لبنان کی سیاسی قیادت کو بلیک میل کرنے کی نئی امریکی کوشش
شیعہ نیوز:اس وقت جبکہ دنیا بھر میں امریکی صدارتی الیکشن کے حتمی نتائج کے اعلان کا انتظار کیا جا رہا ہے، اس نازک وقت میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی حکومت دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت میں مصروف ہے۔ اس مرحلے میں بھی ٹرمپ حکومت دیگر ممالک کی سیاسی قیادت کو بلیک میل کرکے دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اور خاص طور پر لبنان پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ جمعہ 6 نومبر 2020ء کو امریکی عوام صدارتی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی کے عمل کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، تب امریکی وزارت خارجہ نے لبنان کے مارونی مسیحی سیاستدان جبران باسل پر گلوبل میگنٹسکی ایکٹ کے تحت پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے فری پیٹریاٹک موومنٹ کے قائد جبران باسل کو بدعنوان لبنانی سیاسی رہنماء قرار دیا۔ جبران باسل لبنان کے وزیر خارجہ، وزیر توانائی اور وزیر ٹیلی کمیونیکیشن رہ چکے ہیں۔ وہ موجودہ لبنانی صدر میشال عون کے داماد بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندیاں انہی ڈرا نہیں سکتیں جبکہ وعدے وعید سے انہیں للچایا نہیں جاسکتا۔ ردعمل میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی لبنانی کے خلاف نہیں ہوں گے اور خود کو بچانے کے لیے لبنان کو ختم ہوتا نہیں ہونے دیں گے۔
درحقیقت یہ ردعمل ایک تاریخی حقیقت کو بیان کرتا ہے، اگرچہ یہ حقیقت تلخ ہے۔ انہوں نے بہت صاف الفاظ میں دنیا کے سامنے حقیقت بیان کر دی کہ امریکی پابندی کا مقصد انہیں لبنانیوں کے (کسی اور سیاسی اسٹیک ہولڈر) کے خلاف امریکی ڈکٹیشن پر عمل کرنے پر مجبور کرنے لیے بلیک میلنگ حربہ ہے۔ یعنی باالفاظ دیگر جبران باسل اور ان کی جماعت کو امریکی پابندیوں کے ذریعے بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ وہ لبنان کے بعض علاقوں پر قابض اسرائیل کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔ یاد رہے کہ اس وقت لبنان میں حکومت سازی کے لیے مذاکراتی عمل آخری مراحل میں ہے۔ جمعہ کے روز نامزد وزیراعظم سعد الدین حریری نے صدر میشال عون سے ایک اور ملاقات کی ہے۔ ایوان صدر نے اسے مثبت ملاقات قرار دیا۔ لبنانی ٹی وی چینلز اور اخبارات حکومت سازی کے حوالے سے خبریں جاری کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ نئی حکومت میں وزیراعظم کے تحت اٹھارہ رکنی کابینہ تشکیل دینے پر اتفاق ہوچکا ہے۔ البتہ وزراء کے قلمدان (محکموں) کے حوالے سے معاملات فائنل کیے جا رہے ہیں۔
گو کہ فرانس نے لبنان کے موجودہ بحران میں ڈکٹیشن دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ پس پردہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت پورا زایونسٹ امریکی بلاک فرانس کے ذریعے لبنان سے اپنی شرائط منوانے کی کوشش میں مصروف تھا، لیکن فرانس میں شان رسالت محمدیﷺ کی توہین پر مبنی خاکوں کی دوبارہ اشاعت اور فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی جانب سے تضحیک آمیز کارٹونوں کی اشاعت کے بعد لبنان میں فرانس کے خلاف شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔ شاید اس وجہ سے یا اس کے علاوہ بھی کوئی وجہ بنی کہ فرانس پہلے کی طرح لبنان میں علی اعلان ڈکٹیشن نہیں دے رہا۔ ممکن ہے کہ پس پردہ بلیک میلنگ کر رہا ہو۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ حکومت سازی کے اس نئے مرحلے میں زایونسٹ امریکی بلاک نے اپنے پرانے مہروں کے ذریعے لبنان کے عوام کو تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ زایونسٹ امریکی بلاک کے سہولت کاروں نے فیک نیوز کے ذریعے مختلف سیاسی جماعتوں اور قائدین پر کابینہ سازی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے یا بے جا شرائط کا جھوٹا الزام عوام کے درمیان پھیلایا۔
جبران باسل اور ان کی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ لبنانی سیاست میں حزب اللہ کے کرسچن اتحادی ہیں۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے عرب لیگ کے فورم پر بھی اسرائیل کے خلاف لبنان کی مسلح مقاومت کا دفاع کیا تھا۔ عراق اور لبنان کے وزرائے خارجہ عرب لیگ کے فورم پر بھی زایونسٹ امریکی بلاک کے سہولت کار عرب ممالک کے اسرائیل نواز موقف کی مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں۔ درحقیقت عرب ممالک سے اسرائیل کو جائز ملک تسلیم کروانے پر مبنی ڈیل آف دی سینچری کی راہ میں اب اصل رکاوٹ فلسطینیوں کے علاوہ عربوں میں بنیادی طور پر لبنان اور شام ہی ہیں۔ یمن اور عراق بھی ہیں، مگر دونوں کی سرحدیں فلسطین سے نہیں ملتیں۔ لبنان کو مصروف رکھنے کے لیے امریکا نے لبنان و اسرائیل کے مابین سمندری حدود کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا ناٹک شروع کیا اور امریکا کی جانب سے یہ کام لبنان میں تعینات امریکی سفیر نے نہیں کیا بلکہ الجزائر میں تعینات امریکی سفیر جون پال ڈیسروچر نے کیا۔ لبنان و اسرائیل کے مابین سمندری حدود کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے 14 اکتوبر کو مذاکرات کا پہلا راؤنڈ لبنان کے شہر ناقورۃ میں اقوام متحدہ کی عارضی فورس کے دفتر میں ہوا۔ دوسرا راؤنڈ 28 اکتوبر 2020ء کو ہوا۔ دونوں راؤنڈ بے نتیجہ ختم ہوئے۔ تاحال اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
چونکہ اس محاذ پر اسرائیل لبنان کو جھکانے میں ناکام رہا تو سیاسی محاذ پر لبنانیوں کو متصادم کروانے کی سازش پر عمل شروع کر دیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تو اس حد تک جاپہنچے کہ سعد الدین حریری کے بڑے بھائی بھاء حریری کو وزیراعظم بنوانے کی سازش کرنے لگے۔ اس پورے منظر نامے میں سعد حریری کو محسوس ہوا کہ گھر کا بھیدی ان کا اپنا سیاسی کیریئر نہ ڈبو دے، اس لیے ایک سال پہلے مستعفی ہونے والے سعد حریری ایک سال بعد وزیراعظم بننے پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن ان کے روایتی اتحادیوں ولید جنبلاط (دروز) اور سمیر جعجع (مارونی کرسچن) نے نئی کابینہ کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانا شروع کر دیئے۔ پہلے سمیر جعجع نے کہا وہ حکومت سازی کے عمل میں شریک نہیں ہوں گے اور اب سعد حریری کو اکسا بھی رہے ہیں کہ وہ کچھ ایسا کریں کہ دیگر لبنانی پارلیمانی جماعتوں کو حکومت میں حصہ نہ مل سکے۔ باالفاظ دیگر سمیر جعجع اور ولید جنبلاط دیگر لبنانی اسٹیک ہولڈرز کو محض اس لیے حکومت میں شامل نہیں دیکھنا چاہتے کہ وہ امریکی زایونسٹ بلاک کی لبنان میں مداخلت اور اسرائیلی قبضے کے خلاف دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔
سمیر جعجع اسرائیل کی پراکسی وار لڑچکے ہیں۔ یہ چند نکات اس لیے رقم کیے ہیں کہ لبنان کے زمینی حقائق باآسانی سمجھ سکیں۔ لبنان میں دو طرح کی جماعتیں اور شخصیات موجود ہیں، ایک زایونسٹ امریکی بلاک کے مفاد کو ترجیح دینے والے اور دوسرے لبنان کے مفاد پر زایونسٹ امریکی مفاد کو مسترد کرنے والے۔ جبران باسل پر امریکا نے پابندی لگانے سے پہلے ان کے خلاف اور حزب اللہ کے دیگر اتحادیوں کے خلاف ماحول سازی کی۔ حزب اللہ کے خلاف تو وہ ہمہ وقت اعلانیہ سازشیں کرتے آئے ہیں۔ زایونسٹ امریکی سعودی و اماراتی بلاک کا ہدف یہ ہے کہ فلسطین پر ناجائز و غیر قانونی طریقے سے قابض جعلی ریاست اسرائیل کو قانونی ریاست تسلیم کریں اور کروائیں۔ عوامی سطح پر تو انہیں عرب و مسلمان عوام کی شدید مخالفت اور غیظ و غضب کا سامنا ہے۔ البتہ کہیں کہیں حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کمزوریوں کی وجہ سے اپنے اہداف کے حصول میں کامیابی کا آسرا بھی ہے۔ لبنان میں انہیں اپنے پرانے مہروں سے توقعات ہیں کہ وہ ماحول کو اسرائیل کے حق میں سازگار کردیں گے۔ اس لے بیک وقت انہوں نے فیک نیوز اور جھوٹے الزامات کے ذریعے مخالف سیاستدانوں سے متعلق شکوک و شبہات عوام میں پھیلا دیئے۔
لبنان کی اسٹیبلشمنٹ کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے نام پر مصروف کر دیا۔ فرقہ واریت کو ہوا بھی دی۔ حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے ذریعے پہلے اسے بلیک میل کرکے موقف تبدیل کروانے کی کوشش کی۔ ان سارے منفی حربوں میں ناکامی کے بعد اب امریکا نے جبران باسل پر پابندی کا اعلان کر دیا۔ وہ بھی مالی بدعنوانیوں کا الزام لگا کر اور وہ بھی ایسے وقت کہ جب خود صدر ٹرمپ سے متعلق غیر یقینی صورتحال ہے کہ وہ الیکشن جیت پائیں گے یا بائیڈن انہیں ہرا چکے ہیں اور اب حتمی گنتی کے بعد اعلان کا مرحلہ باقی ہے۔ اس ٹائمنگ پر جب امریکی حکومت خود داخلی طور پر اپنے ہی ملکی معاملات کو نمٹانے میں ناکام ہے، اس وقت بھی امریکی حکومت کو اسرائیل کی خدمتوں سے فرصت نہیں مل رہی۔ جبران باسل پر پابندیوں نے لبنان کے غیرت مند بیٹوں کے سامنے امریکا کے اصلی لبنان دشمن چہرے کو مزید بے نقاب کیا ہے۔ ایسے اقدامات لبنان میں زایونسٹ امریکی بلاک کی ناکامی و ذلت و رسوائی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ ماضی کے واقعات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ لبنان اس سازش کو بھی ناکام کر دے گا۔