مضامین

پاکستان اور سلامتی کے ادارے

پاکستان میں آڈیو اور ویڈیو لیکس کی گرد ہے کہ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ آئے روز سامنے آنے والی لیکس سے کارزارِ سیاست کے باسی پریشان ہیں، ہر فرد کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں کوئی اس کی ویڈیو یا آڈیو لیک نہ ہو جائے۔ یہ ریکارڈنگ کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟َ سکیورٹی مقاصد کیلئے ایجنیساں ایسے اقدامات کرتی ہیں لیکن یہ صرف اور صرف سکیورٹی مقاصد کیلئے ہوتا ہے، انہیں کسی کو بدنام کرنے یا سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ جس کی کوئی معاشرہ اجازت نہیں دیتا لیکن پاکستان میں ایک عرصے سے یہ کام سیاسی مقاصد کیلئے کیا جا رہا ہے۔

ایک پارٹی دوسری کو بدنام کرنے، ان کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے اس کام کو کئے جا رہی ہے۔ جو قابل افسوس اور قابل مذمت ہے، اس کی حوصلہ افزائی کوئی بھی نہیں کرتا، اس کے باوجود یہ سرگرمی جاری و ساری ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی بھی ایک دلیل ہے کہ ہمارا معاشرہ انتہائی خطرناک ماحول کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے، اس کا فوری سدباب کرنا ہوگا۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ آڈیو لیکس قومی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں وزیراعظم آفس اور وزیراعظم ہاؤس کی پوری سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ بحیثیت وزیراعظم ان کی رہائشگاہ پر ان کی سیکیورلائن کو بھی ٹیپ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کے مستند ہونے کے حوالے سے پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کریگی اور اس کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرے گی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ کون سی انٹیلی جنس ایجنسی ٹیپنگ میں ملوث ہے اور کون ہے جو آڈیوز لیک کر رہا ہے اور ان میں سے زیادہ تر آڈیوز ترمیم شدہ یا پھر مصنوعی ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ حساس سیکورٹی معاملات کی غیرقانونی ریکارڈنگ کی جا رہی ہے اور کی گئی ہے، نتیجتاً یہ ریکارڈنگز ہیک ہوئی ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کا عالمی سطح پر پردہ چاک ہوچکا ہے۔

جب عمران خان وزیراعظم تھے اس وقت بھی انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں ایجنسیوں کی جانب سے فون ٹیپ کرنے کی حمایت کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب آصف علی زرداری صدر اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے، ان کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے آئی بی چیف کی حیثیت سے قانون سازی کے حوالے سے پہلے انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے رضاکارانہ طور پر پارلیمانی نگرانی کیلئے اقدامات کئے اور دیگر جمہوریتوں کے قوانین کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک قانون کا مسودہ تیار کیا تھا۔ ان کے سبکدوش ہونے کے بعد، ان کا تیار کردہ مسودہ ہی ’’غائب‘‘ ہوگیا۔

پاکستان ایسے چند جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی ضابطے کے بغیر کام کرتی ہیں۔ ان ایجنسیوں کیلئے کوئی ضابطہ نہیں، کوئی ان سے ان کی کارکردگی پر سوال نہیں کرتا۔ پاکستان کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ملک کے قیام کے فوراً بعد ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم ہوئی تھیں لیکن ان کے کام کاج کے حوالے سے کوئی ضابطہ تیار نہیں کیا گیا۔ ان ایجنسیوں کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ کا بھی ایک الگ سے نیٹ ورک ہے۔ امریکی سفارت خانے میں ایسے آلات نصب ہیں، جن کے ذریعے ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ رواں سال 19 جولائی کو تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے بیڈ روم سے وائس ریکارڈنگ ڈیوائس برآمد ہوئی ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘بیڈ روم سے ملنے والی ریکارڈنگ ڈیوائس امریکی ماڈل کی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملازم کی غلطی سے بیڈ روم میں موجود میز سے ٹکر لگی تو ڈیوائس نیچے گر گئی، جس پر ایک ملازمہ نے فون پر بتایا کہ یہ چیز نیچے گری ہے اس کا کیا کروں؟۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے مطابق ہم نے اپنے سیکرٹری کو بھیجا اور تفتیش کی تو پتہ چلا کہ یہ وائس ریکارڈر ہے۔ ان کے مطابق خفیہ ایجنسیاں یہاں تک آگئی ہیں کہ بیڈ روم تک میں پرائیویسی نہیں رہی۔ شیریں مزاری نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کروں گی اور آئینی حق استعمال کروں گی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ میرے بیڈ روم میں ریکارڈر کس ایجنسی نے لگایا اور اس کا مقصد کیا تھا۔ ایک اور موقع پر شیریں مزاری نے ایک صحافی کیساتھ ٹیلی فون پر کچھ گفتگو کی، جس کے بعد اس صحافی کو امریکی سفارتخانے سے فون آگیا کہ آپ اس موضوع پر کیا لکھ رہے ہیں۔ صحافی کے مطابق یہ گفتگو صرف شریں مزاری اور اس صحافی کے درمیان ہوئی تھی، امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں کو کیسے پتہ چل گیا۔ اگر پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے ملکی سلامتی میں مخلص ہیں، تو انہیں امریکی سفارت خانے کی غیر قانونی و غیر سفارتی سرگرمیوں کا نوٹس لینا ہوگا۔
تحریر: تصور حسین شہزاد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button