مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

صدیقہ کبری، ، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت، ولادت عصمت و طہارت

ولادت نور:

آپ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں 20 جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفی (ص) اور والدہ جناب خدیجۃ الکبری (س) ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ خاتون ہیں کہ جو پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور اپنی پوری زندگی اپنے مال اور جان سے ان کا اور اسلام کا دفاع کرتی رہیں۔

حضرت زہرا (س)کو نور کیوں کہا گیا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم شیخ صدوق کی کتاب امالی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ:

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: کہ جب مجھے معراج ہوئی تو جبرائیل امین میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے گئے اور مجھے جنت کی ایک کجھور پیش کی ، میں نے اسے کھایا اور وہ میرے صلب میں پہنچ کر نطفہ میں تبدیل ہو گئی ۔ اسی سے فاطمہ زہرا وجود میں آئیں۔ لہذا فاطمہ جنتی نور ہیں ، میں جب جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔

ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں کہ الله نے آپ کے نور کو خلق کیا اور اسے اپنے عرش کی زینت بنایا۔ امام حسین (ع) کی زیارت میں پڑہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا نور بلند مرتبہ مردوں کی صلبوں اور پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں رہا۔

ہاں! سب سے پہلے یہ نور حضرت محمد مصطفی (ص) اور حضرت علی (ع) کے وجود میں رہا اور بعد میں حضرت زہرا (س) کی طرف منتقل ہو گیا۔

جب حضرت زہرا (س) کا نور اس دنیا میں آیا تو پیغمبر اسلام (ص) کا دل شاد ہو گیا۔ پیغمبر اسلام (ص) جانتے تھے کہ میری نسل فقط فاطمہ کے ذریعہ ہی آگے بڑھے گی اس لیے وہ ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور احتراما آپ کو "ام ابیھا” کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہنچائی پیغمبر اسلام کا روز کا معمول تھا کہ جب نماز صبح کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا (س) کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر فرماتے تھے:

السلام علیک یا اھل بیت النبوة، انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا،

آپ کا کوثر قرار پانا:

حضرت زہرا (س) نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں اس میں لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر باپ غصہ سے کانپنے لگتا تھا اور ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا کہ اگر اس میں کسی انسان کے فقط بیٹیاں ہی ہوتی تھیں تو اسے بے اولاد سمجھا جاتا تھا اور اس زمانہ کے دنیا پرست انسان اسے ایک عیب تصور کرتے تھے۔

لیکن پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ آپ کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ آپ کے کوئی اولاد نہیں ہے لہذا جب آپ دنیا سے چلے جائیں گے تو آپ کی نسل ختم ہو جائے گی اور آپ کی نبوت کا بھی کوئی نام و نشان باقی نہ رہے گا۔

اولاد نہ ہونے کی بنا پر آپ کی مذمت کرنے والا عاص بن وائل تنہا انسان نہیں تھا بلکہ وہ اس پورے جاہل اور انسانیت مخالف معاشرے کا ترجمان تھا جو اپنی طاقت کے ساتھ پیغمبر اسلام اور الہی تعلیم کی مخالفت کر رہا تھا۔

ان تمام برائیوں اور آخری پیغمبر کی نبوت کے مٹ جانے کے بیہودہ خیالوں کے جواب میں خداوند نے پیغمبر کو کوثر (فاطمہ) عطا کی، اور آپ کی شان میں سورہٴ کوثر کو نازل فرمایا۔ اگر اس سورہ کی تفسیر خیر کثیر بھی کی جائے تب بھی یہ سورہ حضرت زہرا کی ذات پر منطبق ہو گی، کیونکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علی کی نسل سے گیارہ امام حضرت زہرا کے ہی بیٹے ہیں۔ اور حجت خدا حضرت امام مہدی (عج) جن کے وجود سے الله اس جہان کو عدل و انصاف سے پر فرمائے گا وہ بھی آپ کے ہی بیٹے ہیں۔ آج ہمیں دنیا کے ہر کونے میں پیغمبر اسلام کی اولاد نظر آ رہی ہے جن میں بہت سے جید علماء بھی ہیں یہ سب اولاد حضرت زہرا (س) ہی ہیں۔

یہ خیر کثیر ، یہ کوثر،اور یہ پاک و پاکیزہ نسل قیامت تک اسی طرح جاری رہے گی خدا کا شکر کہ پیغمبر کی نسل ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔

پیغمبر اسلام (ص) کے جگر کا ٹکڑا:

اپنے بچوں سے ہر انسان محبت کرتا ہے، یہ ایک فطری چیز ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے کسی استدلال کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ اس جذبہٴ محبت کا نتیجہ ہے جس کو خداوند نے ہر انسان کے وجود میں رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ماں باپ رات بھر جاگ کر تمام پریشانیاں برداشت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خاطر ہر طرح کی مصیبت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔ البتہ یہ محبت ہر انسان میں الگ الگ درجہ میں پائی جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں میں بہت کم ، کچھ لوگوں میں ضروری حد تک اور کچھ میں بہت ہی زیادہ۔

بہت زیادہ محبت دو وجہ سے ہو سکتی ہے:

(1) جہالت و نادانی کی بنا پر: ایسی محبت سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور یہ محبت ان کے لیے نفع بخش ہونے کی بجائے، مضر ثابت ہوتی ہے ۔

(2) اولاد میں پائی جانے والی خوبیوں کے سبب: ایسی محبت بچوں کی قدردانی کی دلیل ہے اور اس محبت کی وجہ سے ان کے اندر پائی جانے والی صلاحتیں اجاگر ہوتی ہیں۔

یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ پیغمبروں میں جہالت و نادانی نہیں پائی جاتی۔ خاص طور پر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے بارے میں تو اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ آپ اشرف مخلوقات اور عقل کل ہیں۔ آپ کا ہر عمل عقل و حکمت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

جو انسان آخری پیغمبر کی شکل میں انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہو، نہ وہ بیہودہ باتیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا سچا اور امین ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ان کے اخلاق و کرادر کی تعریف کرتے ہوا کہا ہے کہ: آپ خلق عظیم کی منزل پر فائز ہیں۔

اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد اب ہم پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے حضرت زہرا کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور مجھے ناراض کیا ہے۔

آپ کا "ام ابیھا” قرار پانا:

عربوں میں رسم ہے کہ ہر انسان کی ایک کنیت ہوتی ہے اور وہ احتراما ایک دوسرے کو اسی کنیت سے پکارتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت زہرا (س) کا اتنا احترام کرتے تھے کہ آپ کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ آپ کو آپ کی کنیت ام ابیہا سے خطاب فرماتے تھے۔ ام ابیہا یعنی اپنے باپ کی ماں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام کی والدہ کا آپ کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا اس لیے آپ اپنی ماں کے بعد حضرت فاطمہ بنت اسد یعنی حضرت علی (ع) کی والدہ سے بہت محبت کرنے لگے تھے اور آپ ہی کو ماں کہتے تھے ۔ جب ان کا انتقال ہو تو پیغمبر اسلام بہت غمگین ہوئے اور فرمایا کہ:

آج میری ماں اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔

اس کے بعد خداوند نے پیغمبر اسلام (ص) کو فاطمہ عطا فرمائی۔ جب آپ فاطمہ کو دیکھتے تھے تو آپ کو فاطمہ بنت اسد یاد آ جاتی تھیں اور آپ فاطمہ کی شکل میں انھیں کو دیکھنے لگتے تھے۔ اسی لیے آپ نے حضرت زہرا کے لیے "ام ابیہا” کی کنیت کا انتخاب فرمایا۔ ہاں! حضرت زہرا پیغمبر اسلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی ماں کے مثل بھی تھیں۔

حضرت زہرا (س) کی شادی:

جب حضرت زہرا (س) جوان ہوئیں تو انسان کامل میں پائے جانے والے تمام کمالات آپ کی ذات میں موجود تھے۔ چمکتا ہوا چہرہ ، نیک اخلاق، خاندانی شرافت، کلام کی فصاحت و بلاغت اور دیگر تمام کمالات کہ جن کی تعداد سے فقط خداوند کی ذات ہی آگاہ ہے ، آپ میں پائے جاتے تھے۔ ان ذاتی کمالات کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ آپ پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی تھیں۔ اس لیے بہت سے اشراف و غیر اشراف انسان آپ سے شادی کے متمنی تھے۔

ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبر اسلام فاطمہ کی شادی ہمارے ساتھ کرنے پر راضی ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان میں سے ایک امیدوار ابوبکر بھی تھا، لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے جواب میں فرمایا: میں ابھی الله کے فیصلے کا منتظر ہوں۔

عمر نے بھی اپنی تمنا کا اظہار کیا مگر انھیں بھی وہی جواب سننا پڑا جو پہلے سن چکے تھے ۔ انس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف اور عثمان بن عفان پیغمبر کے پاس آئے ، عبد الرحمن نے عرض کیا کہ آپ فاطمہ کی شادی میرے ساتھ کر دیں، میں مہر میں دس ہزار دینار اور مصر کے قیمتی کپڑوں سے لدے ہوئے کالے رنگ کے سبز آنکھوں والے ایک سو اونٹ دوں گا۔

عثمان نے کہا کہ میں بھی اتنا مہر دینے کے لیے تیار ہوں آپ مجھ پر لطف فرمائے کیونکہ میں نے عبد الرحمن سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام (ص) کو جلال آ گیا اور آپ نے کچھ سنگریزے اٹھا کر عبد الرحمن کی طرف پھینکے اور فرمایا تو میرے سامنے اپنی دولت پر فخر کرتا ہے ؟ وہ سب سنگریزے موتیوں میں تبدیل ہو گئے اور ان میں کا ایک ایک در عبد الرحمن کی تمام دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔

ابھی حضرت زہرا (س) کی شادی نہیں ہوئی تھی کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ مدینہ جا کر آباد ہو گئے۔ وہاں پر حضرت علی (ع) پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے اور آپ کی عمر بیس سال ہو چکی تھی۔ آپ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے سب سے پہلے انسان تھے اور آپ کی ذات اتنے کمالات کا مرکز تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے آپ سے حسد کرنے لگے تھے۔ آپ اپنے کمالات کی بنا پر تمام انسانوں میں اس طرح نمایاں تھے جیسے آسمان پر سورج نمایاں رہتا ہے۔

حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (ع) دونوں ایک خاندان سے تھے تو کیا حضرت زہرا کے لیے حضرت علی سے اور حضرت علی کے لیے حضرت زہرا سے بہتر شریک حیات ہو سکتا تھا ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ حضرت علی نے پیغمبر اسلام کے سامنے فاطمہ زہرا سے شادی کی تمنا ظاہر نہیں کی تھی ؟

کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت امام صادق (ع) سے روایت ہے :

اگر خداوند نے حضرت علی کو پیدا نہ کیا ہوتا تو حضرت زہرا کا کوئی کفو نہ ہوتا۔

ابن مسعود نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: الله نے مجھے فاطمہ کی شادی علی کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کچھ بھی ہو ایک دن ایسا آ ہی گیا کہ حضرت علی نے پیغمبر اسلام کے سامنے اس تمنا کا اظہار کر ہی دیا۔

زوجہ رسول جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے کانوں میں دروازہ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئی ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب سنتی پیغمبر اسلام نے فرمایا جاؤ دروزاہ کھولو اور کہو کہ اندر آ جاؤ،کیونکہ آنے والا وہ ہے جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتا ہے اور وہ بھی الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اسی دوران علی (ع) گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر اسلام (ص) سے حضرت زہرا (س) کے ساتھ شادی کے سلسلہ میں بات چیت کی ۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہ سن کر پیغمبر کا چہرہ خوشی سے کھل گیا اور آپ نے فرمایا:

اس سے پہلے کہ میں زمین پر فاطمہ کی شادی علی سے کروں، آسمان پر الله نے فاطمہ کی شادی علی سے کر دی ہے۔ جو بھی ہوا ہو یہ مبارک شادی ہو گی اور حضرت زہرا کا مہر چار سو اسّی درہم قرار پایا ۔ جسے حضرت علی (ع) نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کیا۔

پیغمبر اسلام (ص) نے اس رقم کو چند حصوں میں تقسیم فرمایا:

ایک سو ساٹھ درہم عطر کے لیے۔ ایک سو ساٹھ درہم لباس کے لیے۔ چھیاسٹھ درہم گھر کے سامان کے لیے اور چھیانوے درہم جناب ام سلمہ کو دئیے کہ انھیں دیگر اخراجات کے لیے اپنے پاس رکھو۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اس مختصر سامان کو خریدنے کے لیے کچھ لوگوں کو معیّن فرمایا۔ ہم یہاں پر حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کے گھر کے سامان کی تفصیل بیان کرتے ہیں تا کہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں اسے نمونہٴ عمل قرار دیں اور محبت پر مبنی بابرکت زندگی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ سکیں:

(1) لباس سات درہم

(2) چارد چار درہم

(3) مقنعہ چار درہم

(4) کھجور کی پتیوں کا بنا تکیہ

(5) دو گدے جن میں سے ایک میں بھیڑ کی اون اور دوسرے میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں۔

(6) چار چمڑے کے تکیے جن میں اذخر نامی خوشبو دار گھاس بھری ہوئی تھی۔

(7) ایک نازک اونی پردا

(8) ایک چٹائی

(9) جو پیسنے کے لیے ایک چکی

(10) کپڑے دھونے کا تشت

(11) ایک لکڑی کا پیالہ

(12) پانی کا جگ

(13) ایک صراحی

(14) ایک لوٹا

(15) ایک سبز رنگ کا مٹی کا مٹکا

(16) چند مٹی کے برتن

(17) ایک چمڑے کا گدا

(18) ایک چارد

یہ حضرت زہرا (س) کا جہیز تھا جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے لایا گیا۔ پیغمبر اسلام نے تمام چیزوں کو ہاتھوں میں لے کر دیکھا اور فرمایا: الله اس سامان کو اہل بیت کے لیے مبارک قرار دے۔

ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا: اے الله ! اس سامان کو اہل بیت کے لیے مبارک قرار دے کہ اس میں اکثر برتن مٹی کے ہیں۔

حضرت علی نے حضرت زہرا کی آمد پر جو انتظام فرمایا تھا اس کی تفصیل یہ ہے:

(1) سونے کے کمرے میں باریک و نرم ریت بچھا دی گئی تھی۔

(2) کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے دونوں دیواروں کے درمیان ایک لکڑی لگا دی گئی تھی۔

(3) گوسفند کی کھال بچھا کر اس پر کھجور کی پتیوں سے بنا ایک تکیہ رکھ دیا گیا تھا۔

(4) دیوار میں ایک کھونٹی گاڑ کر اس پر ایک تولیہ لٹکا دیا گیا تھا۔

(5) ایک صراحی کا انتظام کیا گیا تھا۔

(6) آٹا چھاننے کے لیے ایک چھنی مہیا کی گئی تھی۔

یہ تھا دین و دنیا کے امیر حضرت علی (ع) کے گھر کا سرمایہ۔

ہاں! حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کی شادی بڑی سادگی کے ساتھ ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام (ص) نے ولیمہ کر کے حضرت زہرا (س) کو حضرت علی (ع) کے ساتھ رخصت کر دیا تھا۔

اس مبارک گھر کی بنیاد جس طرح رکھی گئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس شادی کے نتیجہ میں جو مبارک اولاد وجود میں آئی ان کے نور نے اس دنیا کو اس طرح منور فرمایا کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر انسان بخوبی واقف ہے۔ ہم یہاں پر فقط حضرت زہرا (س) کی اولاد کے ناموں کو بیان کر رہے ہیں:

حضرت امام حسن مجتبی (ع) ، حضرت امام حسین (ع) ، حضرت زینب (س) اور پھر جناب ام کلثوم اس دنیا میں تشریف لائیں ۔

ان چار اولاد کے علاوہ آپ کے ایک محسن نامی بیٹے بھی تھے۔ جو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس وقت شہید ہو گئے تھے جب ظالموں نے حضرت زہرا (س) پر دروازہ گرایا تھا اور آپ در و دیوار کے پس گئیں تھیں۔

قرآن کریم میں حضرت زہرا (س) کے فضائل:

قرآن کریم میں حضرت زہرا (س) کی شان میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔

(1) سورہ دہر:

شیعہ و سنی دنوں فرقوں کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ حسنین (ع) بیمار ہوئے ، پیغمبر اسلام ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ آپ نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ اگر ان بچوں کی صحت کے لیے نذر مانی جائے!

حضرت علی نے بچوں کے صحت یاب ہونے پر تین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ، حضرت زہرا اور گھر کی کنیز نے بھی یہی نذر مانی۔

حسنین کے شفایاب ہونے پر نذر کو پورا کیا گیا ۔ حضرت علی (ع)، حضرت زہرا (س) اور فضہ نے روزہ رکھا۔ حضرت علی کے گھر میں افطار کے لیے کچھ نہ تھا ۔ حضرت کا ایک پڑوسی اون کا کاروبار کرتا تھا لوگ اس سے کچا مال لے جاتے اور اون تیار کر کے دیتے تھے اور اس کام کے بدلہ اپنے کام کی مزدروی حاصل کرتے تھے۔ حضرت بھی اس کے پاس گئے اور اس سے اس معاملہ پر کچھ جو حاصل کیے کہ جو کی قیمت کی برابر حضرت زہرا اس کے لیے اون تیار کریں گی۔

جو کو پیس کر افطار کے لیے کچھ روٹیاں تیار کی گئیں۔ افطار کا وقت قریب آیا اور اب حضرت علی کے مسجد سے گھر پلٹنے کا انتظار ہونے لگا ۔ جب حضرت علی گھر تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا ، تمام اہل بیت اور فضہ دسترخوان پر آ کر بیٹھ گئے، اس بابرکت دسترخوان پر فقط چار روٹیاں رکھی ہوئی تھیں ابھی کسی نے روٹی کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا کہ کسی نے دروازہ پر آ کر آواز دی اے اہل بیت نبوت آپ پر میرا سلام ہو، میں ایک مسکین ہوں آپ جو کھا رہے ہیں اس میں سے مجھے بھی عطا کریں، خدا آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر فرمائے گا۔ یہ سن کر دسترخوان پر رکھی ہوئی روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالہ کر دی گئیں اور اہل بیت نے پانی سے افطار کیا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی حضرت زہرا نے روٹیاں تیار کیں اور پہلے دن کی طرح ہی یتیم و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کر کے بھوکے سو گئے۔ اسی دوران جبرئیل امین اہل بیت کی شان میں سورہٴ دہر لے کر نازل ہوئے۔ جب تک قرآن باقی رہے گا اور اس کی تلاوت ہوتی رہے اور سورہٴ دہر کی آیات کو پڑھا جاتا رہے گا اہل بیت (ع) کا یہ افتخار دنیا کے سامنے نمایاں ہوتا رہے گا۔

(2) آیت اجر رسالت:

قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ،

یعنی اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت کی جائے۔

اہل بیت پیغمبر (قربیٰ) کون ہیں ؟ حضرت زہرا (س) کی شہادت کے واقعہ سے یہ پتہ چلے گا کہ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی وصیت اور اس آیت پر کس طرح عمل کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر گمراہ لوگوں کو نقصان ہوا اور انھوں نے اس راستے کو طے کیا جس سے پیغمبر اسلام کو اذیت پہنچی۔ یہ آیت وہ شاہد اور حجت ہے کہ جس کے ذریعہ حضرت زہرا (س) اس وقت احتجاج کریں گی جب ظالموں کو سزا اور مظلوموں کو ان کا حق دینے کے لیےخالق کائنات کی عدالت برپا ہو گی۔ وہاں پر ظالم اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں گے۔

(3) آیت مباہلہ:

پیغمبر اسلام (ص) نے الله کے پیغام کو پہنچایا اور انسانوں پر حجت کو تمام کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور حق کی مخالفت کرنے لگے۔ الله نے پیغمبر اسلام کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ کرو اور ان سے کہو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ اور ہم بھی اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں ، تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم بھی اپنی عورتوں کو لاتے ہیں، تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم بھی اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر الله کی لعنت قرار دیں۔

حق کو قبول نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ عیسائیوں کا بھی تھا۔ وہ مباہلہ کے لیے تیار ہو گئے اور اس کے لیے 24 ذی الحجہ کا دن طے ہوا ۔ جیسے جیسے مباہلہ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لوگوں کی بیچینیاں بڑھتی جا رہی تھیں کہ دیکھیں اب پیغمبر اسلام کیا کرتے ہیں؟

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام اس شان سے اپنے گھر سے نکلے کہ امام حسین (ع) کو گود میں لیے ہوئے تھے ،حضرت امام حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت زہرا (س) آپ کے پیچھے چل رہیں تھیں اور حضرت علی (ع) ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ آج پیغمبر اسلام کے لیے بیٹے حسنین ، نفس علی، اور خاتون حضرت زہرا تھیں۔ نصاری نجران یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام بادشاہوں کی طرح شان و شوکت اور بھیڑ بھاڑ کے ساتھ میدان میں آئیں گے لیکن جب انھوں نے پیغمبر اسلام کو اس شان سے آتے دیکھا تو دنگ رہ گئے اور آپ اور آپ کے اہل بیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے سب سے بڑے عالم سے کہنے لگے اے ابو حارث! دیکھ رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا: مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ میں ان انسانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ الله کو قسم دے کر یہ کہیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں تو وہ ایسا ہی کرے گا ۔ حضرت عیسی کی قسم اگر مسلمانوں کا نبی دعا کرے تو کوئی عیسائی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔ ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔

(4) آیہ تطہیر:

انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیراً۔

کیونکہ آیہٴ تطہیر کی تفصیل کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے لہذا ہم یہاں پر اس کی طرف اشارہ کر کے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ شیعہ و سنی علماء کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت حضرت زہرا (س) آپ کے بابا، آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

حدیث کساء سے ظاہر ہے کہ اس کی شان نزول کا محور بھی حضرت زہرا کی ہی مقدس ذات ہے۔ الله نے یہ آیت آپ کی شان میں نازل کر کے فرمایا کہ اے اہل بیت بس الله کا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے ہر رجس کو دور رکھے اور آپ کو ایسا پاک و پاکیزہ کرے کہ جس طرح پاک کرنے کا حق ہے۔

حضرت زہرا (س) کی شخصیت:

حضرت فاطمہ کی حقیقت اور آپ کا زہرا نام رکھنے کی وجہ:

پہلا مطلب: جس کے بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اگر ایک مسلمان شیعہ ہو یا سنی اس مطلب کی طرف توجہ دے تو بہت سے شبہات اس سے حل ہو جاتے ہیں ، اور بہت سے سوالات کے جواب اسی میں پوشیدہ ہیں اور وہ مطلب یہ ہے کہ فاطمہ کون ہے ؟ اگر ہم انہیں صرف پیغمبر اکرم کی بیٹی ہونے سے محدود کرے اور ایک عام انسان کے عنوان سے پہچانیں تو اس کے اپنے نتائج ہیں، لیکن اگر ہم اس بارے میں کچھ غور کریں کہ خداوند کے نزدیک آپ کا کیا مقام و منزلت ہے ، اور اسی لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک آپ کا کیا مقام و منزلت تھی ؟ اگر یہ معلوم ہو جائے تو اس وقت بہت سے اعتقادی اور تاریخی مسائل حل ہو جائیں گے۔

احادیث کی کتابوں میں جابر انصاری سے ایک روایت نقل ہے کہ جابر نے اسے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ:

قال الصدوق حدثنا أبـى حدثنا محمد بن معقل القرمسينـى ، عن محمد بن زيد الجزرى ، عن إبراهيم بن إسحاق النهاوندى، عن عبد الله بن حماد ، عن عمرو بن شمر، عن جابر، عن أبي عبد الله قال: «قلت له لِمَ سمّيتَ فاطمة الزهراء زهراء ؟ فقال لأنّ الله عزوجل خلقها من نور عظمته فلما أشرقَتْ أضاءَت السماوات و الأرض بنورها و غشيت أبصار الملائكة و خرّت الملائكة ساجدين و قالوا: إلهنا و سيدنا ما لهذا النور فأوحي الله إليهم هذا نور من نورى أسكنته فـى سمائى خلقته من عظمتـى أخرجه من صلب نبی من أنبيائى أفضله علی جميع الأنبياء و أخرج من ذلك النور أئمة يقومون بأمری يهدون إلى حقى و اْجعَلهم خلفائى فـى أرضى بعد انقضاء وحيى.

امام صادق (ع) سے عرض کرتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کو کیوں زہرا کہا گیا ہے ؟ یہ بھی واضح ہو کہ روایات میں نقل ہے کہ خدا کے نزدیک حضرت زہرا کے نو اسماء ہیں ،کہ یہ خود اپنی جگہ ایک بہت ہی مہم مطلب ہے ؛ لیکن ابھی سوال یہ ہے کہ ان ناموں میں سے ایک نام زہرا کیوں ہے ؟

حضرت نے جواب میں فرمایا کہ : لان اللہ عزوجل خلقہا من نور عظمتہ… ‘ ‘ خداوند نے حضرت فاطمہ زہرا کو اپنے نور کی عظمت سے خلق فرمایا ہے، پیغمبر اکرم اور امیر المؤمنین کے بارے میں بھی ہے کہ ان کی خلقت خداوند کے نور سے ہوئی ہے۔

علل الشرايع: ج1 ص 180.

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ کی خلقت پہلے سے ہی عام انسان کی خلقت سے مختلف ہے ، تمام انسان خدا کی مخلوق ہیں، لیکن خدا کے نور سے خلق نہیں ہوئے کیونکہ اگر تمام بشر خدا کے نور سے خلق ہوتے تو کوئی بھی انسان گناہ انجام نہیں دیتا اور خدا کی نافرمانی نہیں کرتا ، حضرت فاطمہ (س) خدا کے نور سے خلق ہوئی ہیں اور وہ بھی خدا کی عظمت کے نور سے ، یعنی خداوند کی یہ عظمت کہ جو دوسری تمام جہات سے مہم ہے، اس سے خلق ہوئی ہیں، تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مخلوق اور بزرگ مخلوق ہے، چونکہ خدا کے نور کی عظمت، بہت عظیم اور بزرگ ہے۔

‘ ‘فلمّا اشرقت اضائت السماوات و الارض بنورھا ‘ ‘آسمان اور زمین حضرت فاطمہ (س) کے نور سے روشن ہوئے ہیں۔

اس کے بعد روایت میں ہے کہ خداوند نے فرشتوں سے فرمایا :

ھذا نور من نوری و اسکنتہ فی سمائی خلقتہ من عظمتی۔

یہ حضرت فاطمہ کی آفرینش کو بیان کر رہا ہے کہ کیسے ان کو خلق فرمایا اور کہاں سے خلق کیا ، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا (س) کی خلقت دوسرے انسانوں کی خلقت سے جدا ہے ، حضرت زہرا کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدا کی عظمت کے نور سے خلق ہوا ہے،

دنیا کی خواتین میں کچھ قابل احترام خواتین ہیں جیسے حضرت مریم بن عمران ،آسیہ و خدیجہ … یہ دوسری خواتین کی نسبت کامل ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں یہ خصوصیت نہیں ہے کہ خدا کی عظمت کے نور سے خلق ہوئی ہوں۔

پیغمبر اکرم (ص) کا حضرت زہرا (س) کی نسبت احترام کرنا:

سفینۃالبحار میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ جسے ابوبکر نے نقل کیا ہے:

قال أنَّ فاطمة دخلَتْ يوماً علی أبيها فأستقبلها و قَبّل يديها ثم لما ودّعتْ وَ مَشتْ شيعها النبـى و قبّل يدَيها أيضاً، فقلتُ: يا رسول الله ما رأيتُ مثل هذا فـى أحدٍ من النساء و لا يناسب لمثلك فقال: ما فعلتُه إلّا بأمر ربـى تعالى.

ایک دن حضرت زہرا پیغمبر اکرم کی خدمت میں تشریف لائیں ‘ ‘فاستقبلہا ‘ ‘ پیغمبر اکرم نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا ‘ ‘ و قبّل یدیھا ‘ ‘ اور ان کے دونوں ہاتھوں کا بوسہ لیا ‘ ‘ثم لمّا ودّعت و مشت ‘ ‘ جب آپ واپس جانا چاہ رہی تھی تو ‘ ‘شیعاھا النبی ‘ ‘ پیغمبر اکرم چند قدم آپ کے ہمراہ گئے ‘ ‘و قبل یدیھا ‘ ‘ اور ہاتھوں کا بوسہ لے کر آپ کو خدا حافظی کی ، ابوبکر پیغمبر اکرم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: فقلت یا رسول اللہ ما رایت مثل ھذا فی احد من النسائ ‘ ‘یا رسول اللہ آپ حضرت زہرا س کے ساتھ جس تواضع کے ساتھ پیش آ رہے ہیں اس طرح گھر کے کسی دوسری خاتون کے ساتھ پیش آتے ہوئے نہیں دیکھا ‘یعنی آنحضرت پر اعتراض کیا کہ آپ کیوں فاطمہ کے ساتھ اتنی تواضع سے پیش آتے ہیں ؟ شاید اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا تواضع نہیں کرتا ‘اس کے بعد پیغمبر اکرم کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: ‘ ‘ولا یناسب لمثلک ‘ ‘آپ کے لیے مناسب نہیں کہ کسی دوسرے کے لیے ایسا کرے ، اس وقت پیغمبر اکرم نے ایک اہم جملہ ارشاد فرمایا : ‘ ‘فقال ما فعلتہ الا بامر ربی ‘ ‘ میں نے خدا کے حکم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیا۔

مجمع النورين: ص27.

ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) حضرت زہرا (س) کی جو بھی عزت و احترام کرتے ہیں، وہ صرف عاطفی لحاظ سے نہیں تھا کہ کسی باپ نے اپنی بیٹی کا عزت و احترام کیا ہو، یا ایک مطہرہ و طاہرہ خاتون ہونے کی وجہ سے کیا ہو ، بلکہ مطلب اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ خدا کے حکم سے یہ کام انجام پایا ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم اشرف مخلوقات ہیں، آپ سب کے سامنے اعلانیہ طور پر خدا کے نور کی عظمت سے خلق ہونے والے ایک انسان کی عزت اور تکریم کر رہے ہیں۔

لہذا یہ حدیث ہمیں بھی حضرت زہرا اطہر (س) کی شخصیت کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے ہمیں اپنے مطالعات اور دروس میں فاطمہ شناسی کے بارے میں بحث و گفتگو کرنا چاہیے، حضرت زہرا (س) کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں، ان ایام میں منابر سے آپ کی عظمت اور خدا نے آپ پر جو خاص توجہ کی ہے اسے لوگوں تک پہنچانا یہ علماء پر لازم اور ضروری ہے۔

غصب فدک:

حضرت زہرا (س) کی شخصیت اور عظمت کے بعد جس موضوع کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک فدک کے غصب کرنے کا وہ تاریخی مسئلہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی شہادت کے بعد ابوبکر و عمر اور دوسرے صحابہ نے فدک کو حضرت زہرا (س) سے زبردستی چھین لیا تھا، کہ آنحضرت (ص) کے زمان حیات میں تین سال فدک حضرت زہرا کے اختیار میں تھا اور آپ نے وہاں پر کچھ مزدورں کو دیکھ بھال کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا اور آپ کے ہاتھ اور اختیار میں تھا۔ اس کے بعد ایک جھوٹی حدیث جعل ہوئی کہ اس وقت تک یہ حدیث پیغمبر اکرم (س) کے صحابہ میں سے کسی نے نہیں سنی تھی، اس حدیث میں کہا گیا کہ:

نحن معاشر الانبیاء و ما ترکناہ فہو صدقة۔

ہم پیغمبران الہی اپنے بعد ارث نہیں چھوڑتے ، جو کچھ بھی ہے، وہ سب صدقہ ہے،

صحيح بخاری: ج5 ، ص25 و ج8، ص3 کتاب الفرائض

صحيح مسلم: ج5 ، ص155

اس حدیث کو جعل کر کے فدک کو حضرت زہرا (س) سے غصب کر لیا گیا ، تاریخی اور حدیثی گفتگو میں اس حدیث پر بہت سے اشکالات وارد ہوئے ہیں۔

یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو صریحاً قرآن کریم کے مخالف ہے، پیغمبر اکرم کی بیٹی جو آنحضرت کے نزدیک اس قدر محترم و مکرم تھی کہ جسے خود ابوبکر نے بھی دیکھا تھا اور جالب یہ ہے کہ اس جھوٹی روایت کو نقل کرنے والا بھی خود ابوبکر ہے کہ اس نے رسول خدا کے احترام اور تکریم کو خدا کے حکم سے انجام دیتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا : یہ فدک میرا ہے اور پیغمبر اکرم نے مجھے بخشا ہے ، تو ابوبکر نے کیوں ان سے گواہ طلب کیا ؟ یہاں پر بہت سے اعتراضات ہیں ، حضرت فاطمہ (س) جو خدا کے نور عظمت سے خلق ہوئی تھیں اور پیغمبر اکرم کی مورد احترام ہے اور صدیقین میں سے ہے اور سچائی میں سب کی زبان زد عام و خاص ہے ، کیوں ابوبکر نے ان کی بات کو قبول نہیں کیا ؟ کیوں ان سے اپنے دعوی پر گواہ لانے کو کہا ؟ کیوں ابوبکر نے پیغمبر اکرم کی بیویوں سے کہ جو آخر عمر تک حجروں میں رہیں، نہیں کہا کہ یہ ہمارا ہے ،کیوں ان پر اعتراض نہیں کیا کہ یہاں سے نکل جائیں پیغمبر اکرم (ص) سے تمہیں کوئی ارث نہیں ملی ہے اور یہ سب کچھ صدقہ اور سب مسلمانوں کا حق ہے ؟؟؟

یہاں پر اس مسئلہ کو بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ شیعہ اور سنی فقہ میں واضح ہے کہ مالی مسائل میں اگر ایک گواہ کے ساتھ قسم بھی کھا لیں تو وہ دعوی ثابت ہو جاتا ہے ، یہاں پر امیر المومنین علی (ع) نے گواہی دی ، حضرات حسنین (ع) نے گواہی دی لیکن اسے قبول نہیں کیا، حالانکہ امیر المومنین علی (ع) کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کے تمام صحابہ نے یہ سنا ہوا تھا کہ ‘ ‘اقضاکم علی ‘ ‘

قضاوت میں علی (ع) سے بہتر کوئی بھی نہیں ہے،

تاريخ دمشق: ج51 ، ص300

شرح نهج البلاغه: ج7، ص219

فتح الباری: ج10، ص590

تفسير قرطبی: ج 15، ص 162

بحار الانوار:ج40، ص150

مناقب آل ابی طالب: ج1، ص312.

امیر المومنین علی (ع) نے ابوبکر سے فرمایا : اگر کوئی مال کسی مسلمان کے پاس ہو اور میں یہ دعوی کروں کہ یہ مال میرا ہے ،اس وقت تم کیا مجھ سے گواہی طلب کرو گے یا اس شخص سے جس کے پاس وہ مال ہے ؟ عرض ہوا : میں آپ سے گواہ طلب کروں گا، فرمایا: ابھی فدک تین سال سے فاطمہ کے اختیار میں ہے اور حضرت زہرا کے کچھ افراد وہاں پر کام کر رہے ہیں تو ابھی جو شخص یہ کہتا ہے یہ ان کا نہیں ہے اسے گواہ لانا چاہیے ، یہاں پر ابوبکر کچھ نہیں کہہ سکا، البتہ آخر میں ثابت ہو گیا کہ فدک حضرت زہرا کا ہے اور ابوبکر نے اسے لکھ کر بھی دیا تھا، لیکن عمر نے اسے چھین کر پھاڑ ڈالا تھا۔

آئمہ طاہرین (ع) سے روایات میں نقل ہوا ہے کہ:

«إنّ فاطمةَ صديقةٌ شهيدةٌ و أنّ بنات الأنبياء لا يطْمِثْنَ»

الکافی: ج1، ص458.

کہ آئمہ طاہرین نے بھی کلمہ صدیقہ پر ایک خاص توجہ فرمائی تھی اور کلمہ شہیدہ پر بھی ، اسی طرح حضرت زہرا کی عظمت اور شان کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے بھی بہت سے مطالب نقل ہوئے ہیں کہ اہل سنت اور ہماری کتابیں ان مطالب سے پر ہیں۔

عایشہ کہتی ہے کہ :

أنّ فاطمةَ كانَتْ إذا دخلتْ علي رسول الله قام لها من مجلسه و قبّل رأسها و أجلسها مجلسه، و إذا جاء إليها لَقَيتَه و قَبَّلَ كُلَّ واحدٍ منهما صاحبه و جلساً معاً.

عایشہ کہتی ہے کہ : میں نے دیکھا کہ جب فاطمہ آتی تھی تو پیغمبر اکرم آپ کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے «و قبّل رأسها و أجلسها مجلسه» انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے ،انہوں نے دیکھا تھا کہ پیغمبر اکرم ان سے کیسے پیش آتے تھے۔

بحار الأنوار: ج43، ص 40.

بعض روایات میں ہے کہ:

خرج النبی و هو آخذٌ بيد فاطمة فقال : مَن عرف هذه فقد عرفها، و مَن لَم يعرفها فهى فاطمة بنت محمد، و هـى بضعة منـّى و هـى قلبـى و روحى التـى بين جنبـى ، فمن آذاها فقد آذانـى ، و من آذانـى فقد آذی الله.

صحيح بخاری، ج 4، ص 219

بحار الأنوار: ج43، ص 54

ایک دن پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت زہرا (س) کے ہاتھوں کو پکڑا اور گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:

مَن عرف هذه فقد عرفها، و مَن لَم يعرفها فهى فاطمة بنت محمد”

فرمایا: جو بھی فاطمہ س کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہی ہے لیکن جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ یہ فاطمہ میری بیٹی ہے ‘ ‘

و ھی بضعة منی ‘ ‘ اور وہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے،

و هی قلبی و روحی التی بين جنبی، میرا قلب ہے ، میری جان ہے، فمن آذاها فقد آذانـى ، و من آذانـى فقد آذی الله» جس نے بھی اسے اذیت کی اس نے مجھے اذیت کی ہے اور جو بھی مجھے اذیت کرے گا، اس نے خداوند کو اذیت کی ہے،

کیوں پیغمبر اکرم ان مطالب کو بیان کرنے میں اتنا اصرار کر رہے تھے؟

بعض روایات میں ہے کہ بعض مواقع پر آنحضرت (ص) جب حضرت فاطمہ (س) کو دیکھتے تو ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے، عرض ہوا :یا رسول اللہ یہ کیا وجہ ہے کہ جب آپ فاطمہ کو دیکھتے ہیں، تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ؟ فرماتے تھے کہ: ان مظالم کی یاد میں جو میرے بعد میری بیٹی پر ڈھائے جائیں گے ، اس حق کی یاد میں آنسو جاری ہوتے ہیں کہ جو میرے بعد غصب ہو گا ،اس حملے کی یاد میں جو میرے بعد اس کے گھر کی پر کیا جائے گا ، ان سب کو پہلے فرما چکے تھے ، اسی لیے مکررا فرمایا کرتے تھے : ‘ ‘من آذاھا فقد آذانی ‘ ‘ لیکن لوگوں نے اسے کیسے بھلا دیا اور آخر کار کہاں پر جا کر یہ سلسلہ ختم ہوا ؟ اہل سنت کی کتابیں جیسے الامامة و الخلافة میں یہ نقل موجود ہے کہ:

أرسل أبابكر عمراً و قنفذاً و جماعةً إلي دار على و فاطمة و جمع عمر الحطب علي دار فاطمة و أحرق بابها و لمّا جاءت فاطمة خلف الباب لِتَرُدَّ عمر و أصحابه، عَصَرَ عمر فاطمة خلف الباب حتی أسقطت جنينها و نبت مسمار الباب فی صدرها و سقطت مريضةً حتی ماتت.

ابوبکر نے عمر ، قنفذ اور بعض دوسروں کو حضرت علی کے گھر کی طرف بھیجا ،اس گھر کی طرف جہاں ہر روز پیغمبر اکرم اس کے اہل خانہ کو سلام کیا کرتے تھے، پیغمبر اکرم کا سلام ، خدا کا سلام ہے، وہ اہل خانہ جسے خدا سلام کرتا تھا ان کے گھر پر حملہ کیا گیا، جن لوگوں نے پیغمبر اکرم کی خلافت کو غصب کیا تھا خود انہوں نے یہ سنا ہوا تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) بار بار یہ فرمایا کرتے تھے کہ : جس نے فاطمہ میری بیٹی پر دورد بھیجا ،خداوند بہشت میں اسے میرے ساتھ جگہ دے گا ، لوگ پیغمبر اکرم کی زحمتوں کے اجر میں فاطمہ پر دورد بھیجتے تھے ،لیکن انسان جب تاریخ کے اس حصہ پر پہنچتا ہے تو سزاوار ہے کہ گھنٹوں اس پر گریہ کرے ، پیغمبر اکرم کا بیت منور ، حضرت فاطمہ کا بیت، اہل بیت کا گھر ، لوگ ان گھروں کے بارے میں کتنی یادیں رکھتے تھے ، لیکن ابوبکر، عمر ،قنفذ اور بعض دوسرے لوگ حضرت علی کے گھر پر حملہ کرنے کے لیے آ گئے «إلی دار علی و فاطمة و جمع عمر الحطب علی دار فاطمة» عمر نے حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازہ پر لکڑیاں جمع کیں ‘ ‘و اخرق بابہا ‘ ‘ گھر کے دروازے پر آگ لگا دی «و لمّا جاءت فاطمة خلف الباب» جب حضرت فاطمہ نے دیکھا کہ گھر کے دروازہ پر آگ لگا دی گئی ہے تو آپ دروازے کے نزدیک تشریف لائی«لِتَرُدَّ عمر و اصحابه، عَصَرَ عمر فاطمة خلف الباب» عمر کو معلوم ہوا کہ آپ دروازے کے پیچھے ہیں تو اسی وقت اس نے دروازے کو زور سے دبایا، «حتی أسقطت جنينها و نبت مسمار الباب فی صدرها و سقطت مريضةً حتی ماتت» اس وجہ سے آپ کا جنین سقط ہوا اور دروازے کا کیل آپ کے سینے میں پیوست ہو گئے، اسی وجہ سے آپ مریض ہوئی اور اسی بیماری کی وجہ سے دنیا سے چلی گئیں۔

الخلافة و الإمامة: ص 160.

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت کے بعض نمایاں پہلو:

حضرت فاطمہ زہرا (س)، پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت خدیجة الکبری (س) کی بیٹی ہیں اور زہراء ، صدیقہ، طاہرہ، مبارکہ، زکیہ، راضیہ، محدثہ اور بتول آپ کے القاب ہیں۔

حضرت زہرا (س) کی پرورش ، رسول خدا (ص) کی آغوش اور خانہ نبوت میں ہوئی ، یہ وہ گھرانہ ہے جس میں وحی اور آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں۔

جس وقت مکہ میں مسلمانوں کا سب سے پہلا گروہ خدائے وحدہ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان لایا اور اپنے ایمان پر باقی رہا ، اس سال پور ے عرب اور پوری دنیا میں یہ تنہا ایسا گھر تھا جس سے ” اللہ اکبر” کی آواز بلند ہوئی ۔ اور حضرت زہرا (س) مکہ کی سب سے کمسن بچی تھیں جو اپنے اطراف میں ایسے جوش و خروش دیکھ رہی تھیں، آپ اپنے گھر میں اکیلی تھیں، اور بچپنے کی زندگی کو تنہائی میں گذار رہی تھیں ۔

شاید اس تنہائی کا راز یہ تھا کہ آپ بچپنے ہی سے اپنی ساری توجہ کو جسمانی ریاضت اور روحانی تربیت کی طرف مجذوب کر دیں۔ حضرت زہرا (س)، حضرت امیر المومنین علی (ع) سے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم (ص) کی دختر گرامی جس طرح ازدواج کے مراحل میں سب کے لیے عملی نمونہ اور اسوہ عمل تھیں اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی عملی نمونہ تھیں۔

جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ہو جاتی تھیں، نماز پڑھتیں، دعا کرتیں، خداکی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتیں اور دوسروں کے لیے دعائیں کرتی تھیں،

امام صادق (ع) اپنے جد امجد حضرت امام حسن بن علی (ع) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن (ع) نے فرمایا: میری والدہ گرامی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں اور جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتیں تو با ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے دعا فرماتیں، لیکن اپنے لیے کچھ نہیں کہتی تھیں، ایک روز میں نے سوال کیا: اماں جان ! آپ دوسروں کی طرح اپنے لیے کیوں دعائے خیر نہیں کرتیں؟ آپ نے کہا: میرے بیٹے ! پڑوسیوں کا حق پہلے ہے ۔ وہ تسبیح جو حضرت فاطمہ (ع) کے نام سے مشہور ہے ، شیعہ اور اہل سنت کی مشہور ، معتبر کتابوں اور دوسری اسناد میں موجود ہے اور سب کے نزدیک مشہور ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا علم:

حضرت فاطمہ (س) نے شروع ہی سے وحی الہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا تھا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم (ص) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لیے بیان فرماتے تھے حضرت علی (ع) ان کو تحریر فرماتے اور حضرت فاطمہ (س) ان کو جمع فرماتیں جو مصحف فاطمہ کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ہو گئی تھی اور یہ کتاب ہر ایک امام کے پاس رہی اور اب اسوقت امام زمان (عج) کے پاس ہے۔

امام باقر (ع) نے فرمایا : ایک دن حضرت علی (ع) آپ کی خدمت میں تشریف لائے اس حالت میں کہ آپ بہت زیادہ غم و اندوہ میں تھے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے غمگین و مغموم ہونے کا سبب دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا آج رسول اکرم نے مجھ سے ایسا سوال کیا ہے کہ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے رسول خدا کے اس سوال کے متعلق معلوم کیا . امیر المومنین نے فرمایا : پیغمبر نے مجھ سے پوچھا عورت کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے کہا یعنی چھپائی جانے والی چیزیں ۔ پھر پوچھا : وہ کون سا موقع ہے جب ایک عورت اپنے پروردگار سے زیادہ قریب ہوتی ہے میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا پیغمبر خدا کے پاس جائیے اور کہیے کہ ایک عورت اپنے پروردگار سے اس وقت زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں رہتی ہے ۔ حضرت علی محضر پیغمبر اکرم میں شرفیاب ہوئے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے جواب کو بیان فرمایا۔ آنحضرت نے پوچھا اے علی ! تم کو یہ جواب کس نے بتایا ہے ؟ حضرت علی نے جو کچھ بھی ان کے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے درمیان گفتگو ہوئی تھی بیان فرمایا۔ رسول اکرم نے حضرت علی کی بات کو سننے کے بعد فرمایا : بالکل صحیح جواب ہے اور واقعی طور پر فاطمہ زہرا (س) میرا ٹکڑا ہے.

ابن مغازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص303، حدیث430، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، حدیث 416.

صدر اسلام کے سماجی و معاشرتی حالات اور اس سے مربوط آیات پر توجہ کرتے ہوئے یہ نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س ) کے اس کلام ‘ ‘ عورت کا اپنے گھر میں رہنا ‘ ‘ سے مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کو اپنے آپ کو دکھاؤے اور نامحرم سے جلوہ نمائی سے پرہیز کرنا چاہیے، یعنی بغیر کسی ضروری کام کے اپنے گھر سے قدم باہر نہ نکالے اگر کسی کے سامنے آئے تھی تو اسے جلوہ نمائی اور غیر اخلاقی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

دوسروں کو تعلیم دینا:

حضرت فاطمہ (س) احکام اوراسلامی تعلیمات کے ذریعہ عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتی تھیں ۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ بیس سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رہی اور جب بھی وہ کوئی بات کہنا چاہتی تو قرآن کی آیت کے ذریعہ اپنی بات کو بیان کرتیں۔

حضرت فاطمہ (س) نہ یہ کہ صرف علم حاصل کرنے سے تھکتی تھیں، بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ ، ہمت اور پیہم کوشش کرتی رہتی تھیں، ایک روز ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری والدہ بہت بوڑھی ہیں اور ان سے نماز میں غلطی ہو گئی ہے انہوں نے مجھے بھیجا ہے تا کہ میں آپ سے مسئلہ معلوم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس کے سوال کا جواب دیدیا ، وہ خاتون دوسری اور تیسری مرتبہ پھر سوال کرنے آئی اور اپنا جواب سن کر چلی گئی اس نے تقریبا دس مرتبہ یہ کام انجام دیا اور ہر مرتبہ آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا،وہ خاتون بار بار کی رفت و آمد سے شرمندہ ہو گئی اور کہنے لگی: اب میں آپ کو زحمت نہیں دوں گی، حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: دوبارہ بھی آنا اور اپنے سوالوں کے جواب معلوم کرنا تم جس قدر بھی سوال کرو گی میں ناراض نہیں ہوں گی ، کیونکہ میں نے اپنے والد ماجد رسول خدا (ص) سے سنا ہے آپ نے فرمایا:قیامت کے روز علماء ہمارے بعد محشور ہوں گے اور ان کو ان کے علم کے مطابق قیمتی لباس عطا کیے جائیں گے اور ان کا یہ ثواب اس قدر ہو گا جس قدر انہوں نے بندگان الہی کی ہدایت و ارشاد میں کوشش اور محنت کی ہو گی ۔

عبادت حضرت فاطمہ زہرا (س):

حضرت زہرا (ع) رات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رہتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدر لمبی ہو جاتی تھی کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے تھے ۔ حسن بصری (متوفی 110 ہجری) کہتا ہے: اس امت کے درمیان کوئی بھی زہد و عبادت اور تقوی میں حضرت فاطمہ زہرا (س) سے زیادہ نہیں تھا ۔

آپ کا با برکت گلو بند:

ایک روز پیغمبرا کرم (ص) مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور اصحاب آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے تھے ، ایک بوڑھا شخص پھٹے پرانے لباس اور بری حالت میں مسجد میں داخل ہوا اس میں چلنے کی بھی ہمت نہیں تھی ، پیغمبر اکرم (ص) اس کے پاس گئے اور اس کی احوال پرسی کی ، اس شخص نے جواب دیا: یا رسول اللہ! میں ایک پریشان حال فقیر ہوں، بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے، برہنہ ہوں مجھے لباس دیجئے، لاچار ہوں میری مشکل کو حل کر دیجئے ، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے” لیکن خیر کی طرف راہنمائی کرنا خیر کرنے کی طرح ہے ” پھر آپ نے اس کی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر کی طرف راہنمائی فرمائی ۔

اس بوڑھے آدمی نے مسجد اور حضرت فاطمہ (س) کے گھر کا فاصلہ طے کیا اور اپنی حاجت کو آپ سے بیان کیا ۔ حضرت زہرا (س) نے فرمایا: ہمارے گھر میں بھی اس وقت کچھ نہیں ہے پھر آپ نے اپنا وہ گلوبند جو جناب حمزہ بن عبد المطلب کی بیٹی نے آپ کو ہدیہ کیا تھا اپنے گلے سے کھولا اور اس بوڑھے فقیر کو دیدیا اور فرمایا: اس کو بیچ دینا انشاء اللہ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی ، وہ بوڑھا فقیر مسجد میں آیا پیغمبر اکرم (ص) اسی طرح اصحاب کے درمیان مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) حضرت فاطمہ (س) نے یہ گلوبند مجھے عطا کیا ہے تا کہ میں اس کو بیچ کر اپنی حاجت کو پورا کروں ، پیغمبر اکرم (ص) نے گریہ فرمایا، عمار یاسر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس گلوبند کو خرید لوں؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو بھی اس کو خریدے گا خداوند عالم اس کو عذاب سے محفوظ رکھے گا.

عمار یاسر نے فقیر سے پوچھا : اس گلو کو کتنے میں فروخت کرو گے ؟ اس فقیر نے کہا: اس روٹی اور گوشت کے بدلے میں جس سے میرا پیٹ بھر جائے، اس لباس کے بدلے جس سے میرا جسم ڈھک جائے اور ایک دینار کے بدلے میں جس سے میں گھر تک پہنچ جاؤں ، عمار نے کہا: میں اس ہار کو سونے کے بیس دینار، کھانا، لباس اور ایک سواری کے بدلے میں تجھ سے خریدتا ہوں، عمار اس فقیر کو اپنے گھر لے گئے اس کو سیراب کیا، لباس پہنایا، سواری دی اور سونے کے بیس دینار دئیے، پھر اس ہار پر خوشبو لگا کر اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اپنے غلام سے کہا: اس کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لے جاؤ، میں نے تمہیں بھی انہی کو بخش دیا۔

پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اس غلام اور گلوبند کو حضرت فاطمہ زہرا (س) کو بخش دیا، غلام حضرت فاطمہ کے نزدیک آیا ، آپ نے اس سے گلوبند کو لے لیا اور غلام سے فرمایا: میں نے تجھے خدا کی راہ میں آزاد کر دیا جاؤ تم اب اللہ کی راہ میں آزاد ہو، غلام ہنسا، حضرت فاطمہ (س) نے اس سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا ، اس نے جواب دیا: یا بنت رسول اللہ (ص) ! اس گلوبند کی برکت پر مجھے ہنسی آ گئی کہ اس ہار نے ایک بھوکے کو کھانا کھلایا، ایک برہنہ کو کپڑے پہنائے، فقیر کو غنی کیا ، پیدل چلنے والے کو سواری عطا کی، غلام کو آزاد کیا اور آخر کار پھر اپنے مالک کے پاس واپس آ گیا۔

اسلام کی پہلی جنگوں میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کا عملی کردار:

پیغمبر اکرم (ص) کی دس سالہ حکومت میں 27 یا 28 غزوہ اور 35 سے90 تک سریہ تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں۔

غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (ص) نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ہو اور مستقیم لشکر کی کمان سنبھالی اور جنگ میں ہر وقت سپاہیوں کے شانہ بشانہ حاضر و ناظر تھے ۔

سریہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (ص) نے شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی اور کو اپنی جگہ سپہ سالار بنا کر بھیجا بعض مرتبہ یہ جنگیں دو یا تین ماہ تک جاری رہتی تھیں، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت علی (ع) نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے ساتھ مشترکہ زندگی کو اکثر و بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ کی غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ (س) گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت میں مشغول رہتیں، اور آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ کے مرد مجاہد شوہر نامدار اچھی طرح سے جہاد کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصے میں شہیدوں کی عورتوں اور بچوں کی مدد فرماتیں، اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں کی تشویق کیلئے اور ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کیلئے اپنے محرم افراد کے زخموں کا مداوا کرتیں، جنگ احد میں حضرت فاطمہ (س) عورتوں کے ساتھ احد کے میدان میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم (ص) بہت زیادہ زخمی ہو گئے تھے اور حضرت علی (ع) کے جسم اقدس پر بھی بہت زیادہ زخم لگے تھے ۔ حضرت فاطمہ (س) پیغمبر اکرم (ص) کے چہرہ سے خون صاف کرتی تھیں اور حضرت علی (ع) اپنی سپر سے پانی ڈالتے تھے ۔

جب حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے دیکھا کہ خون بند نہیں ہو رہا ہے تو آپ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ کو زخم پر لگایا جس سے خون بند ہو گیا ، جنگ احد میں پیغمبر اکرم (ص) کے چچا حضرت حمزہ سید الشہداء کی شہادت ہوئی ۔ جنگ کے بعد حضرت حمزہ کی بہن "صفیہ”، حضرت فاطمہ (س) کے ساتھ آپ کے مُثلہ شدہ لاشے پر پہنچی اور رونا شروع کیا، حضرت فاطمہ (س) بھی گریہ فرما رہی تھیں اور پیغمبر اکرم (ص) بھی آپ کے ساتھ گریہ فرما رہے تھے اور حضرت حمزہ سے خطاب کر کے فرماتے تھے:

تمہاری مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھ پر نہیں پڑی ، پھر صفیہ اور حضرت فاطمہ (س) کو خطاب کر کے فرمایا: مبارک ہو ابھی جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ ساتوں آسمانوں پر حمزہ شیر خدا اور شیر رسول خدا موجود ہے ، جنگ احد کے بعد جب تک حضرت فاطمہ (س) زندہ رہیں، ہر تیسرے دن ایک مرتبہ احد کے شہداء کی زیارت کے لیے جاتی تھیں، جنگ خندق میں حضرت فاطمہ (س) ایک روٹی لے کر رسول خدا (ص) کی خدمت میں آئیں، پیغمبر اکرم نے سوال کیا: یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: میں نے روٹی پکائی تھی میرا دل چاہا کہ یہ روٹی آپ کے لیے لیکر آؤں۔

پیغمبرا کرم (ص) نے فرمایا یہ پہلی روٹی ہے جو میں تین دن کے بعد کھا رہا ہوں، جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کی شہادت ہوئی، پیغمبر اکرم ان کے گھر گئے اور ان کے بیوی بچوں کو دلاسہ دیا اور وہاں سے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر تشریف لائے حضرت فاطمہ(س) گریہ فرما رہی تھیں، پیغمبر اکرم نے فرمایا: جعفر جیسے اشخاص پر رونے والوں کو رونا چاہیے، اس کے بعد رسول خدا (ص) نے فرمایا: جعفر کے بچوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ آج وہ اپنے آپ کو بھول گئے ہیں، حضرت فاطمہ (س) فتح مکہ میں بھی موجود تھیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (س ) آئمہ معصومین (ع) کی نظر میں:

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کو پہچاننا اور ان کی شخصیت کا عرفان حاصل کرنا خصوصاً شیعہ خواتین کے لیے ، بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے دینی تعلیمات کو بہتر درک کرنے ، تاریخ اسلام کے نشیب و فراز کو پہچاننے اور اسلام کی تمام تر خوبیوں کو حاصل کرنے کی راہ میں بہت لازم اور ضروری ہے ۔ آج تک دنیا کے مفکرین خصوصاً مسلمان مفکرین نے یہ کوشش کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں تا کہ مسلمان انکے مناقب و مراتب سے آشنا ہو سکیں لیکن ان کی یہ تمام کوششیں معصومین کے نورانی و وحیانی بیانات و کلام کے بغیر نا ممکن اور نا مکمل سی ہیں، کیونکہ معصومین کی احادیث و اقوال زرّین سے چشم پوشی کرتے ہوئے کوئی بھی مسلمان مفکر یا مورخ حضرت فاطمہ زہرا کی بلند پایہ شخصیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اسی لیے ان کی ساری کوششیں ناکام اور بے فائدہ ہیں۔

1۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کے کلام کی روشنی میں:

ایک باپ سے زیادہ اپنے فرزند اور اولاد کی تعریف کون بیان کر سکتا ہے ؟ وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ دوسروں کے سامنے اپنے فرزند کو پہچنوا سکے ۔ ایک ایسا باپ جو خود اپنی زندگی میں بے نظیر ہے ۔ جس کا قول و عمل اور کردار صداقت کی معراج پر ہے کبھی بے کار باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ وہ کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہ ، علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو اولین و آخرین کے سر چشمہ علوم یعنی خدائے وحدہ لا شریک سے ہمیشہ رابطہ میں ہے ۔ کتنا اچھا ہو گا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی تعریف و توصیف اور منزلت کو اس عظیم المرتبت باپ کی زبانی ذکر کریں جو خود خداوند عالم کے نزدیک کائنات میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں:

حضرت فاطمہ زہرا (س) تمام عورتوں کی سردار:

پیغمبر اسلام یعنی امت اسلامی کے رہبر و پیشوا آپ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ:

فاطمہ زہرا اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں.

حسینی فیروز آبادی، سید مرتضٰی؛ فضائل الخمسة، ج3، ص137، طبع الثالثہ، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات،

در حقیقت حضرت زہرا پیغمبر اکرم کے اس فرمان کی روشنی میں مسلمان خواتین کی سردار ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) انسان کامل:

رسول خدا سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا : مردوں میں بہت نے کمال کی بلندی کو حاصل کیا لیکن صنف نسواں میں چار عورتوں کے علاوہ کسی نے بھی انسان کامل کے مقام کو حاصل نہیں کیا۔

ان چار خواتین میں ایک آسیہ بنت مزاحم ہمسر فرعون ، دوسری حضرت مریم بنت عمران، تیسری خدیجہ بنت خویلد اور چوتھی حضرت فاطمہ زہرا بنت محمد ہیں.

ثعلبی، احمد، الکشف و البیان، (تفسیر ثعلبی)، تحقیق ابو محمد بن عاشور، ج9، ص353، بیروت دار احیاء التراث العربی،

دوسرے لفظوں میں پیغمبر اسلام ان چاروں کو تمام عورتوں کے لیے زندگی کے ہر مرحلہ میں ، روز اول سے آنے والی تمام خواتین کے لیے نمونہ عمل کی صورت میں پہچنوا رہے ہیں تا کہ عورتیں اپنی زندگی کے تمام امور میں ان کی پیروی کر کے کمال کی بلندیوں کو حاصل کر سکیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) انسانی شکل میں آسمانی حور ہیں:

پیغمبر اکرم ہر انسان سے بہتر زمین و آسمان کی حقیقتوں سے آگاہ ہیں ۔ اسماء بنت عمیس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:

اے اسماء صحیح معنوں میں فاطمہ زہرا وہ حور جنت ہیں جسے خداوند نے انسان کی شکل میں خلق کیا ہے ۔

ابن معازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص2961، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضواء، حدیث 416.

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص148، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

ایک دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں کہ:

فاطمہ زہرا وہ حور بہشت ہیں جو انسانوں کی شکل میں اس دنیا میں موجود ہیں.

قندوزی حنفی، شیخ سلیمان؛ ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلمی، ج2، ص218، بیروت: مووسة الاعلمی للمطبوعات،

پیغمبر اسلام کی یہ تعبیر ان تعبیروں میں سے ایک بہترین تعبیر ہے جو شخصیت حضرت فاطمہ زہرا کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے ان کی عصمت و طہارت اور ہر طرح کے عصیان و خطاء سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے کیونکہ حور کا تقاضا ہے کہ وہ جسم و روح کی خوبصورتی اور صداقت و خوشروئی وغیرہ سے مزین ہو ۔ دوسری جہت سے عصمت کی سند بھی ہے یعنی گناہوں سے دوری ۔ کیوں کہ حور بہشت کی مخلوق ہے جہاں گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) بہشت کی خوشبوؤں سے معطر ہیں:

خاتم الانبیاء (ص) فرماتے ہیں کہ:

جب بھی میں بہشت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ زہرا کا بوسہ لے لیتا ہوں.

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص148، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

آنحضرت نے یہ حدیث ارشاد فرمانے کے بعد جب بھی جنت کی خوشبو کی آرزو کی تو حضرت فاطمہ زہرا کا بوسہ لیا.

امینی نجفی، عبد الحسین احمد، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب؛ تحقیق: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، ج3، ص33، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة،

حضرت فاطمہ زہرا (س) کمال حسن و نیکی:

پیغمبر خدا حضرت فاطمہ زہرا کی شخصیت کو پہچنواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

اگر تمام طرح کی نیکیوں اور حسن و جمال کو کسی ایک پیکر میں دیکھا جائے تو یقینا وہ صرف حضرت فاطمہ زہرا کا وجود مطہر ہے جس میں دونوں چیزیں بطور کامل موجود ہیں۔ میری بیٹی فاطمہ زہرا لوگوں میں کرامت و شرافت کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے.

ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص100، قم: انوار الھدیٰ،

جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص68، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر،

پیغمبر خدا کی یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا کے بے شمار کمالات کو بیان کر رہی ہے ۔ یعنی حضرت فاطمہ زہرا میں ہر طرح کی نیکی و خوبی ،اخلاق و تواضع ، خوش خلقی و ہمدردی اور کمالات انسانی کے تمام مدارج پائے جاتے ہیں ۔ ہر وہ چیز جو دین اسلام کے کمال کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، آپ میں موجود ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) ہدایت کا چمکتا ہوا ستارہ:

رسول اسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ:

سورج کے سراغ میں رہو، جب سورج غروب ہو جائے تو شب میں چاند کے سراغ میں رہو ، جب چاند ڈوب جائے تو زہرہ ستارہ کے سراغ میں رہو ، اور جب زہرہ بھی دکھائی نہ دے (چھپ جائے ) تو فرقدین کے سراغ میں رہو۔ اصحاب نے پوچھا : اللہ کے رسول : سورج سے مراد کون ہے ؟ فرمایا: میں ۔ انہوں نے کہا : چاند سے مراد ؟ فرمایا : علی ، عرض کیا : زہرہ سے مراد کون ہے ؟ فرمایا : حضرت فاطمہ زہرا ۔ پھر پوچھا : فرقدین سے مراد کون ہے ؟ فرمایا حسن و حسین.

جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص17،حدیث 361، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر،

حسکانی، حاکم؛ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج1، ص59، حدیث91، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٩١٣ق.

حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کی پارہ تن:

اس سلسلے میں رسول خدا سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جو اس مضمون کو بیان کرتی ہیں کہ:

حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کے جسم کا ایک ٹکرا ہیں جس نے بھی فاطمہ زہرا (س) کو اذیت پہنچائی اس نے رسول کو اذیت پہنچائی ہے اور جس نے فاطمہ زہرا (س) کو خوشحال کیا تو اس نے رسول خدا کو خوش حال کیا.

مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، ص993، حدیث 2449

بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ص684، حدیث 3767، گردآوری: محمد محمود، طبع الثانیہ، بیروت: دار الکتب العلمیة،

ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، سنن الترمذی؛ ص1006، حدیث 3876، بیروت: دار احیاء التراث العربی،

سیوطی، جلال الدین، الثغور الباسمة فی فضائل السیدة فاطمة، ص45، تحقیق: محمد سعید الطریحی، بیروت: دار العلوم،

ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج8، ص265، بیروت: دار الکتب العلمیة،

یہ تمام حدیثیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ رسول خدا کو کس حد تک حضرت فاطمہ زہرا (س) سے قلبی و عاطفی لگاؤ تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) خداوند کی وہ فرمانبردار کنیز ہیں جو خدا و رسول کی اطاعت گزاری میں اس قدر مستحکم و خالص ہیں کہ ایک قدم بھی حق کے راستے سے دور نہیں ہیں ۔ اطاعت و پیروی کے اس درجے پر فائز ہے کہ ان کی خوشنودی و رضا ، رسول کی رضا ہے اور ان کا غضب رسول کا غضب ہے ۔اسی وجہ سے رسول اللہ نے فاطمہ زہرا (س) کو پارہ تن سے تعبیر کیا ہے یعنی فاطمہ زہرا (س) رسول کے جسم کا ایک ٹکڑا ہیں ۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی اذیت کو اپنی اذیت اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی بتا کر مسلمانوں کو پہچنوانا چاہتے ہیں تا کہ لوگ ان کی عظمت و منزلت سے آگاہ ہو جائیں، لیکن افسوس!!!!

حضرت فاطمہ زہرا (س ) قلب رسول کی خوشحالی کا سبب:

پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:

فاطمہ زہرا (س) میرے قلب کی فرحت و خوشی ہے اس کے فرزند میوہ قلب ، شوہر میری آنکھوں کا نور اور آئمہ طاھرین خدا کے امین ہیں، یہ خالق و مخلوق کے درمیان وہ واسطہ ہیں کہ جو انسان کو خدا سے جوڑتا ہے ۔ جو بھی ان سے متمسک رہے گا نجات پائے گا ۔ اور جو بھی ان سے دوری اختیار کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا.

ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص99، حدیث21، قم: انوار الھدیٰ،

فرمان رسول کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (س) کا پورا وجود رسول اسلام کی خوشحالی کا سبب ہے .( البتہ یہ حدیث ایک جہت سے حدیث ثقلین کی تفسیر بھی بیان کر رہی ہے جو اہل علم و عمل کے لئے قابل فکر ہے ۔)

حضرت زہرا (س) سے دوستی و دشمنی، رسول خدا (ص) سے دوستی و دشمنی ہے:

رسول اکرم نے متعدد مقامات پر حضرت فاطمہ زہرا (س) کے حقیقی مقام و منزلت کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ان کے شوہر حضرت علی اور آپ کے فرزند امام حسن و امام حسین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

جو شخص بھی تم سے دشمنی رکھتا ہے میں بھی اس سے دشمنی رکھتا ہوں اور جو بھی تم لوگوں سے محبت و دوستی رکھتا ہے میں بھی اس سے محبت و دوستی رکھتا ہوں.

ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، سنن الترمذی؛ ص1007، حدیث 3879، بیروت: دار احیاء التراث العربی،

ابن احمد مکی موفق، مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص101، حدیث26، قم: انوار الھدیٰ،

ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج8، ص266، بیروت: دار الکتب العلمیة،

ابن اثیر جزری، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج6، ص228، بیروت: دار الفکر،

لہذا حضرت فاطمہ زہرا (س ) ، حضرت علی اور اماموں سے دوستی، پیغمبر خدا سے دوستی ہے اور ان سے دشمنی ، پیغمبر خدا سے دشمنی کے مترادف ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) ایک بے نظیر انسان:

حضرت فاطمہ زہرا (س ) کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اس کائنات میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی جیسا کہ خود پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ:

اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا (س) کا کوئی کفو نہیں تھا ۔

ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص107، حدیث38، قم: انوار الھدیٰ،

جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص68، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر،

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ناراضگی خداوند کی ناراضگی:

رسول اکرم (ص) نے متعدد مرتبہ فرمایا ہے کہ :

خدا بھی اس وقت ناراض ہوتا ہے جب فاطمہ زہرا (س) ناراض ہوتی ہیں اور راضی ہوتا ہے، جب فاطمہ زہرا (س) راضی ہوتی ہیں.

جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص46، حدیث378، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر،

حاکم نیشاپوری، المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج3، ص153، بیروت: دار المعرفة،

اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2، ص93، بیروت: دار الکتاب الاسلامی،

ایک دوسری حدیث میں امیر المومنین علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا نے فاطمہ زہرا (س) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

خداوند تمہارے غضب کے سبب غضب میں آتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے.

ابن معازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص285، حدیث401، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، حدیث 416.

حاکم نیشاپوری، المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج10، ص116، بیروت: دار المعرفة،

قندوزی، حنفی، شیخ سلیمان؛ ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلمی، ج1، ص204، بیروت: مووسة الاعلمی للمطبوعات،

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص146، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج8، ص266، بیروت: دار الکتب العلمیة،

ابن اثیر جزری، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج6، ص227، بیروت: دار الفکر،

ابن جوزی، سبط، تذکرة الخواص، ص279، بیروت: موسسة اھل بیت،

یعنی حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خدا کی عبودیت و بندگی میں اس مقام کو حاصل کر لیا ہے کہ صرف خدا کے لیے غصہ و ناراض ہوتی ہیں اور صرف خدا کے لیے راضی و خوش ہوتی ہیں۔ ان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کی بنیاد پر ہے نہ کہ اپنے نفس کی پیروی کے سبب سے کسی پر غصہ یا خوش ہوتی ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کلام آئمہ (ع) کی روشنی میں:

چودہ سو سال گذر جانے کے بعد بھی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی اور پر فضیلت شخصیت آج تک تمام مسلمانوں کے توجہ کی حامل اور مرکز بنی ہوئی ہے ۔ شیعہ و سنی سبھی انہیں اچھے نام و القاب سے یاد کرتے ہیں اور انہیں خاندان وحی کا افتخار شمار کرتے ہیں۔

مسلمان عورتیں بالخصوص شیعہ خواتین ان کی پیروی کرتے ہوئے ان کی صفات کو اپنا کر اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی کو سنوار سکتی ہیں ۔ اہل قلم حضرات نے متعدد کتابیں ان کی شخصیت کے تعارف میں تحریر کی ہیں اور ابھی بھی تحریر کر رہے ہیں ، مقررین و خطباء حضرات نے بھی شہزادی کونین کے بارے میں بہت سی تقریریں خطاب کی ہیں۔ ان تمام اہل قلم و اہل زبان حضرات میں جنہوں نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی صفات بیان کی ہیں۔ آئمہ طاہرین کہیں زیادہ ان کی معرفت رکھتے ہیں، کیونکہ حضرات معصومین حضرت فاطمہ زہرا (س) کی نسل سے ہیں لہذا یہ ہر انسان سے بہتر ، شخصیت حضرت فاطمہ زہرا (س) کا تعارف کرا سکتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر معصومین کے ارشادات ہمارے پاس نہ ہوتے جو انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظمت و منزلت اور شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے بیان کیے ہیں تو بہت مشکل تھا کہ ہم ان کی تھوڑی سی بھی معرفت حاصل کر سکتے ۔ ذیل میں ہم حضرات معصومین (ع) کے چند نورانی کلام کو ذکر کر رہے ہیں :

معرفت رسول اور حضرت فاطمہ زہرا (س):

امام باقر (ع) نقل فرماتے ہیں کہ : حضرت علی (ع) کو مال غنیمت کا کچھ حصہ ملا تو آپ نے اسے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی خدمت میں پیش کیا حضرت فاطمہ زہرا (س) اسے لیکر بازار گئیں اور اس سے دو چاندی کے کڑے اور ایک پردہ خریدا۔ اسے لیکر گھر تشریف لے آئیں کڑوں کو ہاتھوں کی زینت بنایا اور پردہ کو گھر کے دروازے پر آویزان کر دیا ۔ رسول خدا اس واقعے سے پہلے ہی سفر پر روانہ ہو چکے تھے۔ سفر سے واپسی پر آپ مسجد میں تشریف لے آئے ہمیشہ کی طرح آج بھی سفر سے واپسی کے بعد خانہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کا قصد کیا ۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) بھی اپنے بابا کی آمد سے باخبر تھیں لہذا مسرت و خوشی کی انتہا نہ تھی اپنے بابا کے والہانہ استقبال کے لیے دوڑیں لیکن جب رسول اکرم کی نظر چاندی کے کڑوں اور پردے پر پڑی ( جو خانہ حضرت فاطمہ زہرا پر آویزاں تھا ) تو واپس پلٹ آئے ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی آنکھیں اشکبار و غمگین ہو گئیں آپ نے فرمایا میرے بابا نے آج تک میرے ساتھ ایسا نہیں کیا ۔ حسنین کو بلایا اور پردے کو نیچے اتارا، دونوں کڑوں اور پردہ کو امام حسن امام حسین کو دیکر فرمایا : اسے بابا کی خدمت میں لے جاؤ اور میرا سلام عرض کرنا.

امام حسن و امام حسین رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماں کے پیغام و امانت کو پیش کیا پیغمبر اسلام نے دونوں حضرات کو آغوش میں لیا، بوسہ لیا اور انہیں اپنے زانوؤں پر بٹھایا۔

پھر آپ نے فرمایا : دونوں کڑوں کو چھوٹے چھوٹے حصہ میں تقسیم کرو اور جب اس کے چھوٹے چھوٹے کئی حصے ہو گئے تو آپ نے اسے ان مسلمانوں کے درمیان ( جو کہ مہاجر تھے ) تقسیم کر دیا ۔ اور پردے کو فقراء میں ( جن کے پاس بدن چھپانے کے لیے کپڑے نہیں تھے) بانٹ دیا ۔ پھر فرمایا : خدا فاطمہ زہرا (س) پر اپنی رحمت نازل فرمائے اس پردے کے بدلے میں جنت کے لباس اور دونوں کڑوں کے عوض بہشت کی زینتوں کو عطا فرمائے.

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج18، ص64۔65، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

حضرت فاطمہ زہرا (س) بہترین حجاب کا عملی نمونہ:

امام سجاد (ع) فرماتے ہیں کہ: ایک نابینا شخص نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی آپ نے اپنے آپ کو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ کر لیا ۔ پیغمبر اسلام وہیں تشریف فرما تھے اور اس ماجرے کو دیکھ رہے تھے فرمایا : فاطمہ زہرا (س) تم نے کیوں اپنے آپ کو اس سے چھپا لیا ہے، جبکہ وہ تم کو نہیں دیکھ رہا ہے ؟ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ٹھیک ہے وہ مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن میں تو اسے دیکھ رہی ہوں اور میری خوشبو اس کے مشام تک پہنچ رہی ہے ۔ پیغمبر خدا نے آپ کی تعریف کی اور فرمایا گواہی دیتا ہوں کہ تم میرے وجود کا ایک ٹکڑا ہو۔

ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص457، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم،

امیر المومنین علی (ع) سے بھی اسی سیاق و مضمون کی خبر نقل ہوئی ہے.

ابن مغازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص303 ۔304، حدیث429 -416 ، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ،

ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین علی (ع) نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے سوال کیا کہ:

بہترین عورتیں کون ہیں ؟ حضرت فاطمہ زہرا (س ) نے جواب میں فرمایا : وہ عورتیں جو مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد بھی انہیں نہ دیکھیں.

ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص103، حدیث430، قم: انوار الھدیٰ،

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس نابینا سے ملاقات کے وقت دو نکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے :

پہلا: یہ کہ حجاب ، عفت و پاکدامنی اس چیز پر منحصر نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو نامحرم کی تیر مارتی ہوئی نگاہوں سے دور رکھیں بلکہ اپنی آنکھوں کو ایک نامحرم مرد پر پڑنے سے بچانا اور اپنی نگاہوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا بھی عفت و پاکدامنی کے مقدمات و لوازمات میں شامل ہے ۔

دوسرا: عطر یا لوازمات زینت کے سلسلے میں بیان کیا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے جو اپنی آنکھوں کو آلوگی اور نامحرم پر پڑنے سے بچائے ۔ اس طرح اپنے آپ کو ایک نامحرم کے سامنے خود نمائی و خود آرائی سے بھی محفوظ رکھے ۔

حضرت زہرا (س) سے پیغمبر اسلام (ص) کی محبت:

امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ : رسول خدا جب بھی کہیں سفر کا قصد کرتے تھے تو اپنے تمام اہل خاندان والوں کو وداع کہتے تھے اور سب سے ملنے کے بعد حضرت فاطمہ زہرا (س) سے خدا حافظی کرتے تھے۔ ہمیشہ پیغمبر کو خدا حافظ کہنے میں آخری فرد حضرت زہرا ہوتی تھیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے آنحضرت کے قدم مبارک خانہ حضرت زہرا (س ) پر پڑتے تھے.

مجلسی، محمر باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج18، ص64، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

پیغمبر خدا کا یہ عمل ایک طرف تو حضرت زہرا (س ) کی شان و عظمت کو اسلامی معاشرہ میں بیان کر رہا ہے تو دوسری طرف آپ سے بے لوث محبت و الفت پر بھی دلالت کر رہا ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کائنات میں سب سے زیادہ گریہ کرنے والوں میں سے ایک ہیں:

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے : پانچ لوگ ایسے ہیں جو بہت زیادہ گریہ کرتے تھے، حضرت آدم، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت فاطمہ زہرا (س) اور امام سجّاد (ع).

عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی؛ تحقیق: بنیاد بعثت، ج2، ص358، قم: بنیاد بعثت،

آپ نے اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے : جناب فاطمہ زہرا (س) رسول اکرم کی وفات کے بعد اتنا روئیں کہ مدینے کے رہنے والے پریشان ہو گئے، انھوں نے جناب فاطمہ زہرا (س) سے کہا: ‘ ‘ تم اپنے زیادہ رونے سے ہمیں پریشان کر رہی ہو اس کے بعد جناب فاطمہ شہداء کی قبر پر جاتیں اور وہاں بیٹھ کر گریہ فرمایا کرتی تھیں، اتنا روتی تھیں کہ ان کو سکون مل جاتا تھا ۔ اس کے بعد گھر لوٹ آتی تھیں.

اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج1، ص498، بیروت: دار الکتاب الاسلامی،

جناب فاطمہ کا یہ گریہ رسول اکرم کی وفات سے خود آپ کی شہادت تک برقرار رہا ۔ اس میں دو اہم پہلو تھے:

ایک تو سیاسی پیغامات اور اس کے علاوہ یہ گریہ اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ جناب فاطمہ زہرا (س) کو رسول اکرم سے بے حد محبت اور پیار تھا۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) ہر برائی سے دور:

امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ : فاطمہ زہرا (س ) کے بارگاہ الہی میں نو نام ہیں فاطمہ ، صدیقہ ، مباکہ ،طاہرہ ، زکیہ ، راضیہ ، محدثہ اور زہرا (س) پھر فرمایا : کیا تہیں معلوم ہے کہ فاطمہ کی تفسیر کیا ہے ؟ اصحاب نے کہا ہم نہیں جانتے ، آپ ارشاد فرمایئے ۔ امام نے فرمایا : ( اس کا مطلب ہے ) کہ جو ہر برائی سے دور ہو۔

شیخ صدوق، علل الشرایع، ج1، ص212، باب142، حدیث3، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

شیخ صدوق، الامالی، الخامسة، ص474، مجلس86، ج18١٨، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج18، ص13، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2، ص89، بیروت: دار الکتاب الاسلامی،

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص89 ۔10، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص445، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم،

اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا (س ) ہر برائی اور عیب سے دور ہیں اور انہوں نے ہمیشہ صرف اچھائیوں کو اپنایا لہذا خدا نے انہیں یہ نام عطا کیا تھا۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) آسمانوں میں رہنے والوں کے لیے ایک ستارہ:

امام صادق (ع) سے پوچھا گیا کس وجہ سے جناب فاطمہ زہرا (س) کا نام زہرا رکھا گیا ؟

آپ نے فرمایا : کیونکہ جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ان کا نور ساکنان عرش پر پڑتا تھا، جس طرح کہ ستاروں کی روشنی زمین والوں پر پڑتی ہے.

شیخ صدوق، معانی الاخبار، تصحیح: علی اکبر غفاری، ص64، باب28، حدیث15، قم: موسسہ نشر اسلامی،

شیخ صدوق، علل الشرایع، ج1، ص143 و 215، حدیث3، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص149، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج18، ص15، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

حضرت فاطمہ زہرا (س) عالمین کی عورتوں کی سردار:

مفضل بن عمر کہتے ہیں میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا : رسول اللہ نے جناب فاطمہ زہرا (س ) کی شان میں فرمایا ہے کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں . آپ وضاحت فرمائیے کہ کیا وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں ؟ امام نے فرمایا وہ مریم تھیں جو اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں، فاطمہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص149، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا ملائکہ سے گفتگو کرنا:

امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ : فاطمہ کو محدثہ کہا گیا کیونکہ فرشتے آسمان سے اترتے تھے اور ان سے گفتگو کیا کرتے تھے، جس طرح مریم بنت عمران سے گفتگو کرتے تھے وہ کہتے تھے اے فاطمہ زہرا (س ) ! خدا نے آپ کو چنا، پاک کیا اور دنیا کی تمام عورتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ اے فاطمہ زہرا (س) ! خدا کیلئے قنوت پڑھو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ فرشتے ان سے بات کرتے اور وہ بھی فرشتوں سے بات کرتی تھیں، ایک رات فاطمہ(س) نے ان سے کہا : کیا مریم کو تمام عورتوں پر فضیلت نہیں بخشی گئی تھی ؟ فرشتوں نے جواب دیا : مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور خدا نے آپ کو اول سے آخر تک تمام عورتوں کی سرداری پر مقرر فرمایا ہے .

محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص80، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص456، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم،

حضرت فاطمہ زہرا (س)کی دعاؤں میں انسان دوستی:

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں : میں نے اپنی مادر گرامی کو اس حال میں دیکھا کہ شب جمعہ محراب عبادت میں تھیں اور مستقل رکوع و سجود فرما رہی تھیں یہاں تک کہ سورج نکل آیا میں نے سنا کہ وہ مومن مردوں و عورتوں کا نام لے لے کر ان کے حق میں بہت سی دعائیں کر رہی تھیں لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہیں کی ۔ میں نے عرض کیا : اے مادر گرامی ! آپ نے دوسروں کے لیے دعائیں کیں لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہیں مانگی ؟! انہوں نے فرمایا : پیارے بیٹے : پہلے پڑوسی پھر گھر والے ۔

شیخ صدوق، علل الشرایع، ج1، ص215، حدیث1، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2، ص94، بیروت: دار الکتاب الاسلامی،

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص 152، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج18، ص63، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

فاطمہ زہرا (س) ایک بے مثال خاتون:

امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ: اگر امیر المؤمنین علی (ع) ان سے شادی نہیں کرتے تو قیامت تک زمین پر ان جیسا کوئی نہیں ملتا۔

شیخ صدوق، الامالی، الخامسة، ص474، مجلس86، حدیث18، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

شیخ صدوق، علل الشرایع، ج1، ص212، باب141، حدیث3، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2، ص89، بیروت: دار الکتاب الاسلامی،

طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص80۔ 79، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت،

ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص445، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم،

امام رضا (ع) فرماتے ہیں کہ :

فاطمہ اور علی (ع) کی شادی کے بعد خداوند عالم نے پیغمبر اسلام سے کہا : اگر علی کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو زمین پر تمہاری بیٹی کے برابر کوئی نہیں ہوتا ۔

عطاردی، شیخ عزیز اللّٰہ، مسند الامام الرضا، ج1، ص141، حدیث177، الثالثة، بیروت: دار الصفوة،

حضرت زہرا (س)، فرمانبردار بیوی کا ایک بہترین عملی نمونہ:

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں کہ : حضرت زہرا (س) نے حضرت علی سے عہد کیا کہ وہ گھر کے اندر کا سارا کام خود انجام دیں گی، اسی طرح حضرت علی (ع) نے بھی گھر کے باہر کے امور کی ذمہ داری اپنے ذمے لی۔

ایک دن حضرت علی (ع) نے حضرت زہرا (س ) سے پوچھا : کیا گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے ؟

آپ نے فرمایا : نہیں ! اس کی قسم جس نے آپ کے حق کو عظمت بخشی ،تین دن ہو گئے کہ اس گھر میں کچھ بھی کھانے کے لیے نہیں ہے تا کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں ۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا : آپ نے مجھے اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا !؟ آپ نے فرمایا : رسول خدا نے منع فرمایا تھا کہ میں آپ سے کچھ طلب کروں ۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ علی سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرنا ۔ اگر وہ خود تمہیں کچھ دیں تو قبول کر لینا ورنہ کسی چیز کی درخواست مت کرنا ۔

عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی؛ تحقیق: بنیاد بعثت، ج1، ص303۔ 304، حدیث42 ، قم: بنیاد بعثت،

اس روایت سے چند اہم نکات ازداوجی زندگی کے ابھر کر سامنے آتے ہیں :

1- وظائف و امور زندگی کی تقسیم بندی ۔ جو کہ آپ نے حضرت علی (ع) سے کی اور سارے گھر کی ذمہ داری خود قبول کر لی ۔

2- شوہر کے حقوق سے آشنائی اور اپنے وظیفہ کو اس کی نسبت انجام دینا جو کہ اس جملہ (قسم اس کی جس نے آپ کے حق کو عظمت بخشی) سے ظاہر ہے ۔

3- گھر کے معاشی امور میں اپنے شوہر کا ساتھ دینا (چاہے اس کے لیے مشکلات و پریشانیوں کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے )

حضرت زہرا (س) اور گھر کے کاموں میں زحمت اٹھانا:

ابن اعید کہتے ہیں : حضرت علی (ع) نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں اپنے اور فاطمہ زہرا (س) (دختر پیغمبر جو کہ گھر کی ایک اہم رکن تھیں، جنہوں نے گھر کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا ) کے متعلق کچھ بتاؤں ؟! پھر آپ فرماتے ہیں : حضرت فاطمہ زہرا (س) اتنی زیادہ چکیاں چلاتی تھیں کہ آپ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے ،اس قدر مشک میں پانی لایا کرتی تھیں کہ آپ کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے تھے ،اتنا زیادہ گھر میں جھاڑو دیا کرتی تھیں کہ آپ کے کپڑوں کا رنگ متغیر ہو گیا تھا اور اس قدر چولہے میں آگ جلاتی تھیں کہ اس (دھوئیں) کے سبب آپ بیمار ہو گئی تھیں ۔

شیخ صدوق، علل الشرایع، ج2، ص65، حدیث1، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

ابن جوزی، سبط، تذکرة الخواص، ص280، بیروت: موسسہ اھل بیت،

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج18، ص63، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

حضرت زہرا (س) صدیقۂ شہیدہ:

امام موسی کاظم (ع) فرماتے ہیں کہ : بیشک حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ اور شہیدہ ہیں ۔

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمد دریاب، ج5، ص315، حدیث2، بیروت: دار التعارف للمطبوعات،

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زہرا (س) شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئیں ۔ اس کے علاوہ لفظ صدیقہ آپ کی صداقت اور سچائی پر دلالت کرتا ہے کہ آپ قول و عمل ،اعتقاد و ایمان میں سب سے زیادہ صادق تھیں، اور جو جو بھی آپکے مقابلے پر تھا وہ جھوٹا اور باطل تھا۔

حضرت زہرا (س) خود اپنے کلام کی روشنی میں:

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کے متعلق زبان کھولنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن خود ان کے کلام کی روشنی میں آپ کی شخصیت و فضیلتوں کے مختلف زاویہ کو اجاگر کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی خدا کا ہم پر ایک لطف ہے کہ ہم خود ان کے کلام گہر بار کی روشنی میں بی بی دو عالم کے اوصاف کو پیش کر رہے ہیں:

آپ کو سلام کرنے کے عوض بہشت:

روای کہتا ہے : میں حضرت زہرا (س) کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور سلام عرض کیا ۔ آپ نے جواب میں فرمایا : میرے بابا نے اپنی زندگی میں مجھ سے فرمایا تھا کہ :

جو بھی تین دن تک مجھ پر اور تم (اہلبیت) پر سلام بھیجے اس پر جنت واجب ہے ۔روای کہتا ہے : میں نے حضرت زہرا سے عرض کیا کہ کیا یہ فضیلت صرف پیغمبر خدا اور آپ کی زندگی تک مخصوص ہے ؟ یا آپ اور آپ کے بابا کے بعد بھی یہ فضیلت باقی رہے گی ؟! آپ نے فرمایا : کوئی فرق نہیں ہے چاہے ہماری حیات میں کوئی ہم پر سلام بھیجے یا ہماری حیات کے بعد ۔

ابن مغازلی، شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص292، حدیث410، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضواء

حضرت زہرا (س) کی رضا میں خداوند کی رضا:

جس وقت حضرت علی (ع) حضرت زہرا سے عقد کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، پیغمبر نے حضرت زہرا سے کچھ مشورہ کیا اور فرمایا : میری بیٹی فاطمہ ! تمہارے چچا کے فرزند علی بن ابی طالب تم سے عقد کرنا چاہتے ہیں ۔تمہارا کیا جواب ہے؟

آپ نے فرمایا : میری خوشی ہر اس چیز میں ہے جس پر خدا اور اس کا رسول میرے حق میں راضی ہو ۔

مرعشی نجفی، سید شہاب الدین، ملحقات الاحقاق الحق، ج23، ص477، طبع2، قم: کتابخانہ آیة اللہ مرعشی نجفی،

حضرت زہرا (س) کی قناعت پسندی:

آپ نے اپنے شوہر نامدار حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ : میں اپنے متعلق پروردگار عالم سے شرم کرتی ہوں کہ کسی ایسی چیز کا آپ سے سوال کروں جسے آپ پورا نہ کر پائیں ۔

شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق و ازھاق الباطل، ج10، ص323، تہران: کتابفروشی اسلامیہ،

قندوزی حنفی، شیخ سلیمان، ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلیٰ، ج2، ص236، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

حضرت زہرا (س) کی نظر میں دنیا کی محبوب اشیاء:

حضرت زہرا نے فرمایا ہے کہ : تمہاری دنیا سے میں فقط تین چیزوں کو پسند کرتی ہوں : خدا کی راہ میں انفاق کرنا ، کتاب خدا کی تلاوت کرنا اور اپنے بابا رسول خدا کے چہرے کی طرف دیکھنا۔

شیخ الاسلامی، سید حسین، مسند فاطمہ الزہراء، ص161، حدیث93، قم: انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی،

حضرت زہرا (س) کا امتیاز رسول خدا (ص) سے خطاب کرنے میں :

حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں : جس وقت یہ آیۂ مبارکہ:

لا تجعلوا دعا الرّسول بینکم کدعا بعضکم بعضاً۔

رسول خدا کو جس طرح دوسروں کو خطاب کرتے ہو ، نہ پکارو۔

نازل ہوئی تو مجھے خوف ہوا کہ اس کے بعد اب رسول خدا کو لفظ پدر سے خطاب کروں ، جس طرح دوسرے افراد لفظ ،یا رسول اللہ سے خطاب کرتے ہیں میں بھی خطاب کروں ، پیغمبر نے مجھ سے اپنے چہرہ کو موڑ لیا اور فرمایا : بیٹی ! یہ آیہ مبارکہ تمہارے لیے اور تمہارے خاندان و نسل کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ، تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ، بلکہ یہ آیت ان جفا کار اور بدبخت اہل قریش کے لیے نازل ہوئی ہے جو خود خواہ و متکبر ہیں ۔ تم مجھے لفظ بابا سے ہی خطاب کیا کرو، کیونکہ یہ خطاب مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا بھی خوش ہوتا ہے۔

ابن مغازلی، شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص292۔ 293، حدیث411، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضواء،

ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص462، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم،

حضرت زہرا (س)! اہل بیت پیغمبر میں سے ایک:

حضرت فاطمہ زہرا (س) سے روایت ہے کہ : ایک دن میں رسول خدا کی احوال پرسی کے لیے ان کی خدمت میں شرفیاب ہوئی ، رسول خدا نے میرے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دی ، کچھ دیر کے بعد حسن تشریف لائے ، پیغمبر نے حسن کو اس چادر پر بٹھایا ، پھر حسین وارد ہوئے اور اسی چادر پر بیٹھ گئے، اس کے بعد علی تشریف لے آئے وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ، پھر رسول اکرم نے ایک دوسری چادر کو ہمارے سروں پر ڈال دیا اور فرمایا : خدایا ! یہ میرے اہل بیت ہیں اور میں بھی انہیں کا ایک حصہ ہوں ،بار الہا !جس طرح سے میں ان سے راضی ہوں آپ بھی ان سے راضی ہو جائیں۔

قندوزی حنفی، شیخ سلیمان، ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلیٰ، ج2، ص305، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات،

حضرت زہرا (س) شفیعہ روز قیامت:

حضرت زہرا (س ) پیغمبر اکرم کی گنہگار امت کی شفاعت کے سلسلے میں فرماتی ہیں : جس وقت میدان محشر میں میں آؤنگی تو اپنے بابا کی گنہگار امت کی شفاعت کرونگی ۔

شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق و ازھاق الباطل، ج10، ص367، تہران: کتابفروشی اسلامیہ،

حضرت زہرا (س) علمائے اہل سنت کی نظر میں:

جگر گوشہ رسول ، شہزادی دو عالم ، فخر نسواں ،سردار خواتین دو جہاں ،بنت سردار انبیاء بتول ،عذرا جناب فاطمہ زہرا (س) عظیم المرتبت بی بی کے بار ے میں جہاں علمائے تشیع نے اپنے اپنے قلم سے اپنی کتابوں میں قلم فرسائی کی ہے وہیں علمائے اہل سنت نے بھی حقیقت گوئی سے کام لیا ہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ افراد جو ‘صم بکم عمی ‘کے مصداق ہیں انہوں نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ خیر ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے اس لیے کہ سورج کے سامنے پردہ حائل کرنے سے اس کی روشنی نہیں چھپتی ۔

احمد ابن حنبل:

اہلِ سنت کے چار مشہور ترین اہلِ مذاہب میں سے ایک اور حدیث کے بہت بڑے امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کی تیسری جلد میں اپنی خاص اسناد کے ذریعے سے خادم رسول مالک بن انس سے روایت کی ہے:

رسول اسلام چھ ماہ تک ہر روز نماز صبح کے لیے جاتے ہوئے حضرت فاطمہ کے گھر کے پاس سے گزرتے اور فرماتے: نماز! نماز!اے اہلِ بیت! اس کے بعد آپ پھر اس آیت کی تلاوت فرماتے:

(اِنما یرِید اﷲ لِیذھِب عَنکم الرِجسَ اھل البیت و یطھرکم تطھِیرا)

(اے اہلبیت! اللہ کا تو بس یہی ارادہ ہے کہ تمھیں ہر ناپاکی سے دور رکھے اور تمھیں خوب پاک و پاکیزہ رکھے۔)

بخاری:

حدیث کے معروف امام ابو عبد اللہ محمد اسماعیل بخاری اپنی صحیح کے باب فضائل صحابہ میں اپنی اسناد سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ اسلام نے فرمایا: فاطمہ میرا پارۂ تن ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔

اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:

فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

صحیح بخاری میں ایک دوسری جگہ نقل کیا ہے کہ:

الفاطمة سیدة نساء اھلِ الجنة، فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

مسلم بن حجاج:

صحاح ستہ میں سے دوسری اہم کتاب صحیح مسلم سمجھی جاتی ہے۔ امام مسلم بن حجاج اپنی اس صحیح میں کہتے ہیں:

فاطمہ رسول کے جسم کا ٹکڑا ہے ،جو انھیں رنجیدہ کرتا ہے وہ رسول اللہ کو رنجیدہ کرتا ہے اور جو انھیں خوش کرتا ہے وہ رسول اللہ کو خوش کرتا ہے۔

ترمذی:

امام ترمذی کی سنن بھی صحاح ستہ میں شامل ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں کہ:

عائشہ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سے رسول اللہ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا ؟ اس نے جواب دیا: فاطمہ۔ پھر پوچھا گیا: مردوں میں سے؟ کہا کہ: ان کے شوہر علی۔

خطیب بغدادی:

احمد بن علی المعروف خطیب بغدادی پانچویں صدی کے مورخ اور محقق ہیں۔ تاریخ بغداد اور مدینۃالاسلام ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ اس میں وہ حسین بن معاذ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی اسناد کے ذریعے عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا: روز محشر برپا ہو گا کہ ایک آواز آئے گی: اے لوگو! اپنی نظریں نیچی کر لو تا کہ فاطمہ بنت محمد (ص) گزر جائیں۔

ایک اور روایت میں وہ نقل کرتے ہیں: ایک پکارنے والا روز محشر میں ندا دے گا: اپنی آنکھوں کو بند لو تا کہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں۔

علامہ قندوزی:

علامہ سلیمان قندوزی اپنی کتاب ینابیع المودة میں اپنی اسناد سے انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں: نماز فجر کے وقت ہر روز رسول اللہ حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے پر آتے اور گھر والوں کو نماز کے لیے پکارتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے تھے کہ:

(اِنمایریداللہ لِیذھِب عنکم الرجس اھل البیِتِ ویطھِر کم تطھِیرا)

اور یہ سلسلہ نو ماہ تک جاری رہا۔ (سطور بالا میں مذکور ایک روایت میں چھ ماہ آیا ہے)۔ علامہ قندوزی یہ روایت درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ خبر تین سو صحابہ سے روایت ہوئی ہے۔

ابو داود:

ابو داؤد سلیمان بن طیالسی کی کتاب حدیث کی قدیم اور اہم ترین کتابوں میں سے شمار ہوتی ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں:

علی ابن ابی طالب نے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے کہ میں اپنے بارے میں اور فاطمہ بنتِ رسول کے بارے میں کچھ کہوں ؟ پھر حضرت علی فرمانے لگے: وہ اگرچہ رسول اللہ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں تاہم میرے گھر میں چکی زیادہ پیسنے کی وجہ سے ان کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا ، پانی زیادہ اٹھانے کی وجہ سے آپ کے کندھے پر بھی ورم آ گیا تھا اور جھاڑو دینے اور گھر کی صفائی کی وجہ سے ان کا لباس بوسیدہ ہو گیا تھا۔ ہم نے سنا کہ رسول اللہ کے پاس کچھ خادم ہیں۔ فاطمہ اپنے بابا جان کے پاس گئیں تا کہ ان سے کچھ مدد طلب کریں اور آنحضرت سے گھر میں مدد کے لیے کوئی خادمہ مانگ لیں لیکن جب اپنے بابا جان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے وہاں چند جوانوں کو دیکھا۔ انھیں بہت حیا آئی کہ اپنی درخواست بیان کریں۔ وہ کچھ کہے بغیر لوٹ آئیں۔

سنن ابی داد ، ج ٢

حاکم نیشاپوری:

مستدرک علی الصحیحین امام حاکم نیشاپوری کی مشہور کتاب ہے۔ وہ اس میں نقل کرتے ہیں:

رسول اللہ نے اپنے مرض موت میں حضرت فاطمہ سے فرمایا: بیٹی! کیا تم نہیں چاہتی کہ امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنو ؟

فخررازی:

امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں سورہ کوثر کے ذیل میں اس سورہ مبارکہ کے بارے میں متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوثر سے مراد آل رسول ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ سورہ رسول اسلام کے دشمنوں کے طعن و عیب جوئی کو رد کرنے کے لیے نازل ہوئی۔ وہ آپ کو ابتر یعنی بے اولاد، جس کی یاد باقی نہ رہے اور مقطوع النسل کو کہتے تھے۔ اس سورہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت کو ایسی بابرکت نسل عطا کرے گا کہ زمانے گزر جائیں گے لیکن وہ باقی رہے گی۔

دیکھیں کہ خاندان اہل بیت میں سے کس قدر افراد قتل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دنیا خاندانِ رسالت اور آپ کی اولاد سے بھری ہوئی ہے جبکہ بنی امیہ کی تعداد کتنی زیادہ تھی لیکن آج ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص وجود نہیں رکھتا۔ ادھر ان (اولاد رسول) کی طرف دیکھیں باقر، صادق، کاظم، رضا وغیرہ جیسے کیسے کیسے اہل علم و دانش خاندان رسالت میں باقی ہیں ۔

تفسیر فخر الدین رازی، ج 23،ص 441مطبعہ ، مصر

ابن ابی الحدید:

عبد الحمید ابن ابی الحدید معروف معتزلی عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ہیں ، وہ لکھتے ہیں: رسول اللہ لوگوں کے گمان سے زیادہ اور لوگ اپنی بیٹیوں کا جتنا احترام کرتے تھے اس سے زیادہ حضرت فاطمہ کی عزت کرتے تھے، یہاں تک کہ آباء کو اپنی اولاد سے جو محبت ہوتی ہے رسول اللہ کی حضرت فاطمہ سے محبت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ آپ نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار، مختلف مقامات پر اور مختلف الفاظ میں، عام و خاص کی موجودگی میں فرمایا:

اِنھا سیدة نِساء العالمِین و اِنھا عدیل مریم بنت عمران و انھا اذا مرّت فی الموقف نادی مناد من جھِة العرش: یا اھل الموقف غضوا ابصارکم لتعبر فاطمة بنت محمد.

فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ وہ مریم بنت عمران کا درجہ رکھتی ہیں، وہ جب میدان حشر میں سے گزریں گی تو عرش سے ایک منادی کی آواز بلند ہو گی: اے اہل محشر! اپنی آنکھیں نیچی کر لو تا کہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں۔

ابن صباغ مالکی:

نامور عالم ابن صباغ مالکی کہتے ہیں: ہم آپ کی چند اہم خصوصیات، نسبی شرافت اور ذاتی خوبیاں بیان کرتے ہیں:

فاطمہ زہرا اس ہستی کی بیٹی ہیں جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: (سبحان الذی اسری بعبدہ) پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی۔ آپ بہترین انسان کی بیٹی ہیں اور پاک زاد ہیں۔ عمیق نظر رکھنے والے علماء کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ آپ عظیم خاتون ہیں۔

الفصول المہمہ، طبع بیروت ،ص34

حافظ ابو نعیم اصفہانی:

حلیة الاولیاکے مصنف معروف عالم حافظ ابو نعیم اصفہانی لکھتے ہیں: حضرت فاطمہ برگزیدہ نیکو کاروں اور منتخب پرہیزگاروں میں سے ہیں۔ آپ سیدہ بتول، بضعتِ رسول اور اولاد میں سے آنحضرت کو سب سے زیادہ محبوب اور آنحضرت کی رحلت کے بعد آپ کے خاندان میں سے آپ سے جا ملنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ آپ دنیا اور اس کی چیزوں سے بے نیاز تھیں۔ آپ دنیا کی پیچیدہ آفات و بلایا کے اسرار و رموز سے آگاہ تھیں۔

حلیة الاولیا طبع بیروت ج2 ،ص931

توفیق ابو علم:

استاد توفیق ابو علم مصر کے معاصر علما محققین میں سے ہیں۔ انھوں نے الفاطمۃ الزہرا کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:

فاطمہ اسلام کی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ہیں۔ ان کی عظمت شان اور بلند مرتبہ کے بارے میں یہی کافی ہے کہ وہ پیغمبر اعظم (ص) کی تنہا دختر ،امام علی ابن ابی طالب کی شریک حیات اور حسن و حسین کی والدہ ہیں۔ در حقیقت رسول اللہ کے لیے راحت جاں اور دل کا سرور تھیں۔ زہرا وہی خاتون ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے دل جن کی طرف جھکتے ہیں اور جن کا نام گرامی زبان پر رہتا ہے۔ آپ وہی خاتون ہیں جنھیں آپ کے والد نے ام ابیہا کہا۔ عظمت و احترام کا جو تاج آپ کے والد نے اپنی بیٹی کے سر پر رکھا ، ہم پر آپ کی تکریم کو واجب کر دیتا ہے۔

آلوسی:

آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی جلد 3 صفحہ138 پر سورہ آل عمران کی آیت 42 کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ:

اس آیت سے حضرت زہرا پر حضرت مریم کی برتری اور فضیلت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ اس آیت میں ‘نسا العالمین ‘ سے مراد تمام زمانوں اور تمام ادوار کی خواتین مراد ہوں مگر چونکہ کہا گیا ہے کہ اس ایت میں مراد حضرت مریم کے زمانے کی عورتیں ہیں لہٰذا ثابت ہے کہ مریم، سیدہ فاطمہ پر فضیلت نہیں رکھتیں۔

آلوسی لکھتے ہیں: رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:

اِن فاطمة البتول افضل النساء المتقدمات و المتاخرات۔

فاطمہ بتول تمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں۔

آلوسی کے بقول "اس حدیث سے تمام عورتوں پر حضرت سیدہ فاطمہ (س) کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ سیدہ رسول اللہ کی روح و جان ہیں، چنانچہ سیدہ فاطمہ، عائشہ پر بھی برتری رکھتی ہیں۔

السہیلی:

السہیلی رسول اللہ کی معروف حدیث "فاطمة بضعة منی” کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب روض الانف ص 279 (مکتب الکلیات الازہری مصر) میں اس طرح رقم طراز ہیں لکھتے ہیں:

میری رائے میں کوئی بھی "بضعة الرسول سے افضل و برتر نہیں ہو سکتا۔

الزرقانی:

الزرقانی لکھتے ہیں: "جو رائے امام المقریزی، قطب الخضیری اور امام السیوطی نے واضح دلیلوں کی روشنی میں منتخب کی ہے یہ ہے کہ:

فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت مریم (س) سمیت دنیا کی تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں۔

روض الانف ج1 ص178

السفراینی:

تحریر کیا ہے: "فاطمہ ام المومنین خدیجہ سے افضل ہیں، لفظ سیادت کی خاطر اور اسی طرح مریم سے افضل و برتر ہیں”۔

روض الانف ج1 ص 178

ابن الجکنی:

ابن الجکنی لکھتے ہیں: صحیح تر قول کے مطابق فاطمہ (س) افضل النسا ہیں۔

روض الانف ج1 ص 178

شیخ الرفاعی:

الرفاعی کے اس قول کو اسی کتاب میں اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اسی قول کے مطابق متقدم اکابرین اور دنیا کے علماء و دانشوروں نے صحیح قرار دیا ہے کہ:

فاطمہ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

ڈاکٹر محمد سلیمان فرج:

معروف عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں کہ فضیلت فاطمہ سیدة النساء العالمین کی فضیلت کو کوئی درک نہیں کر سکتا اس لیے کہ ان کا مقام بہت بلند اور انکی منزلت بہت عظیم ہے ،وہ رسول اسلام کا جزء ہیں ،اسی وجہ سے بخاری نے آپ کے لیے روایت کی ہے کہ :پیامبر نے فرمایا فاطمہ میرا جزء ہے جس نے فاطمہ کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضب ناک کیا ہے۔

الاضواء فی مناقب الزہرا سید احمد سایح حسینی مقدمہ ص1

ابوبکر جابر جزائری:

حضرت زہرا کے فضائل بہت زیادہ ہیں ، انہیں میں سے ایک علم حضرت زہرا ہے ،اور وہ کیوں عالمہ نہ ہوں جبکہ وہ اس رسول کی بیٹی ہیں جو شہر علم ہے، اور وہ رسول کا جزء ہیں۔

العلم و العلماء ،ابوبکر جابر جزائری ص237

ڈاکٹر محمد طاہر القادری:

مشہور و معروف سنی عالم دین ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ‘الدر البیضاء فی مناقب فاطمة الزہرا ‘ میں چار خواتین کی فضلیت سے متعلق احادیث کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: ان احادیث میں کسی قسم کا تعارض (تصادم) نہیں ہے کیونکہ دیگر خواتین یعنی: مریم، آسیہ اور خدیجہ، کی افضلیت کا تعلق ان کے اپنے زمانوں سے ہے یعنی وہ اپنے زمانوں کی عورتوں سے بہتر و برتر تھیں لیکن حضرت سیدہ عالمین کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور پورے عالم اور تمام زمانوں پر مشتمل (یعنی جہان شمول اور زمان شمول) ہے”

مریم پر سیدہ فاطمہ (س) کی افضلیت سنی محدثین کی نگاہ میں:

اس صحیح روایت کی مطابق رسول خدا (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ:

یا فاطمة لا ترضین تکونی سیدة نساء العالمین و سیدة نساء ہذہ الامة و سیدة نساء المومنین۔

اے فاطمہ (س) !کیا آپ خوشنود نہیں ہونگی کہ دنیا کی خواتین کی سردار قرار پائیں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ قرار پائیں اور با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟

المستدرک، ج3 ، ص156

حاکم اور ذہبی دونوں اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ یہ روایت حضرت حوا ، ام البشر سے لے کر قیامت تک، دنیا کی تمام عورتوں پر حضرت فاطمہ (س) کی افضلیت کی واضح ترین اور منہ بولتی دلیل ہے اور اس روایت نے ہر قسم کے نادرست تصورات کا امکان ختم کر کے رکھ دیا ہے۔

نیز رسول اللہ نے سیدہ (س) سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ: "لا ترضین نکونی سید نساء العالمین”؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہیں آپ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؟

سیدہ نے عرض کیا: مریم کا کیا ہو گا ؟

فرمایا: تلک سیدة نسا عالمھا؛ وہ اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں۔

محمد شوکانی، فتح القدیر، بیروت: دار المعرفہ، 1996م، ج1، ص439۔

عبد اللہ ابن عباس نے ایک طویل حدیث میں رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

میری بیٹی فاطمہ بے شک اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔

ابراہیم جوینی، فرائد السمطین، ج2، ص35

نیز ایک طولانی حدیث کے ضمن میں پیغمبر خدا نے فرمایا:

چوتھی مرتبہ خدا نے نظر ڈالی اور فاطمہ کو پورے عالم کی خواتین پر پسندیدہ اور افضل قرار دیا۔

سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، ص247، باب56

ابن عباس پیغمبر خدا سے روایت کرتے ہیں کہ:

اربع نسوة سیدات عالمھن۔ مریم بنت عمران، و آسیہ بنت مزاحم، و خدیجہ بنت خویلد، و فاطمة بنت محمد و افضلھن علما فاطمة؛

چار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم (زوجہ فرعون) ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد (ص) اور ان کے درمیان سب سے زیادہ عالِم حضرت فاطمہ (صلوٰة اﷲ علیہا)ہیں۔

الدر المنثور، ج2، ص194

نیز ابن عباس ہے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

افضل العالمین مِن النساء الاولین و الآخرین فاطمة۔

اولین اور آخرین کی خواتین میں سب سے افضل خاتون فاطمہ (س) ہیں۔

المناقب المرتضوی، ص113، بحوال غلام رضا کسائی، مناقب الزہرا، قم: مطبع مہر، ، ص62

نتیجہ بحث :

پیغمبر اکرم نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کو مسلمان عورتوں کی سردار بتایا ہے، انہیں ایک کامل خاتون قرار دیا کہ یہ انسانوں کی شکل میں حورِ بہشت ہیں ، وہ جنت کی خوشبو سے معطر ہیں اور اگر تمام نیکیوں کو کسی ایک شخص میں دیکھا جائے تو وہ صرف حضرت فاطمہ ہیں ۔ بلکہ فاطمہ زہرا (س) اس شخص ِکامل سے بھی بہتر ہیں ۔ آپ ہدایت کا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہیں اور رسول خدا (س) نے آپ کو اپنا ٹکڑا قرار دیا ہے۔ آپ قلب رسول کی خوشی کا باعث ہیں آپ کے فرزند ریحانۂ قلب رسول ہیں اور آپ کے شوہر علی رسول کی آنکھوں کا نور ہیں. حضرت زہرا سے دوستی و دشمنی رسول خدا سے دوستی و دشمنی ہے اور فاطمہ کی خوشی اور غضب خدا کی خوشی و غضب ہے ۔

آئمہ معصومین (ع) نے بھی پیغمبر کے سلسلہ میں ان کی عمیق معرفت ، علم و آگاہی اور بلند مقام و منزلت کے متعلق فرمایا ہے ،اور انہیں حجاب کا بہترین عملی نمونہ قرار دیا ہے ۔ معصومین (ع) کی تصریح اور توضیح کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھیں اور وہ بھی نبی اکرم سے بے حد محبت کرتی تھیں ۔

آپ تمام طرح کی برائیوں سے پاک تھیں۔ جس وقت محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے جسم اطہر سے ایک ایسا نور ساطع ہوتا تھا کہ عرش نشیں فرشتے بھی اس کی تاب نہیں لا پاتے تھے۔ آپ زمین کی تمام عورتوں کی سید و سرادر ہیں ایسی بے مثال کہ اپنی دعاؤں میں بھی کسی انسان کو فراموش نہیں کرتی تھیں ، اپنے شوہر کے احترام میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور گھر کے اندر کی تمام ذمہ داریوں کو ہمیشہ بخوبی انجام دینے میں کوشاں رہتی تھیں.

حضرت شہزادی کونین (س) نے اپنی مرضی اور رضا پر ہمیشہ خدا کی رضا کو مقدم رکھا ۔ غربت و افلاس میں بھی خدا کی رضا کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ پیغمبر اکرم سے والہانہ محبت کرنے والی نے اپنے آپ کو ہمیشہ اہل بیت کے عنوان سے پہچنوایا اس طرح کہ قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کرنے کا حق خدا نے آپ کو بخشا ہے ۔ آپ نے دنیا سے کبھی دل نہیں لگایا مگر اس کی تین چیزوں کو: راہ خدا میں انفاق ،کتاب خدا کی تلاوت اور رسول خدا (ص) کے چہرے کی زیارت کرنا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button