اسلامی تحریکیںپاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

امام موسیٰ کاظمؑ نے عزم و استقلال سے مصائب کا مقابلہ کیا

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سربراہ شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 25 رجب المرجب کو ساتویں امام حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کے یوم شہادت پر کہا ہے کہ 35 سالوں پر محیط دور امامت میں آپؑ کی علمی، روحانی اور معاشرتی زندگی، آپؑ کے خاندان، اصحاب اور شاگردوں سے متعلق واقعات اور علمی اور کلامی مباحثوں کے تذکروں کے بغیر آپ کے حالات زندگی کا احاطہ ممکن نہیں۔ اسی طرح امام موسیٰ کاظمؑ نے اپنے جد امجد پیغمبر گرامی کے عمل و کردار کو اپناتے ہوئے جب یہ محسوس کیا کہ اس وقت کی منحرف قوتیں دین اسلام کے عقائد و نظریات اور تہذیب و اقدار کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں تو آپؑ نے ان قوتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہ لیا، چنانچہ انہیں اس عمل کی پاداش میں کئی سال قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا گیا اور بالآخر امام برحق کی شہادت بھی انہی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے ہوئی۔

علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ امام موسیٰ کاظمؑ نے اپنے آباء و اجداد کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہو کر عصری تقاضوں پر منطبق قرآنی تفسیر کی تعبیر و تشریح اور اسلامی معارف کی روشن تصویر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں امامت اور سیاسی حاکمیت کے فلسفے کو واضح کیا اور اسی طرح عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی لئے سعی و کوشش کی، جس کی خاطر پیغمبر گرامی اور دیگر انبیائے کرام مبعوث ہوئے۔

یہ خبر بھی پڑھیں امام موسیٰ کاظم ؑ کے ماننے والوں کو ظلم و جبر سے ڈرایا نہیں جا سکتا

انہوں نے کہا کہ امام موسیٰ ابن جعفرؑ کی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں ہوا، جب وہ اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے تو اس وقت صورتحال یہ تھی کہ بنو عباس اپنی خلافت کی ابتدا میں پیدا ہونے والے داخلی اختلافات اور جنگوں سے فراغت پاچکے تھے اور اپنے مخالفین کی سختی سے سرکوبی کرنے کے بعد انہیں خاموش کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جلاوطنی اور اسارت جیسے کٹھن اور مشکل مراحل میں بھی امامؑ نے عزم و استقلال اور جرات و بہادری سے مصائب کا مقابلہ کیا، ایک ایسی شخصیت جو صرف حالات پر منطبق نظریات و دینی نظریات اور اسلامی معارف کو کھول کر بیان کر رہی ہو، انہیں کبھی جلاوطنی، کبھی اسیری اور کبھی روپوشی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے، چنانچہ روایت کے مطابق ”ایک مدت تک امام موسیٰ کاظمؑ مدینہ میں موجود ہی نہ تھے بلکہ شام کے گاؤں و دیہاتوں میں مخصوص انداز میں گزر بسر کرتے رہے، چناچہ مورخین کو تاریخ اسلام قلمبند کرتے وقت حضرت کے حالات زندگی کے جس پہلو پر زیادہ دقت سے توجہ دینی چاہیئے تھی، وہ آپؑ کی زندگی کا عظیم اور بے نظیر ”طویل المدت اسیری، کا پہلو ہے، جس کے پیچھے طویل اور صبر آزما جدوجہد کارفرما تھی۔

علامہ ساجد نقوی نے آئمہ اطہار ؑ کی سیرت و کردار اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حق و صداقت کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت کی زہر سے شہادت کے بعد بھی بدی اور جبر کی قوتیں خائف نظر آئیں، چنانچہ ظالم حکمران آپؑ کے جنازے اور قبر مطہر سے خوفزدہ تھے، یہی وجہ ہے کہ جب قید خانے سے آپؑ کا جنازہ باہر نکالا جا رہا تھا تو حکومتی مشینری یہ اعلان کر رہی تھی کہ حکومت وقت سے بغاوت کرنے والے کا جنازہ ہے، تاکہ آپ کی شخصیت اور کردار کو لوگوں کی نظروں میں داغدار کیا جاسکے، لیکن وہ اس میں ناکام ہوئے، آپؑ کا مزار مقدس کاظمین بغداد میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔

آخر میں علامہ ساجد نقوی نے عراق بغداد الکاظمیہ پل کے قریب زائرین پر ہینڈ گرنیڈ حملہ ہوا، جس سے دس زائرین زخمی ہوئے، کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کیا جائے اور کیفر و کردار تک پہنچایا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button