نسل کشی ہو رہی ہے، کیا تم اس پر خاموش رہو گے۔؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے گی۔؟ نہ تمہیں بھولے گی اور تم پر شرم و رسوائی کی مہر لگائے گی۔” اے دنیا والو! جو تجارتی جنگوں، اقتصادی قوانین اور ٹرمپ کے محصولات میں الجھے بیٹھے ہو۔ کیا تمہیں ان بے گناہ جہانوں کا خون نظر نہیں آتا، جو بہایا جا رہا ہے۔؟ کیا تم ان بچوں کو نہیں دیکھتے، جو قتل ہو رہے ہیں۔؟ ان عورتوں کو نہیں دیکھتے، جو جلا دی گئیں، اجسام کو نہیں دیکھتے، جو ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں۔؟

کیا تم اس محاصرے کے بارے میں نہیں سنتے، جو لاکھوں فلسطینیوں پر غزہ میں مسلط ہے۔؟ ان کی بھوک، پیاس، غربت، بیماری اور اذیتوں کے بارے میں،؟ کیا تم نہیں جانتے غزہ میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے باسیوں پر کیا بیت رہی ہے۔؟ کیا تم زمین کے جلے ہوئے مناظر، تباہ شدہ مکانات، اجڑی ہوئی گلیاں اور آوارہ کتوں کو نہیں دیکھتے، جو شہداء کے جسموں کو نوچ رہے ہیں اور زمین کے اندر سے ان کی باقیات نکال رہے ہیں۔؟ اے انسانوں! اگر تم واقعی انسان ہو تو انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہو، انسانی اقدار اور آسمانی تعلیمات کے لیے بیدار ہو جاؤ۔ اسرائیل تمہاری خاموشی کے سہارے قتل کر رہا ہے۔ تمہاری بے بسی سے ہمیں مار رہا ہے اور تمہارے ہتھیاروں سے ہمیں نیست و نابود کر رہا ہے۔ وہ تمہاری حمایت پر فخر کر رہا ہے اور اپنے جرائم میں آگے بڑھ رہا ہے، اپنے ظلم میں مسلسل ہے۔

اسے نہ کسی کی سزا کا خوف ہے، نہ کسی سوال کی پرواہ۔ کیا تم اسے اجازت دو گے کہ وہ اپنی بے مثال درندگی میں آگے بڑھتا چلا جائے؟ کیا تم کمزوروں کے لیے نہیں اٹھو گے۔؟ کیا تم ہماری مدد کے لیے نہیں آؤ گے۔؟ کیا تم ہمارے قتل پر صدائے احتجاج بلند نہیں کرو گے۔؟ کیا تم ہمارے دشمن کے سامنے بند باندھنے کے لیے نہیں آؤ گے۔” محترم قارئین کرام! یہ وہ استغاثہ ہے، جو ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف اللداوی نے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ غزہ کا عظیم نمائندہ اپنی اس داستان کو دہرا رہا ہے، جو اسرائیل ظالم اور اس کے حواری اہل غزہ پر دہرا رہے ہیں۔ کیا ہم اس صورتحال کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد بھی یہ کہیں گے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ فتنہ ہے۔؟ اگر پھر بھی ہمارا یہی نقطہ نظر ہو تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button