مسئلہ قدس اور فلسطین پر اعتراضات اور ان کا جواب
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مسئلہ قدس اور فلسطین کے حوالے سے اعتراضات اور ان کا جواب علامہ سید شفقت عباس شیرازی۔
سوال : خطے میں فلسطینی یہودو مسلم زمینی تنازعہ پرفریقین میں سےکون حق پر ہے؟ اگر مسلمانوں کاحق ہے تو اپنا کیس اقوام متحدہ میں کیوں پیش نہیں کرتے؟
شفقت شیرازی :تقریبا ستر سال سے اقوام متحدہ میں یہ کیس مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ بار پیش کیا جا چکا ہے، سینکڑوں قراردادیں اسرائیلی یہودیوں کے خلاف منظور ہوچکی ہیں لیکن دوغلی امریکیو مغربی پالیسیوں کی وجہ سےآج تک ان پرعمل درآمدنہیں ہوپایا۔
سوال : شنید ہے عالمی عدالت سے مسلمان بھاگ جاتےہیں ، اپناکیس لڑنے کی بجائے طاقت و بدمعاشی پر یقین رکھتے ہیںکیونکہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ کیس لڑا تو ہار جائیں گے، اسرائیل یہودیوں کا ہی ہے کیا یہ سچ ہے؟
شفقت شیرازی: جس سر زمین پر آج صہیونی ریاست اسرائیل کا نا پاک وجود ہے۔ یہی سرزمین تقریبا 72 سال پہلے سے لیکر صدیوں دور تک فلسطین کہلاتی تھی۔ ابھی جو علاقہ صہیونیوں کے قبضے میں نہیں وہ فلسطین ہی ہے۔ پچھلی صدی کے چالیس کے عشرے سے پہلے تک یہ سارا قطعہ سرزمین فلسطین ہی کہلاتا تھا اور یہاں پر اکثریت مسلمانوں کی تھی ہاں یہودی وعیسائی اقلیتیں بھی آباد تھیں ،ابتداءمیں فلسطین کا ایک مختصر حصہ صہیونیوں نے قبضہ میں لیا . 1967 کی جنگ میں اکثریتی علاقے صہیونیوں کے قبضے میں آئے اور اس کے بعد صہیونی قبضہ بڑھاتے بڑھاتے اب تقریبا 80% فلسطین کی سرزمین پر قبضہ جما کر وہ اسے اسرائیل کا نام دے چکے ہیں۔
سوال : رسول اللہ کے دور میںوہاں (فلسطین) پر اسرائیلی ریاست تھی پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس پر اپنا قبضہ جمایا۔ اسطرح یہودی دنیا بھر میں بکھر کر رہ گئے پھر ہٹلر نے انکو جمع کیا سعودی عرب سے زمین خرید انکو دوبارہ فلسطین میں آباد کیا گیا مسلم مفاد پرست عربوں نے انکو اپنی زمینیں مہنگے داموں فروخت کی جس کی وجہ یہ فلسطین کے بہت بڑے حصے کے مالک ہوگئے۔1980 میں زمین بیچنے پر پابندی لگا دیگئی جس کے بعد اسرائیل نے جبری قبضے شروع کیے۔ اس بات کی حقیقت کیا ہے؟
شفقت شیرازی:جب تاریخ کا مطالعہ کریں اور اس خطے کی جغرافیائی معلومات پڑھیں تو سب واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ کے دور میں اسرائیل نامی ریاست کا وجود نہیں ملتا۔قبل از اسلام یہ پورا خطہ بلاد شام یا شامات کے نام سے معروفتھا جس میں موجودہ مختلف ممالک سوریہ ، لبنان ، اردن اور فلسطین شامل ہیں لیکن اسرائیل نامی ریاست کا تاریخی طور پر کوئی وجود نہیں ملتا۔
سوال : رومی حکمرانوں کے دور حکومت میں یہ علاقے سلطنت روم کے زیر قبضہ تھے. یعنی مسلمانوں کے نہیں تھے، تو پھر مسلمان اس خطہ کے مالک کیسے ٹھہرے؟
شفقت شیرازی:مسئلہ دین و مذہب کا نہیں مقامی باشندوں کے حق کا ہے. فلسطین کی سر زمین پر گذشتہ صدی میں دنیا بھر سے یہودی لا کر یہاںآباد کرائے گئے ہیں. یہ سرزمین فلسطین کے مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کی سرزمین ہے. مقامی لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور دنیا جہاں کے صہیونیوں کو جنت کے باغات دکھا کریہاں لانے اور قبضہ جمانے پر اعتراض ہے ۔ شام کے لوگوں نے یہودیوں کو زبردستی نہیں نکالا. دمشق میں آج بھی حارۃ الیہود ہے۔ لہذا کسی کی حکمرانی سے زمین کی ملکیت نہیں بدل سکتی۔حکومتیں اور بادشاہیاں بدلتی رہتی ہیں ناجایز قبضہ جمانے سے مالک نہیں بنا جا سکتا لوگوں کی اپنی جائیداد کی ملکیت اور وراثت تو باقی رہتی ہے۔
سوال : شیرازی صاحب پہلے مسلمانوں نے بھی تو ناجائز قبضہ کیا تھا ۔ جب کہ اسرائیل تو یہود کاگھر اور انکا حق ہے۔
شفقت شیرازی: برادر عزیز نوٹ فرما لیں کہ تاریخی طور پر اسرائیل تو کبھی تھا ہی نہیں. تو پھرگھر اور حق کیسا؟سوال : ہم نے قبیلہ کی بات نہیں ریاست کی بات کی رومن ایمپائر کی بات کی ہے ۔ وہ یہاں کے حکمران تھےشفقت شیرازی: رومنایمپائر حکمران تھے مگر کیسے؟ وہ تو مغرب سے سمندر پار آکر اس خطے پر طاقت کے بلبوتے پر قابض ہو ئے تھے۔ مقامی حکمران نہیں تھے بلکہ باہر سے آ کر مسلط ہو گئے تھے۔
سوال : شیرازی صاحب رومن ایمپائر اسلامک ہسٹری سے پہلے کا ہے سمندر پار والی بات سچ نہیں ہے۔
شفقت شیرازی: میں نے تھوڑی دیر پہلے ابھی یہی آپ والی بات کی ہے ۔ کہ یہ سرزمین اس خطے کے مقامی لوگوں کی ہے جو بھی انکا دین ہو . سمندر پار سے صلیبی جنگیں مسلط کی گئیں ۔ ملک کے عوام تو شروع سے آ رہے ہیں ۔ اور ہمیشہ اس خطے پر بیرونی طاقتیں حملے کرتی رہی ہیں اور روموالے بھی اس خطے کے باسی نہیں تھے بلکہ وہ یہاں فوجی طاقت سے قابض ہوئے تھے ۔ اورخطے پر مسلط ہو گئے۔
سوال : مسئلہ فلسطین کیسے حل ہو سکتا ہے ؟
شفقت شیرازی :جو لوگ اس سرزمین پر ساٹھ ستر سال سے آ کر آباد ہوئے ہیں اب بھی وہ واپس افریقہ ، یورپ اور ایشیا یا دیگر جن ممالک سے آئے ہیں وہاں چلے جائیں اور وہ مقامی لوگ جو زبردستی ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں اور لاکھوں اصلی فلسطینی باشندےدر بدرٹھوکریں کھا رہے ہیں انہیں اپنے وطن واپس آ نے دیا جائے. پھر وہاں کے باسی کسی بھی مسلمان ، عیسائی یا یہودی کو اپنی منشا و مرضی سے اس ملک کا حکمران بنا لیں تو ا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اور اس کے بعد جو بھی فلسطین آنا چاہے وہ فلسطین کا ویزہ حاصل کرے اور اس ملک میں داخل ہو۔
سوال : مشکل سے اپنے گھر لوٹے ہیں وہ واپس کیوں جائیں؟
شفقت شیرازی: مصر پر ایک فرعون نہیں بلکہ فراعنہ کا دور گزرا ہے. تاریخی طور پر حکام آتے جاتے رہے ہیں. لیکن عوام وہی نسل در نسل وہاں آباد رہی. ممکن ہے کل کوئی ہندو اور سکھ مذہب کا پیروکار ہو اور آج دن اسلام اپنا کر مسلمان ہو جائے مگرشہری ہونے کے لحاظ سے وہ اپنی اسی سرزمین کا مالک ہوتا ہے اور اسی طرح لوگ کل یہودی اور عیسائی تھے اب وہی مسلمان ہو چکے ہیں. لیکن زمین پر انکا حق مذہب کے لحاظ سے تونہیں بلکہ آباواجداد کی ملکیت کے لحاظ سے ہے ۔
سوال : شفقت شیرازی صاحب آباو اجداد کی ملکیت ہی مسلمانوں کے بھاگنے کی وجہ ہے کیونکہ یہودی تو ہر دور میں ترقی یافتہ تھے اور سارے دستاویزی ثبوت بھی انکے پاس ہیں۔
شفقت شیرازی:یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطین کی سرزمین کبھی بھی سعودی عرب کی ملکیت میں نہ تھی اور نہ ان سے زمینیں خریدی گئیں. یہ سر زمین پہلے سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ تھی ، پھر برطانیہ نے قبضہ کیا جب برطانیہ نکلا تو یہودیوں کو مضبوط کر چکا تھا. برطانیہ کے نکلنے کے چند ہی منٹوں بعد صہیونیوں نے ریاست کا اعلان کیا اور چند منٹ بعد ہی امریکہ نے اسے بطور اسٹیٹ قبول کر لیا.سعودیوں کو بھی حکومت دیتے وقت شرط لگائی گئی کہ تم نے اس صہیونی ریاست کی حفاظت کرنا ہے اورابتک وہ امریکہ وبرطانیہ کے حکم پر یہ نوکری کر رہے ہیں ۔
سوال : شیرازی صاحب زمین تو اسی کی ہوتی ہے جو ملک پر قابض ہو۔
شفقت شیرازی: قبضہ زائل ہونے والی چیز کا نام ہے ۔ زمین فقط مقامی باشندوں کی ہی ہوتی ہے. جب مقامی باشندے کمزور ہو جاتے ہیں تو تجاوز پسند آکر قابض ہو جاتے ہیں، جب اصل مقامی لوگ طاقتور ہو جاتے ہیں تو اپنی زمین آزاد کروا لیتے ہیں اور قابض بھاگ جاتا ہے ۔
سوال : آپ ماضی کو بھول گئے کہ جب مسلمانوں نے اس سرزمین سے یہودیوں کو مار بھگایا۔
شفقت شیرازی:جب مسلمانوں نے سیاسی غلبہ حاصل کیا تھا۔ اس وقت بھی دنیا کے مختلف ممالک سے لوگوں کو لا کر آباد کاری نہیں کی تھی . جس سرزمین پر آج پاکستان قائم ہے یہاں کے مقامی لوگوں کا قدیمی مذہب بدھ مت ،ہندو ، سکھ پارسی وغیرہ تھا جب انہی کی اولاد نے اسلام قبول کر لیا تو آج مسلمانوں کا ملک پاکستان بن چکا ہے۔عرب دنیا کے قدیمی لوگ مذاہب کے لحاظ سے یہودی اور نصرانی اور بت پرست تھے۔جب انکی نسلیں مسلمان ہو گئیں تو وہ ممالک بھی اب مسلمان ملک کہلاتے ہیں اور ملک انہیں کا ہوتا ہے جو وہاں کے اصلی باشندے ہوتے ہیں یا جنہوں نے قانونی طریقہ کار کے مطابق شہریت حاصل کی ہوتی ہے۔یہ ملک فلسطینی عوام کا ہے نہ کہ سارے مسلمانوں کا اور نہ مسلمانوں کو حق ہے کہ وہ کسی کے حوالے کریں اور نہ قابض یہودی زمین کی ملکیت کے اوراق لیکر آئے ہیں ۔ اگر اوراق تھے تو فلسطینی عدالتوں میں جاتے نہ کہ طاقت کے بل بوتے پر قابض ہو کر اپنا ملک بناتے ۔ فلسطینی عوام کے پاس املاک کے ثبوت اور اوراق ہیں لیکن انکی کوئی سنتا نہیں۔اس ملک کا مالک فلسطینی ہی ہو گا جو اس ملک کارہنے والا ہو گا۔ نہ کہ روس ، امریکا ، جرمنی ، ایتھوپیا اور دیگر ممالک کی شہریت والا غاصب اور ڈاکو اس کا مالک ٹھہرے گا . کاش ہماری نسلیں تیس ، چالیس اور پچاس کے گذشتہ صدی کے صہیونی جتھوں کے حملوں کا مطالعہ کریں . اس کے بعد سینا ، جولان اور اردن کی زمینوں اور پھر لبنان کی زمینوں پر اسرائیل کے حملوں اور ناجائز قبضہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں ۔فلسطینی عوام پر پے در پے حملے اور محاصرہ. اب تو بڑی تعداد میں صہیونی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہیکل سلیمانی جھوٹ ، ہولو کاسٹ جھوٹ اور ارض میعاد جھوٹ ہے۔ جو ان سے بولا گیا وہ سب جھوٹ تھا۔
سوال : اسرائیل ساری دنیا کےلئے ناقابل شکست طاقت بن چکا ہے۔ آپ لوگ 40 سال سے صرفمردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ۔
شفقت شیرازی:اسرائیل اس وقت تک طاقتور تھا جب خطے میں مقاومت نہیں تھی.نیل سے فرات تک کی بات کرنے والا اب مقاومت کے حملوں سے بچنے کے لئے مقبوضہ فلسطین میں ہی اپنے گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے. فلسطینی عوام کے پتھروں اور غباروں سے خوفزدہ ہے. اب فلسطینی مقاومت کے دفاعی میزائل تل ابیب پر گرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بمباری اور آگ برسانے والا اسرائیل بیچارا نظر آ رہا ہے۔ لبنان میں اسے دوبار بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا. 25 مئی 2000 کو راتوں رات جنوبی لبنان میں اپنے مورچے خالی کر کے، ایجنٹوں کو تنہا اور یتیم کر کے دم دبا کر بھاگ نکلاتھا. پھردو فوجیوں کی خاطر جولائی 2006 میں بڑی بڑھکیں مار کر جنگ مسلط کرتا ہے. اسرائیل اور اس کی پشت پر کھڑی دنیا بھر کی سپر پاورز اور خطے کے خائن پارٹنرز سب ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن 33 روزہ جنگ میں ذلت ورسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جن کا وہ اعلان کر چکے ہوتے ہیں. جس کا دعویٰ کیا تھا نہ تو وہ فوجی چھڑوا سکے اور نہ جنوبی لبنان کی زمین پر قبضہ کر کے اپنے لئے امن کی پٹی بنا سکے۔ نہ حزب اللہ کی قیادت کو قتل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس تنظیم کو ختم کر سکے کہ جس کے خاتمہ کا اعلان کر چکے تھے. ذلیل ہو کر جنگ بندی کی طرف آتے ہیں. اور عرب ومسلمان نہیں بلکہ صہیونی ریاست اپنی شکست تسلیم کر لیتی ہے۔پتہ نہیں آپ کس بہادر فوج کی بات کر رہے ہیں. اب انکا یہ دعوی کہہماری فوج نہ شکست کھانے والی فوج ہے مقاومت کی وجہ سے غلط ثابت ہوچکا ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز تو سنیں وہ کسی اور کی خاطر نہیں اپنی عزت وشرف وناموس اور زمین کی خاطر مقاومت کر ر ہے ہیں۔ بھیا یہودی اس وقت نفسیاتی طور پر بہت بری پوزیشن میں ہیں آپ خواہ مخواہ خوش فہمی میں نہ رہیں۔
ايڈمن: اچھی بات ہے ہر کسی کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
شفقت شیرازی: آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ عرب ومسلمان سائنسدان اسی صہیونی ریاست نے قتل کئے ہیں اور ان صہیونی انٹیلی جینس کے ہاتھوں مرنے والے مصری ، سیرین ، عراقی وایرانی اور دیگر اقوام کی سائنسدانوں کی تفصیلات گوگل پر مل سکتی ہیں. بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی اور اپنی پشت پناہ سپرپاورز کی بدولت بدمعاشی کرنے والی ریاست کا نام اسرائیل ہے جس نے عراق وشام کےسائنسی تحقیقات کے مراکز اور ایٹمی پروگرام تباہ کئے اور بین الاقوامی سرحدوں کو روندا. سوڈان پر حملہ کیا. پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خلاف دسیوں بار دھمکی دے چکا ہے لیکن پاک فوج کی طاقت اور پاکستانی عوام کے جذبے سے خوفزدہ ہے. اگر ہماری بہادر فوج کا ڈر نہ ہوتا اور انھوں نے 1967 و1973 میں پاکستان کے شیروں کی شجاعت نہ دیکھی ہوتی کہ جب پاکستان کے پائلٹس نے ایک منٹ میں دو صہیونی طیارے مار گرائے تھے. تو وہ یہ حماقتکب کی کر چکے ہوتے۔شفقت شیرازی صاحب بہت اچھی اور مفید بات چیت ہوئی آپ نے تاریخی حقائق اور موجودہ صورتحال پر مفصل روشنی ڈالی۔ اور بہت سے شبھات کے مدلل جواب دیکر حقیقت حال کو واضح کیا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔