مشرق وسطیمقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی آئرن ڈوم کیسے تباہ کیا؟ کچھ چونکا دینے والے حقائق

شیعہ نیوز: لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم میں عرب دنیا کے معروف صحافی عبد الباری عطوان کا غزہ کے حالات حاضرہ پر ایک زبردست مقالہ شائع ہوا ہے جو مغربی میڈیا کی تشہیراتی مہم کو بے اثر بنا دیتا ہے ۔

جب تک غزہ پٹی کے فلسطینی بہادر ، اسرائيلی شہروں اور کالونیوں پر میزائیلوں کی برسات کرتے رہیں گے تب تک وہ اسرائيل کی ناکامی کا پیغام پوری دنیا کو سناتے رہیں گے ۔ یہ فلسطینیوں کے لئے بڑی کامیابی ہے ۔ اسرائيلی سیاسی و عسکری قیادت کی یہ حالت ہے کہ وہ ڈرے سہمے اسرائيلیوں کو مطمئن کرنے کے لئے ایسے کسی بہانے کی تلاش میں ہیں جسے اپنی جیت کی شکل میں پیش کر سکیں لیکن استقامتی محاذ انہيں یہ موقع ہی نہيں دے رہا ہے اور ہر روز نئے نئے ہتھیاروں کی رونمائي کر رہا ہے ۔

یہ جو امریکی حکام آج کل جنگ بندی کے لئے اتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسرائيل شکست کھا چکا ہے اور اب وہ دلدل میں ہاتھ پیر مار رہا ہے اور امریکی تگ و دو کرکے اسے اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ امریکیوں کو فلسطینیوں کی تو کوئي فکر نہیں ہے اور نہ ہی وہ غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ان کی ساری کوشش ان میزائیلوں کو روکنے کے لئے ہے جن کی وجہ سے ساٹھ لاکھ سے زائد اسرائیلی اتنا خوف زدہ ہو گئے ہيں کہ وہ مسلسل سات دنوں سے پناہ گاہوں میں سو رہے ہيں ۔

اس سلسلے میں دوسروں اور خاص طور پر اسرائيل سے ہاتھ ملانے والوں کی جانب سے کسی ممکنہ الزام سے بچنے کے لئے ہم اپنی نہیں ، اسرائيل کے نفسیاتی امراض کے مرکز کی سربراہ کے بیان کو لفظ بلفظ نقل کر رہے ہيں انہوں نے کہا ہے : اسرائیلی سماج میں خوف و دہشت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہمیں اس سلسلے میں مدد کے لئے کچھ ہی دنوں میں چھے ہزار سے زائد ٹیلی فون کال موصول ہوئي ہے ۔

مضمون لکھے جانے تک ، نام نہاد ” اسرائيل عظمی ” پر تین ہزار میزائیل فائر کئے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ جنگ مختلف نظر آنے لگی ہے کیونکہ یہ ميزائیل زیادہ بھاری اور زيادہ باریک بینی سے نشانہ لگاتے ہیں اور اسی طرح آئرن ڈوم کو دھوکا دے کر اپنے نشانے کو تباہ کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہيں ۔

قدس کے اس میزائيل انتفاضہ نے ، اسرائيل سے دوستی گانٹھنے والے عرب ملکوں پر بھی دسیوں ارب ڈالر کا خرچ ڈال دیا ہے کیونکہ وہ سب بہت جلد ، آئرن ڈوم اور اس کے میزائیلوں کی خریداری کرنے والے تھے کیونکہ امریکہ کا پیٹریاٹ انٹی میزائیل سسٹم یمن کے انصار اللہ کی میزائیلوں کو روکنے میں ناکام ہو چکا تھا ۔ وہ در اصل نیتن یاہو اور اسرائيلی فوج کے جنرلوں کے اس جھوٹ میں آ گئے تھے کہ آئرن ڈوم ، بہت موثر اور مضبوط ، انٹی میزائيل سسٹم ہے ۔

اسرائيلی فوج نے گزشتہ سات دنوں کے دوران ایک بھی قابل ذکر کامیابی حاصل نہيں کی ہے ، ہاں بے گناہ شہریوں کا خوب قتل کیا ہے اور کئي رہائشی عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا ہے جن میں صحافیوں کے لئے مخصوص عمارت بھی شامل ہے ۔ حماس اور اسلامی جہاد تحریکوں کے میدان میں اترنے والے ایک دو کمانڈروں کے قتل میں اسے کامیابی ملی ہے لیکن وہ اس عسکری قیادت سے قریب ہونے کی جرات نہيں کر پائي جو در اصل اس جنگ کو آگے بڑھا رہے ہيں ۔ اسی طرح سے اسرائيلی فوج ، ان مقامات کا پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے جہاں سے میزائیل فائر کئے جا رہے ہيں اسی لئے وہ مایوسی اور غصے میں ، فلسطینی رہنماؤں کے گھروں کو نشانہ بنا رہی ہے ۔

اگر جنگ کے پہلے ہفتے میں ” عیاش -250 ” نامی میزائيل کے خوف سے کھلنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد صحرائے نقب کے رامون ہوائي اڈے کو بند کیا جانا غیر معمولی واقعہ تھا تو دوسرے ہفتے استقامتی محاذ کی آبدوزوں اور غوطہ خوروں نےدنیا کو حیرت زدہ کر دیا اور بحر اوسط میں اور اسدود شہر کے سامنے سمندر کے درمیان گیس کے کارخانے کو نشانہ بنایا جانا اس کا سب سے اچھا ثبوت ہو ۔

غاصب صیہونی حکومت میں روزمرہ کی زندگي مفلوج ہو کر رہ گئي ہے جو یقینی طور پر کورونا کے دور میں اسرائيلی معیشت کے لئے کاری ضرب ہے جس کے نتیجے میں مالدار یہودی ، اپنا سرمایہ سمیٹ کر مغرب کے محفوظ ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہيں ۔

سن دو ہزار گيارہ کی مسلحانہ انتفاضہ تحریک میں اسرائيل کی ” سلیکن ویلی ” سے نوے ہائي ٹیک کمپنیاں لندن اور نیویارک چلی گئ تھیں اور اسرائيل کی سیاحت کی صنعت پوری طرح تباہ ہو گئي تھی جبکہ بہت سی فٹبال ٹیموں نے سیکوریٹی کی تشویش کی وجہ سے تل ابیب میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا اور اگر اب جنگ بندی ہو بھی جاتی ہے تب بھی یہی سب کچھ پھر سے ہوگا ، ہزاروں لوگ اپنا سامان سمیٹ کر ایئر پورٹوں کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہيں ۔

غزہ پر زمینی حملہ اور اس پھر سے قبضے کی دھمکی ، پروپگنڈہ اور جھوٹ تھی کیونکہ اگر اسرائيل نے یہ کیا تو یہ اس کے خاتمے کا آغاز ہوگا ، کیونکہ غزہ کے جال میں پھنسنا تو بڑا آسان تھا اور ہے لیکن پھنسنے کے بعد اس سے جان چھڑانا بہت ہی مشکل ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گي۔ خاص طور پر اب جبکہ استقامتی محاذ کے پاس ایسے میزائيل ہیں جنہوں نے مرکاوا ٹینکوں کی ناک رگڑ دی تھی اور غزہ میں انہيں گھسنے تک نہیں دیا تھا اس کے ساتھ ہی لاکھوں بندوقیں غزہ کے شہریوں کے پاس ہيں اور استقامتی تنظیموں کے پاس اپنے میزائيل اور ڈرون طیارے ہيں ۔

جنگ بندی اگر ہوگي تو استقامتی محاذ کی شرطوں پر ہوگي اور اسی وقت ہوگي جب استقامتی محاذ چاہے گا اور یہ جو اسرائيل کی جانب سے جنگ بندی سے انکار کے بارے میں امریکی حکام بیانات دے رہے ہیں وہ سب جھوٹ اور تجربے کے لئے ہیں ۔ وہ میز لگائے جنگ بندی پر بات چیت کا انتظار کر رہے ہیں اور مصر ، اردن و قطر جیسے اپنے حلیفوں پر مدد کے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ جلد از جلد جنگ بندی ہو اور کم سے کم نقصان پہنچے جسے چھپانے کے لئے اسرائیل اپنی پوری طاقت لگا رہا ہے تاکہ اندرونی بے چینی حد سے زیادہ نہ بڑھ جائيں خاص طور پر ہلاک شدگان کی تعداد پر پردہ ڈالا جا رہا ہے ۔

فلسطینیوں نے اور ان کے ساتھ پوری عرب دنیا اور دنیا بھر کے با غیرت لوگوں نے برسوں تک اس لمحے کا انتظار کیا ہے اور اس دوران ، اسرائيل کے نئے نئے دوستوں کے طعنے بھی سنے ہیں اور صیہونیوں کی قیادت میں ان کی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کا بھی سامنا کیا ہے لیکن آج استقامت کی میزائيلوں اور ان کے شہیدوں نے ان سب کے منہ پر ایسا طمانچہ لگایا ہے کہ ان کی خام خیالی ہوا ہو گئي ہے ، اسرائيل کا سر شرم سے جھک گیا ہے اور اس سے چھلنی ہوئے ” آئرن ڈوم ” کو چھپاتے نہيں بن رہا ہے۔ انہوں نے اسرائيل کی اس فوج کو دھول چٹا دی ہے جس کے بارے میں دعوی کیا جاتا تھا کہ وہ کبھی ہارتی نہیں وہ بھی پہلے ہی مرحلے میں ، آگے کے مراحل تو ابھی اور بھی زبردست ہوں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button