مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

سعودی شہزادے خالد بن سلمان کی جانب سے خواتین قیدیوں کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے

شیعہ نیوز : اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی وکیل بیرسٹر ہیلینا بارونس کینیڈی نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی بُری صورتحال پر 40 صفحوں پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی ہے جسے برطانوی اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے نشر کرتے ہوئے ’’دہلا دینے والی رپورٹ‘‘ قرار دیا ہے۔

اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی وکیل نے سعودی شاہی حکومت کی جیلوں میں خاتون سماجی کارکنوں کے خلاف سعودی تفتیشی افسروں کے جنسی جرائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے ریاض میں عنقریب منعقد ہونے والی جی20 ممالک کے اقتصادی ماہرین کی کانفرنس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی جیلوں میں قید خاتون سماجی کارکنوں کو سعودی تفتیشی افسران کی جانب سے غیر اخلاقی کاموں کی انجام دہی پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے انکار پر انہیں چھت کے ساتھ لٹکا کر بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں۔

بیرسٹر ہیلینا بارونس کینیڈی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی جیلوں میں قید خاتون سماجی کارکنوں کو نہ صرف فحش تصاویر و ویڈیوز دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ انہیں جنسی ہراسانی اور ضرب و شتم کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی وکیل نے سعودی تفتیشی افسروں کے غیر اخلاقی برتاؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاتون سماجی کارکنوں کی آزادی تک سعودی عرب کی میزبانی میں عنقریب منعقد ہونے والی G-20 ممالک کی کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیں۔

اس تفصیلی رپورٹ کے ایک حصے میں لکھا گیا ہے کہ ایک خاتون سماجی کارکن سے سعود القحطانی کی نگرانی میں تفتیش کی گئی ہے جو خود سعودی ولی عہد کی کرپٹ ٹیم کا حصہ اور سعودی حکومت پر تنقید کرنے والے معروف صحافی ’’جمال خاشگی‘‘ کے بہیمانہ قتل کا اصلی ملزم ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعود القحطانی نے ایک خاتون سماجی کارکن سے تفتیش کے دوران اسے کہا کہ میں جو چاہوں تمہارے ساتھ کر سکتا ہوں اور پھر اس کے بعد تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر لیٹرین میں بہا دوں گا!!

ایک اور خاتون سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ جیل میں سعودی ولی عہد کے چھوٹے بھائی ’’خالد بن سلمان‘‘ کی نگرانی میں مجھ سے تفتیش کی گئی جبکہ تفتیشی جلسوں کے دوران خالد بن سلمان بارہا کہا کرتا تھا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میں کون ہو؟ میں شہزادہ خالد بن سلمان اور امریکہ میں سعودی عرب کا سفیر ہوں اور جو چاہوں تمہارے ساتھ کر سکتا ہوں!! اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر قیدیوں کو جدہ کے قریب واقع ’’ذھبان‘‘ جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہیلینا کینیڈی کا لکھنا ہے کہ ریاض، خواتین کے ساتھ اپنے غیر انسانی سلوک کی بناء پر انسانی حقوق کے متعدد دستخط شدہ معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔

برطانوی انسانی حقوق کی وکیل نے "عالمی رہنماؤں اور سعودی عرب میں منعقد ہونے والی جی20 ممالک کی کانفرنس کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ: سعودی خواتین کی شرمناک گرفتاریاں اور شکنجے” کے عنوان سے تحریر کردہ اپنی رپورٹ کے مقدمے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ سعودی شاہی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی یہ کھلی خلاف ورزیاں غیر قابل قبول ہیں۔

انسانی حقوق کی وکیل نے اپنی رپورٹ میں خاص طور پر برطانوی حکومت سے اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی حکومت کو؛ صرف اس لئے کہ وہ آپ کے تجارتی شراکتدار ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ہیلینا کینیڈی نے لکھا کہ ان تمام فریقوں سے جو جی20 کانفرنس میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ کھل کر اعلان کریں کہ ہم صرف اسی صورت میں اس کانفرنس میں شرکت کریں گے جب سعودی شاہی حکومت ان خاتون سماجی کارکنوں کو رہا کر دے گی۔

واضح رہے کہ جاری سال نومبر کے آغاز سے قبل برطانیہ میں سعودی سفیر نے یہ اعلان کیا تھا کہ خاتون سماجی کارکنوں کو معاف کر دیا جائے گا اور وہ جی20 ممالک کی کانفرنس سے قبل آزاد کر دی جائیں گی تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس بیان کو صرف ’’اشتہاری مہم‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button