پارہ چنار، شبیہہ علم عباسؑ کی بے حرمتی کرنے والوں کا عبرتناک انجام
تحریر: ایس این حسینی
پاراچنار کے شمالی پہاڑی سلسلہ کوہ سفید کے وسط میں واقع اور 2010ء میں نہایت بے دردی اور بے رحمی سے لٹے جانے والے گاؤں کو لوگ خیواص کہتے ہیں۔ شوال 2010ء میں جب طالبان نے اس وقت کے حکومت کی کمک سے اس علاقے پر حملہ کیا تو 30 مقامی افراد سمیت دفاع کیلئے یہاں موجود کل 68 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ اور امام بارگاہ سمیت کسی گھر ودیوار کو نہ بخشا گیا۔ امام بارگاہ میں موجود علم عباس علیہ السلام کو نشان فتح کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔ 16 ستمبر 2010ء کو خیواص گاؤں طالبان کے ہاتھوں مکمل طور پر ملیامیٹ ہوگیا۔ مقامی طالبان یہاں نصب شدہ شبیہہِ علمِ غازی عباس علیہ السلام بھی فتح کے نشان کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جسے پیواڑ تنگی میں ایک گھر میں رکھا گیا تھا۔ لوگ اسکا تماشا دیکھنے اس گھر کا رخ کیا کرتے تھے۔ اس دوران شبیہہِ علم کے پنجے کی ایک انگلی کاٹ کر چار کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس پانچویں انگلی پر وہ نشان آج بھی موجود ہے۔ مگر اللہ اپنے شعائر (شعائر اللہ) کی عظمت ہر جگہ قائم ہی رکھتا ہے، اور وہ کٹا نہ جاسکا۔
ابتداء میں گھر میں موجود مال مویشیوں کے نقصان کے ذریعے انہیں شبیہہ علم غازی عباس علیہ السلام کی عظمت دکھائی گئی، مگر جب انہیں احساس نہیں ہوا، تو انسانوں کی باری آگئی۔ خطرناک امراض نے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ بیماریاں بھی کیا، لاعلاج قسم کی بیماریوں کا سامنا ہوا۔ گھر کی جمع پونجی اسی میں ختم ہوئی، ان میں سے کچھ مرگئے، جبکہ شبیہہ علم غازی عباس علیہ السلام اپنے ساتھ لے جانے والا بندہ دماغی توازن کھو بیٹھا، ابھی تک اسی حالت میں زندہ رہتے ہوئے شبیہہ علم غازی عباس علیہ السلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت بنا ہوا ہے۔ اسکے بعد گھر والوں کو کسی صاحب رائے نے نیک مشورہ دیا، کہ دیکھو یہ چیز جو آپکے گھر میں موجود ہے، اسے اپنی جگہ پلٹاؤ، ورنہ بچا کچا بھی کھو بیٹھو گے۔ یوں 25 مئی 2016ء کو گھر والوں نے ایک دنبہ بطور شرمانہ اور نذر و نیاز ملاتے ہوئے شبیہہ علم عباس علیہ السلام کو پیواڑ میں علیزئی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے حوالے کیا۔ اور کہا کہ ہم بہت شرمندہ ہیں، اور حالات بھی ایسے ہیں کہ ہم خود خیواص نہیں جاسکتے، آپ اسے لیکر فورا خیواص امام بارگاہ پہنچائیں۔
وہ شخص اب بھی زندہ ہے۔ روزانہ خصوصا اتوار اور دیگر چھٹیوں کے ایام میں سینکڑوں کی تعداد میں مومنین اس دور افتادہ گاؤں میں واقع اس علم خاص کی زیارت کرنے یہاں کا رخ کرلیتے ہیں۔ جسے اب ایک شیشے میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ خیواص میں ہر سال 13 صفر کو امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی صاحبزادی بی بی سکینہ سلام اللہ علیھا کی شہادت کی یاد منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر کرم بھر کے دور دراز علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں سوگواروں اپنی حاجتیں لیکر یہاں شرکت کرنے آتے ہیں۔ اس سال بھی اتوار 13 محرم و امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بلبل یعنی بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا کی یاد با فریاد منائی گئی۔ مجلس سے خیواص کے مقامی مولوی مولانا محمد اللہ اور بوڑکی سے تعلق رکھنے والے مولانا الطاف حسین ابراہیمی نے خطاب کیا۔ مولانا محمد اللہ نے خیواص کے مسائل کے حوالۓ سے مقامی انتظامیہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ تنگی میں مینگلوں نے طالبان کو لاکر ہمیں مالی اور جانی نقصان پہنچایا، اور خیواص کی اینٹ سے اینٹ بجادی، جبکہ اپنے علاقے کا اختیار طالبان کو دیکر یہ اپنا علاقہ چھوڑ گئے۔
انکا اگرچہ لڑائی میں مالی نقصان ہوگیا تاہم انہیں کوئی خاص جانی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے باوجود ہماری حکومت خصوصا ایڈیشنل ڈی سی کی جانب سے سہولیات دی گئی اور دی جارہی ہیں، اہلیان خیواص کو انکا عشر عشیر بھی نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اس حوالے سے مفتاح اللہ کو خاص طور پر مورد الزام ٹھہریا۔ مولانا الطاف حسین ابراہیمی نے فضائل اہلبیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اہلبیت علیہم السلام ہر دور میں ہر مکتب فکر کیلئے نجات کی کشتی ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا صحابہ سے لیکر تابعین اور تبع تابعین تک ہر دور میں لوگوں نے اہلبیت علیہم السلام کے در سے متوسل ہوکر اللہ رب العزت سے اپنی حاجتیں طلب کی ہیں۔ اہلبیتؑ کے فضائل و مناقت میں نہ صرف شیعوں، بلکہ اہل سنت ائمہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مجلس کے بعد شبہیہ گہوارہ برآمد ہوا، اور عزاداروں نے سینہ زنی کی۔
ایک گزارش:
خیواص کی شہید امام بارگاہ کی تعمیر پر کام شروع کیا جاچکا ہے۔ تہہ خانہ اور اسکے اوپر ڈبل سٹوری امام بارگاہ بنایا جارہا ہے۔ جس پر ساٹھ لاکھ سے کچھ زیادہ خرچہ آسکتا ہے۔ خیواص کے مومنین نیز زائرین کیلئے اس وقت کافی مشکل کا سامنا ہے۔ جو صرف اس شہید امام بارگاہ کی تعمیر ہی سے دور ہوسکتی ہے۔ چنانچہ دنیا بھر کے مومنین سے بالعموم، پاکستان کے مومین سے بالخصوص جبکہ یورپ، آسٹریلیا، قطر اور امارات میں مقیم کرم کے غیور مسافرین سے بالاخص التماس کی جاتی ہے کہ کرم کی اس شہید امام بارگاہ کی تعمیر میں دل کھول کر اپنا حصہ ڈالے۔ خصوصا وہ مسافر جنہیں کوئی مشکل درپیش ہے، وہ منت مان کر اس امام بارگاہ کی تعمیر میں حصہ ڈالے، انشاء اللہ انکی منت پوری ہوجائے گی۔ سوشل میڈیا پر کام کرنے والے برادران سے گزارش ہے کہ اس پیغام کو خود اور دوست واحباب کے توسط سے آگے شیئر کرکے اپنا حصہ ڈالیں۔