شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا,مقررین
شیعہ نیوز: امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی رہنما، ممتاز معالج، سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ستائیسویں برسی کی مناسبت سے لاہور کی محمدی مسجد میں خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا اہتمام "محمد علی نقوی ویلفیئر ایسوسی ایشن” (ماوا) کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر ثاقب اکبر نقوی، سید وجاہت حسین نقوی، سید علی رضا نقوی، علامہ غلام شبیر بخاری، احمد رضا خان، افسر رضا خان، کرنل (ر) عارف حسین، علامہ محمد رضا عابدی، سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ، سید نثار ترمذی، اقرارالحسن، علامہ حسن رضا ہمدانی سمیت شہید کے رفقاء، سینیئر رہنماوں اور عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ نقابت کے فرائض سید انجم رضا نے ادا کئے۔
مقررین نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی انسانیت کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا، انہوں نے قوم کی بیداری کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں، بش جب دورہ پاکستان پر آیا تو شہید نے مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ پر مردہ باد امریکہ کو طویل بینرز لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، شہید نے نوجوانوں میں انقلابی روح بیدار کی، جس کی بدولت آج بھی پورے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صالح اور باکردار نوجوان انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید نے آئی ایس او پاکستان کی شکل میں ایسا پودا لگایا جو آج ایک گھنا اور تناور درخت بن کر نسل نوء کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کر رہا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، قوم میں شہادت کو شوق بیدار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ شہادت اختیاری تھی، انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا، اس کے باوجود وہ دن رات انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیک وقت درجنوں منصوبوں پر کام کر رہے تھے، کم سونا اور کم کھانا ان کی عادت بن چکی تھی اور وہ خدا کے حقیقی اور سچے عاشق بن کر وہ قرب خدا حاصل کر چکے تھے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو فکر دی، آج اس پر عمل پیرا ہونیوالے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی تنالیس برس کی عمر میں شہید ہو گئے، مگر ان کے منصوبوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے فرد واحد ہو کر اتنے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نقوی نے جو فکر دی اس پر عمل کیلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا اور اس فکر کو مزید آگے بڑھانا ہوگا، ہم فکرِ شہید کے امین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید تمام شعبوں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی مکمل آگاہ تھے، وہ چاہتے تھے، ملی اخبارات و جرائد بھی ملک کی تربیت اور آگاہی میں کردار ادا کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہفت روزہ "رضا کار” کے آفس میں آکر ٹیم کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید کے تعلیمی میدان میں منصوبے لائق تحسین ہیں، طب کے شعبہ میں بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہین۔ مقررین نے کہا کہ شہید آج بھی اپنے رفقاء کیساتھ رابطے میں ہیں، شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ زندہ ہیں، ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے درمیان موجود ہیں۔