لاپتہ افراد زندہ ہیں، مرگئے یا ہوا میں تحلیل ہوگئے؟ عدالت کا وزیر دفاع سے سوال
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) وزارت دفاع نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد آئی ایس آئی اور ایم آئی کے پاس نہیں جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ برہم ہوگئے اور ریمارکس دیے کہ یہ تو پتا چلے کہ لاپتہ افراد زندہ ہیں، مرگئے یا ہوا میں تحلیل ہوگئے؟
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہری مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی جس میں لاپتہ مدثر نارو کا بیٹا اپنی دادی کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوا جب کہ لاپتہ افراد کے وکلا ایمان مزاری، عمر گیلانی اور کرنل (ر) انعام الرحیم، وزارت دفاع کے نمائندے، پولیس حکام، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ نے 30 مئی 2022ء کو عدالتی حکم پر لاپتا افراد سے متعلق کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے اب تک آٹھ اجلاس ہوچکے ہیں اور 60 فیصد کام ہوچکا ہے، کمیٹی نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے ملاقات کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ ابھی تک ہوا کیا ہے؟ آپ کو پتا ہے جو کام نہ کرنا ہو اس پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے، آپ نے اپیل کیوں کی؟ لاپتہ افراد کدھر ہیں وہ بتائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سات ماہ پہلے کی سماعت پر بھی اٹارنی جنرل آفس سے کوئی نہیں آیا تھا، دوگل صاحب آپ کو کہہ رہے ہیں کمیٹی کمیٹی نہ کھیلیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کیسز سے متعلق ریاست مشنری ناکام رہی ہے، ہمیں یہ بتائیں لاپتہ افراد مار دئیے ہیں یا ان لوگوں کو کس حال میں رکھا ہوا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ تین سال ہوچکے کوئی تھوڑی سی پراگریس بتادیں کچھ بھی نہیں ہوا، ہم یہ نہیں کہیں گے ایف آئی آر کاٹیں، ہمیں کمیٹیوں کا نہ بتائیں ہمیں یہ بتائیں لاپتہ افراد کدھر ہیں؟ کم از کم ہمیں یہ تو بتائیں یہ لوگ ہیں کہاں پر؟ فائل دیکھ کر بتائیں کوئی تھوڑی سی پراگریس ہے؟ وزارت دفاع کا نمائندہ عدالت کے سامنے پیش ہوا اور کہا کہ ہم نے دو تین دفعہ کوشش کرکے رپورٹس جمع کرائی ہیں، آئی ایس آئی، ایم آئی ہماری ایجنسی ہے انہیں لاپتہ فرد ساجد کا نہیں پتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ صرف ایک کا نہیں ہے بلکہ اور بھی لاپتہ افراد ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں ریاست پاکستان کا سانحہ پشاور پر خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینے کا عزم
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیان حلفی دے دیں فلاں تاریخ کو بندے بازیاب ہوجائیں گے، کمیٹی کمیٹی کیا کرتے ہیں کمیٹی کیا کرلے گی؟ کمیٹی پارلیمنٹ کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی کر کہہ دے گی بہت برا ہوا، ہمیں بتائیں لاپتہ بندے زندہ ہیں، مرگئے یا ہوا میں تحلیل ہوگئے؟ کس بنیاد پر ہم سے چاہتے ہیں سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیں؟ لاپتہ فرد مدثر نارو کی وکیل ایمان مزاری نے سابق چیف جسٹس کا آخری آرڈر پڑھا اور کہا کہ آرمی ملازم کے دو بیٹے لاپتہ ہیں ان کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہوئے لیکن ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے، ان کے والد آرمی میں تھے یہ کوئی دہشت گرد نہیں، اگر ان کے بیٹوں نے کچھ کیا ہے تو قانون کے مطابق اسے دیکھیں۔ لاپتہ فرد کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ ایک اور مسنگ پرسن آپ کے سامنے کھڑا ہے، پنڈی بنچ کے سامنے وزارت دفاع کا نمائندہ جھوٹ بولتا رہا ہے۔
برگیڈیئر (ر) فلک ناز نے کہا کہ میں کرنل (ر) انعام سے سینئر ہوں یہ میرے خلاف ایسے الفاظ استعمال نا کریں اس پر کرنل (ر) انعام نے کہا کہ ان کا یہ کہنا کہ اٹھایا ہی نہیں یہ تو درست نہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کرنل (ر) انعام کو مزید بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ کرنل صاحب! عدالت میں ایسی گفتگو ناقابل برداشت ہے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اپنا تفصیلی اور تحریری جواب عدالت کو جمع کراچکا ہوں، بہت وقت گزر گیا ہے ان کیسز کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ وزارت دفاع کے نمائندے کو جھوٹا کہنے پر حکام نے عدالت سے نوٹس لینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے غیر متعلقہ زبان استعمال کرنے سے کرنل (ر) انعام ایڈووکیٹ کو روک دیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 8 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے چار ہفتوں میں تمام فریقین کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون کو کچھ دیر سن لیں گے اور اس کیس میں فیصلہ دیں گے۔