مضامینہفتہ کی اہم خبریں

پاکستان کو عراق و شام بنا دیا جائیگا؟؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)کہتے ہیں ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے، ریاست اپنے شہریوں کیساتھ ویسے ہی مادرانہ سلوک کرتی ہے جیسے ماں اپنے بچوں کیساتھ "ممتا بھرا” رویہ رکھ کر کرتی ہے۔ ماں کیلئے تمام بچے برابر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے سب نے اُس کی کوکھ سے ہی جنم لیا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ماں ہی امتیازی سلوک پر اُتر آئے اور ماں ہی گھر کو آگ لگانے کے درپے ہو جائے تو پھر اس رویئے کو کیا نام دیا جائے؟ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اپنے پَر پھیلا رہا ہے، ایک کے بعد ایک عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرتا جا رہا ہے اور جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ طالبان بنانے والوں نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی فارم "داعش” کا عفریت کھڑا کیا۔ اس عفریت نے عراق اور شام کو کھنڈر بنا دیا۔ یمن پر بھی سیاسی بحران کو بنیاد بنا کر بیرونی مداخلت کی گئی اور سعودی عرب کے ذریعے یمن کی قوت کو بھی توڑا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی روز اول سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو عراق و شام کے بعد ہدف پاکستان قرار پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے باقاعدہ ایک منظم سازش تیار کی گئی، جس میں شیعہ اور دیوبندی مسلک کے ایک گروہ کو استعمال کیا گیا۔

دیوبندیوں میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں، ایک مخلص اور وطن دوست گروہ ہے، جو پاکستان میں امن اور بھائی چارے کی فضا چاہتا ہے، اس گروہ کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں، اس گروہ میں دیوبند مکتب فکر کے جید علماء شامل ہیں۔ لیکن ایک دیوبندی گروہ ایسا ہے جسے تکفیری گروہ بھی کہتے ہیں، یہ خوارج پر مشتمل ہے۔ اس کا کام ہی یا وجہ تخلیق ہی مخالف فرقے کی تکفیر اور ملک میں بدامنی کا فروغ ہے۔ یہ گروہ اتنا سر پھرا ہے کہ دیوبندیوں کا پہلا گروہ اس دوسرے تکفیری گروہ کے دباو میں آجاتا ہے۔ پاکستان کی حالیہ صورتحال میں یہ دوسرا گروہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس گروہ کے تانے بانے داعش اور داعش سے ہوتے ہوئے تل ابیب سے جا ملتے ہیں۔

پاکستان میں موجودہ کشیدہ صورتحال میں قوم (امت) دو واضح بلاکس میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف شیعہ ہیں اور دوسری طرف اہلسنت، اہلسنت کی اکثریث اس تکفیری دیوبندی گروہ کی ہم نواء دکھائی دے رہی ہے، جبکہ بہت سے اہلسنت اس سازش کا ادراک رکھتے ہوئے اپنے تئیں اس کیخلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں، جن میں مفتی گلزار نعیمی، صاحبزادہ حامد رضا، ابوالخیر محمد زبیر، پیر معصوم نقوی، پیر اعجاز ہاشمی، پیر محفوظ مشہدی سمیت دیگر اہلسنت کے سرکردہ رہنما شامل ہیں۔ مذکورہ اہلسنت رہنماء تکفیری گروہ کے پیچھے موجود ہاتھوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ یہ سنی رہنماء سمجھتے ہیں کہ تکفیری گروہ استعمال ہو رہا ہے اور ملک میں فرقہ واریت کو صرف اس وجہ سے ہوا دے رہا ہے، تاکہ اسرائیل کیلئے راہ ہموار کی جائے۔ اس میں جو افسوسناک امر ہے، وہ یہ ہے کہ ریاست بھی اس سازش میں استعمال ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان کے اہل تشیع نے بروقت اس سازش کا ادراک کیا، شیعہ علماء کی جانب سے محرم الحرام سے قبل ہی قوم کو آگاہ کر دیا گیا کہ محرم الحرام میں فرقہ وارانہ فسادات ہوسکتے ہیں، اس لئے آنکھیں کھلی رکھیں۔ اس حوالے سے تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے تو سب سے فعال کردار ادا کیا اور اپنے مدرسے جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں شیعہ سنی عمائدین کو بلوا کر ایک مشاورتی کانفرنس کی۔ جس میں اس سازش کو بے نقاب کیا۔ اس کانفرنس میں شریک تمام علماء نے تائید کی کہ وہ بھی یہی صورتحال دیکھ رہے ہیں، جس کی جانب علامہ سید جواد نقوی اشارہ کر رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے بھی اپنے ویڈیو پیغامات میں اس امر سے پردہ اُٹھایا اور قوم کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔ اسی طرح علامہ سید ساجد علی نقوی نے بھی اپنی تقریروں میں اس سازش سے پردہ اُٹھایا۔ دیگر شیعہ قائدین بھی اس سازش کے حوالے سے گاہے بہ گاہے بولتے رہے اور اپنی صفوں میں موجود شرپسندوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔

اب گذشتہ روز اسلام آباد میں ہونیوالی علماء و ذاکرین کانفرنس میں علامہ شیخ محسن نجفی نے کھلے بندوں کہہ دیا کہ اس فرقہ واریت کو ہوا دینے میں ریاست کا بھی ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آصف علوی کے مجالس پڑھنے پر پابندی عائد کروائی تھی، مگر ریاست نے وہ پابندی ہٹوا دی۔ خود وفاقی وزیر مذہبی امور اس میں ملوث ہیں، پھر اس کی متنازع تقریر کے بعد فوراً خصوصی پرواز کے ذریعے اسے لندن بھی پہنچا دیا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شرپسند اسلام آباد جیسے شہر میں متنازع تقریر کرے اور راتوں رات فرار ہو کر برطانیہ بھی پہنچ جائے، جبکہ اس سے پہلے وہ وفاقی وزیر مذہبی امور اور گورنر پنجاب چودھری سرور سے بھی ملاقاتیں کرتے دکھائی دیں، تو صاحبان بصیرت ان ملاقاتوں اور مجرم کے فرار کے واقعہ کو کس کھاتے میں ڈالیں؟؟ یقیناً اس میں ریاست کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ ریاست کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن کلیئر کرنی چاہیئے۔ دوسری اہم بات یہ کہ حالیہ عشرہ محرم الحرام کے دوران بہت سی مجالس اور جلوسوں کے بانیان کیخلاف مقدمات درج ہوئے، یہ مقدمات مخالف فرقے کے اعتراض پر نہیں بلکہ انتظامیہ کی جانب سے درج کئے گئے، ہائیکورٹ کی واضح رولنگ کے باوجود کہ چاردیواری کے اندر آپ کوئی بھی تقریب کرسکتے ہیں، تو چاردیواری کے اندر ہونیوالی مجالس پر مقدمات کا اندراج "اوپر” سے ملنے والی ہدایات کے پیش نظر ہی ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب کراچی میں گذشتہ روز کالعدم جماعت کی ریلی نے امام بارگاہ پر پتھراو کیا، مخالف فرقے کیخلاف کافر کافر کے نعرے لگائے، امام بارگاہ پر نصب علم کی توہین کی گئی، جس پر نبی کریم (ص) اور دیگر پنجتن پاک کے اسمائے کرامی تھے، نبی (ص) کے نام پر پتھر مار کر توہین رسالت (ص) کا ارتکاب کیا گیا، کیا اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔؟ کراچی میں اس ریلی کی اجازت دینا اور پھر اس کو امام بارگاہ کے سامنے سے گزارنا اور امام بارگاہ کے سامنے کافر کافر کے نعرے لگوانا، کیا یہ ریاست کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہے؟؟ یقیناً نہیں، تو ملک کو عراق و شام بنانے میں جہاں یہ تکفیری مجرم ہیں، وہاں ریاست بھی برابر کی شریک ہے۔ پاکستان میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب حکومتیں کچھ ڈلیور کرنے میں ناکام ہو جائیں تو فسادات کی آڑ میں توجہ ہٹانے کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے، مگر کیا ان فسادات سے آپ کا اقتدار بچ جائے گا؟؟ یقنناً نہیں، اس حوالے سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں، پاک فوج اور دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بیرونی قوت کی اس سازش کا تدارک کریں۔

علماء نے بہت اچھا کردار ادا کیا، اس سازش کو بے نقاب کیا، مگر یہ سازش ابھی تھمی نہیں، بلکہ اس کا پلان بی اور سی چل رہا ہے، یہ درست ہے کہ پلان اے ناکام ہوا ہے، مگر اب دیگر آنیوالے منصوبوں کو ریاستی اداروں نے ناکام بنانا ہے۔ اگر ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو تکفیریوں کا قلع قمع کرنا ہوگا، کالعدم جماعتوں کے جھںڈے اُٹھا کر ریلیاں نکالنے والوں اور کافر کافر کے نعرے لگانے والوں کی زبانیں بند کرنا ہوں گی۔ ہم نے اس سازش کو یہیں نہ روکا تو یہ داعشی گماشتے پاکستان کو بھی عراق و شام کی طرح پامال کر دیں گے۔ پھر یہاں امام بارگاہ سلامت رہیں گے، نہ مساجد آباد رہیں گے۔ یہاں مزارات رہیں گے نہ تعلیمی ادارے، یہاں لائبریریاں رہیں گی اور نہ لیبارٹریاں، تعلیمی ادارے رہیں گے، نہ فنون لطفیہ کے مراکز، یہاں ثقافت بچے گی نہ کلچر۔ ویرانوں میں اُلو بولا کرتے ہیں، کھنڈرات پر حکومتیں نہیں کی جاتیں۔ لہذا حکمران ہوش کے ناخن لیں، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔
تحریر: تصور حسین شہزاد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button