اسرائیل امارات معاہدے کے بعد مشرق وسطی میں نئی دھڑے بندیاں
شیعہ نیوز (پاکستانی خبر رساں ادار ہ )حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بارے میں دو پہلووں کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں قربتیں بڑھنے کی کیا وجوہات تھیں؟ اور دوسرا یہ کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات منظرعام پر کیوں لائے گئے ہیں؟ متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے کنارے ایک چھوٹی سی عرب ریاست ہے جس کی معیشت زیادہ تر سیاحت کی صنعت اور گیس اور تیل کی برآمدات پر منحصر ہے۔ یہ ملک مشرق وسطی کا ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ دو بڑے ہمسایہ ممالک اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ واقع ہونے کی خاطر متحدہ عرب امارات اپنے لئے خاص قسم کے خطروں کا احساس کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی کے بقول مستقبل کی جانب نئے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سفر میں ان کی پہلی ترجیح معیشت کی ترقی ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے اسرائیل کے ساتھ سازباز اور صلح کو ایک معقول آپشن کے طور پر اختیار کیا ہے۔ دوسری طرف مشرق وسطی جیسے کشمکش اور ہلچل کا شکار خطے میں اخوان المسلمین اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل دیگر گروہوں کی صورت میں مشترکہ دشمنوں کے وجود نے بھی بعض عرب ممالک اور اسرائیل میں قربتیں بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل سے اتحاد تشکیل دینے والے عرب ممالک اپنے اس اقدام کو دونوں جانب سے جیت پر مبنی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
عرب ممالک خطے میں مشترکہ دشمنوں سے مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیل کی فوجی اور دفاعی صلاحیتوں پر تکیہ کرنے میں اپنا فائدہ محسوس کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسرائیل ان عرب ممالک کو اپنے لئے ایک اچھی منڈی تصور کر رہا ہے۔ اسرائیل کو اپنی اقتصاد میں وسعت لانے کیلئے خلیج عرب ریاستوں کی مارکیٹس کی اشد ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف عرب حکمران اسرائیل کے پاس فوجی اور دیگر شعبوں میں موجود جدید ترین ٹیکنالوجی پر نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں۔ عرب ممالک میٹھے پانی کی قلت اور ماحولیاتی مسائل سے روبرو ہیں لہذا اسرائیل کے پاس موجود جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے یہ مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر بہت عرصہ پہلے سے متحدہ عرب امارات اسرائیل کی جانب جھکاو پیدا کر چکا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان خفیہ تعلقات قائم ہو چکے تھے۔
ماضی قریب تک متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات زیادہ تر کھیلوں اور سیاحت کے شعبوں میں محدود رہے ہیں۔ مزید برآں، کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون رہا ہے۔ البتہ اس دوران متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان فوجی شعبے میں بھی تعاون انجام پایا ہے۔ اس کی ایک مثال یمن میں موجود متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج ہیں جنہوں نے اس ملک میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات منظرعام پر لانا زیادہ اہم ایشو ہے جس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اسرائیل نے 2009ء میں بنجمن نیتن یاہو کے برسراقتدار آنے کے بعد عرب ممالک کے بارے میں اپنی خارجہ سیاست میں کچھ بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں۔
اس نئی پالیسی کے تحت اسرائیل نے خطے کے عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں عرب ممالک کے دل میں اسرائیل کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو گیا اور وہ مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنا شروع ہو گئے۔ اب خطے کی عرب ریاستیں فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا شروع ہو گئے اور حتی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی باقاعدہ جنگ اور فوجی جارحیت میں بھی بے طرفی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ امریکی حکمرانوں کی جانب گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کا اعلان بھی اسرائیل کی جانب سے ہمسایہ عرب ممالک سے قربتیں بڑھانے کا باعث بن گیا۔ امریکہ کی جانب سے گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کا اصل مقصد اس خطے میں اپنی مرضی کی جغرافیائی تبدیلیاں ایجاد کرنا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات منظرعام پر لانے میں جلدبازی عرب ممالک کے درمیان اختلافات جنم لینے کا باعث بنے گی۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل عرب ممالک کے درمیان اختلافات اور پھوٹ پڑنے کے حق میں ہیں کیونکہ یوں ان کے مطلوبہ گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کے عملی شکل اختیار کرنے میں مدد فراہم ہوتی ہے۔ لہذا ہم نے دیکھا ہے کہ خطے کے عرب حکمرانوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کے ردعمل میں مختلف قسم کے موقف سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف یمن اور فلسطین نے اس معاہدے کی مذمت کی ہے جبکہ دوسری طرف بحرین اور مصر نے اسے مثبت قرار دیا ہے۔ درحقیقت متحدہ عرب امارات کا یہ اقدام اسرائیل سے متعلق عرب دنیا کے موقف میں بہت بڑی پسماندگی ہے کیونکہ امارات نے اسرائیل کو 1967ء والی سرحدوں تک واپس گئے بغیر تسلیم کر لیا ہے۔
تحریر: ہدی یوسفی