سانحہ منیٰ کا غم اور شہید منیٰ علامہ فخر الدینؒ کی یاد
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سانحہ منیٰ کو آج 6 برس مکمل ہوگئے، اس سانحہ کا غم جہاں امت مسلمہ کے دلوں میں تازہ ہے وہیں اس سانحے میں شہید ہونے والے عالم باعمل شہید علامہ فخر الدین اخوند کی یاد بھی زندہ ہے ۔ حجت الاسلام غلام محمد فخرالدین22نومبر 1971ء اسکردوکے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔مرحوم کے والدایک دین دار ،ذاکر اہل بیت،دور اندیش اور سخی انسان تھے۔ شہید نیابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے حاصل کی۔۵سال کی عمر میں اپنے علاقے کے معروف استاد اخوند احمد سے قرآن سیکھنا شروع کیا۔استاد مذکور سے علوم اسلامی، احکام اور بوستان وگلستان سعدی بھی پڑھی۔ میٹرک کی تعلیم ہائی سکول سکردو سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے ممتاز طلباء میں شامل ہوتا تھا۔ان کے دوستوں کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔
آپ کالج دور میں آئی ایس اوپاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر رہے۔تحریک جعفریہ بلتستان سکردو کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے ہے تھے۔
پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی مدبرانہ،عالمانہ اورمبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے لیے عملاََکوشاں رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔
علمی سفر:۔ایک طرف آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا دوسری طرف آپ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے اس لئے بوڑھے والدین کو چھوڑ کرکہیں اور جانا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن آپ کے والدین کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ آپ کو علم دین حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے۔ انھوں نے نہ صرف اس بات کی اجازت دی بلکہ ان کی رضامندی سیگریجویشن کے بعد ۵۹۹۱میں اعلیٰ دینی تعلیم یعنی علوم محمد وآل محمد کے حصول کے لیے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے جہاں آپ نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔رواں سال ۸۲ جنوری کوجامعہ المصطفیٰ العالمیہ ،قم سے اعزازی نمبروں کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
آپ کے اساتید میں آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ وحید خراسانی، آیت اللہ معرفت، آیت اللہ غلام عباس رئیسی، حجت الاسلام سید حامد رضوی، ڈاکٹرمحمد علی رضائی، ڈاکٹر محمد حسن زمانی وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے سیر و سلوک اور عارفانہ مراحل کے لیے حضرت آیت اللہ بہجت سے کسب فیض کیا۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علوم قرآنی وتفاسیر اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا ایک موثر سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔
شہید نے درج بالا شعبوں کے علاوہ قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے شہادت تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب وکامران رہے۔
علمی دنیا میں ابتدا سے ہی آپ کا رجحان علومِ دینیہ کی طرف تھا۔ طالب علمی کے دور میں آپ کو مذہبی سکالر بننے کا شوق تھا۔ کالج کیدور میں تنظیمی دوستوں اور کالج فیلوز کے ساتھ اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات بحث اس حد تک طول پکڑتی کہ موضوع کی پیچیدگیوں کو سلجھانے اور اس کے حل کے لیے علماء کرام سے بھی رجوع کرنا پڑتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان المبارک میں قتل گاہ مسجد میں درس اخلاق کے لیے حجتہ الاسلام شیخ یوسف کریمی تشریف لاتے تھے ان سے مختلف موضوعات پر استفادہ کرتے رہتے تھے۔ان کے علاوہ حجتہ الاسلام آقا علی رضوی، حجتہ الاسلام شیخ اصغر حکمت کے پاس علمی تشنگی بجھانے کے لیئے کثرت سے حاضر ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں 25 جولائی کودفاع عزاداری کانفرنس کے انعقاد کا اعلان
آپ ؒ علمی میدان میں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی اعلی اللہ مقامہ، شہید محراب آیت اللہ سید محمدباقر الصدر اعلی اللہ مقامہ اور آیت اللہ استاد شہید مطہری اعلی اللہ مقامہ کے گرویدہ تھے۔ جب تک ان کی رفاقت میسر رہی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے جتنے بھی مواقع میسر آئے میں نے ہمیشہ ان میں مشکلات، مسائل اور رکاوٹوں سے مقابلہ کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھنے کا ایک خاص جذبہ دیکھا۔ مقصد کو پانے کے بعد ان کے چہرے پر طمانیت اور سرور کی جو کیفیت ظاہر ہوتی وہ ہمیشہ قابل دید ہوتی۔ ریاکاری، نمود ونمائش اور طمع وخود غرضی سے بالاتر ہو کر ہمیشہ اجتماعی مفادات اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھتے تھے۔آپ دینی علوم سے خاص شغف رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ اخوند کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سکول اور کالج میں منعقدہ تقریری اور قرائت کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھیاور نمایاں پوزیشن بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے۔اچھے قاری ہونے ساتھ ساتھ آپ فن خطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی تقاریر ہمیشہ فکر انگیز اور حالات حاضرہ کے مطابق ہوتیں۔ کالج کے زمانے میں آپ کی خطابت کا بڑا چرچارہا۔ یوم القدس کا پروگرام ہو یا یوم الحسین کا جلسہ اخوند صاحب کی تقاریر حالات وواقعات سے آگاہی کی وجہ سے سب پر بھاری تھیں۔ آپ ایک انقلابی سوچ کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے واقعہ کربلا ، انقلاب اسلامی اورنظام ولایت فقیہ آپ کے پسندیدہ موضوعات میں سے تھے۔اس کے علاوہ امام خمینی ؒ اور رہبر معظم سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے۔
ایام مجالس عزا میں آپ مومنین کو عصر حاضر کے مسائل اور ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کرتے رہے۔ اپنی گفتگو کے لیے ہمیشہ کلام خدا اور احادیث رسول سے استنباط کرتے اس کے علاوہ آپ کی تقریروں کی خاص بات یہ تھی کہ آپ نہج البلاغہ پر بھی عبور رکھتے تھے اس لیے کلام امام سے بھی مومنین کو مستفید کرتے تھے۔ دستہ امامیہ کے زیر اہتمام عاشورا ئے محرم وعاشورا ئے اسد میں حسینی چوک پر آپ کا خطاب سننے کے لیے ہزاروں عاشقان کربلاگھنٹوں آپ کا انتظار کرتے تھے۔اس کے علاوہ عشرہ محرم میں آپ سے کسب استفادہ کرنے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی تھی۔ پچھلے تین چار سالوں سے عشرہ محرم لاہور میں تین چار جگہوں پر پڑھتے رہے۔اس سال بھی حج سے واپسی پر عشرہ محرم لاہور میں دو تین مقامات پر پڑھنے کا پروگرام ترتیب دے رکھاتھا لیکن آپ ومن یھاجر الی اللہ ورسولہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا مصداق بن گئے اور سانحہ منیٰ میں اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔خوف خدا اور عزاداری سید الشہدا میں آپ کا گریہ کرنا اور آنسو بہانا۔۔۔قابل دید تھا۔آپ دعائیہ اجتماعات میں گریہ وزاری کے ساتھ اللہ سے رازونیاز کرنے کا خاص سلیقہ رکھتے تھے۔ دعائے کمیل پڑھنے کا انداز بھی دل ودماغ کو مسحور کرنے دینے والا ہوتا تھا۔ان کی معیت میں پڑھی گئی دعائیں آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ آپ شب زندہ دار اور دن کے روزہ دار تھے۔ عشق الہی سے سرشار ہو کر کئی بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔اسی عشق کا تقاضا تھا کہ آپ حالت احرام میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے بارگاہ الہی میں حاضر ہوئے۔
زمانہ طالب علمی ۰۹۹۱،۱۹ میں آئی ایس اوپاکستان بلتستان ڈویڑن کے فعال صدر رہے۔دو سال آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویڑن کی ذیلی نظارت کے بھی رکن رہے۔ آئی ایس او کے جوانوں کے ایک بہترین مربی تھے ان کی امیدیں آپ سے وابستہ تھیں۔ آپ ہر میدان میں ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ پاکستان میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور عالمی سطح پر عالم مبارز قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کو آپ اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔
گلگت بلتستان کی سیاست پر آپ کی گہری نظر تھی1991میں گلگت بلتستان الیکشن سیبائیکاٹ کے دوران طلباء رہنما کی حیثیت سے قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغرویؒ اور علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے شانہ بشانہ پورے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔ ان دورہ جات میں شہید ایک ایسے سخن ور کے طور پر سامنے آئے جو لوگوں کے دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ گویا اللہ نیانھیں فصاحت وبلاغت اور دلیل ومنطق کے ذریعے مسائل کو بیان کرنے کی ایک خاص مہارت ودیعت فرمائی تھی۔ لوگوں کو قائل کرنے اور ان میں تحرک پیدا کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔
آپ پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔مجلس وحدت کے قیام سے جام شہادت نوش کرنے تک آپ مرکزی رہنما کی حیثیت سے گلگت بلتستان، پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف فورمز پر قوم وملت کی نمائندگی کرتے رہے۔ مجلس وحدت کے قائدین کی قوم وملت کے لیے خدمات کو آپ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفات کے میدان سے علامہ امین شہیدی کو پیغام حج دیا اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کی خصوصی دعا کی۔
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بھی اپنی تقریرں اور تحریروں میں نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی بلکہ ارباب حل وعقدکو اس کے حل کے لیے ٹھوس مشورے بھی دیے۔ اور ان سے ہمیشہ یہ اپیل کرتے کہ ملک سے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے آپ تنگ نظری، تعصب اور مسلکی ہمدردیوں سے بالاتر ہو کر علمی اور عقلی دلیلوں کے ذریعے دوریوں کو ختم کرنے کے قائل تھے۔ آپ نہ صرف تقریب مذاہب کے قائل تھے بلکہ اتحاد امت کو عالم اسلام کی تمام مشکلات کا واحد حل قرار دیتے تھے۔آپ مزاجا سب کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ کالج لائف میں آپ کے حلقہ احباب میں اہل سنت اور اہل حدیث برادران بھی شامل تھے۔بعض اوقات کلاس کے بعد فارغ اوقات میں ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کرتے تھے اور ان کے علماء سے ملاقات کے لیے ان کے مراکز میں جایا کرتے تھے۔
زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک قومی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب وکامران رہے۔ قومی ،ملی اور مذہبی امور کی انجام دہی کی پاداش میں آپ کو پس زندان بھی ڈالا گیا مگر آمر اور ظالم لوگوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ ہمیشہ کلمہ حق بلند کرتے رہے۔
جامعہ المصطفٰی میں نہ صرف پاکستانی طلاب کی نمائندگی کرتے تھے۔بلکہ عملی اور تحقیقی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ کوتاہ مدت میں آپ استاد کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حوزہ علمیہ قم میں آپ تسلسل کے ساتھ لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ جن میں طلبا کی کثیر تعداد ذوق وشوق کے ساتھ شریک ہوتے۔ بین الاقوامی سطح کے متعددسیمینارز میں مقالے بھی پڑھے۔
سفر آخرت:۔سانحہ منیٰ کے بعد سے آپ کی شہادت کی خبر آنے تک پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں جگہ جگہ آپ کی صحت وسلامتی کے لیے دعائیہ محافل کا سلسلہ جاری رہا جب طلوع ماہ محرم کیساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبر نے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں صف ماتم بچھ گئی۔ہرطرف ایک کہرام مچ گیا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شہید سے راقم کی آخری ملاقات سفر حج روانگی سے ایک دن پہلے سکردو میں ہوئی تھی۔
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جاچکاہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے
تحریر ۔۔۔۔۔محمد علی (اسکردو۔بلتستان)