امام موسی ابن جعفر ؑ کی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں تھا
شیعہ نیوز:شیعہ علما کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے امام ہفتم حضرت امام موسی کاظم ؑ کے یوم شہادت (25 رجب المرجب) پر اپنے پیغام میں کہا کہ امام موسی ابن جعفر ؑ کی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں اور مشکلات کا جرات کیساتھ مقابلہ کیا، اس وقت صورتحال یہ تھی کہ بنو عباس اپنی خلافت کی ابتدا میں پیدا ہونے والے داخلی اختلافات اور جنگوں سے فراغت پاچکے تھے اور اپنے مخالفین کی سختی سے سرکوبی کرنے کے بعد انہیں خاموش کررہے تھے۔ چنانچہ جلاوطنی اور اسارت جیسے کٹھن اور مشکل مراحل میں بھی امام ؑ نے عزم و استقلال اور جرات و بہادری سے مصائب کا مقابلہ کیا۔
ایک ایسی شخصیت جو حالات کے مطابق اور اسلامی معارف اورحقائق نشر کررہی ہو انہیں کبھی جلاوطنی، کبھی اسیری اور کبھی روپوشی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے۔مزید برآں مورخین کو تاریخ اسلام قلمبند کرتے وقت حضرت کے حالات زندگی کے جس پہلو پر زیادہ دقت سے توجہ دینی چاہیے تھی وہ آپ کی زندگی کا عظم اور بے نظیر ”طویل المدت اسیری،، کا پہلو ہے جس کے پیچھے طویل اور صبر آزما جدوجہد کارفرما تھی۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ 35 سالوں پر محیط دور امامت میں آپ کی مسلسل جدوجہد اور جہاد، آپ کی علمی و روحانی زندگی، الہی مقام، آپ کا خاندان، اصحاب اور شاگردوں سے متعلق واقعات اور علمی اور کلامی مباحثوں کے تذکروں اور آپ کے حالات زندگی کا احاطہ ممکن نہیں اسی طرح امام موسی کاظم ؑ نے اپنے جد امجد پیغمبر گرامی کے عمل و کردار کو اپناتے ہوئے جب یہ محسوس کیا کہ اس وقت کی منحرف قوتیں دین اسلام کے عقائد و نظریات کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں تو آپ نے ان قوتوں کی ناپاک کوششوں کو ناکام بنانے میں بھر پور کردار ادا کیا ۔
چنانچہ انہیں اس عمل کی پاداش میں کئی سال قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا گیا اور بالاخر امام برحق کی شہادت بھی انہی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے ہوئی۔انہوں نے کہا کہ امام موسی کاظم ؑ نے اپنے آباءو اجداد کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہوکر خالص اسلام کی تعبیر و تشریح اور اسلامی معارف کی روشن تصویر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں امامت اور سیاسی حاکمیت کے فلسفے کو واضح کیا اور اسی طرح عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی لئے سعی و کوشش کی جس کی خاطر پیغمبر گرامی اور دیگر انبیائے کرام مبعوث ہوئے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے ائمہ اطہار ؑ کی سیرت و کردار اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حق و صداقت کی ترویج اور دین حق کی تبلیغ کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت کی شہادت کے بعد بھی بدی اور جبر کی قوتیں خائف نظر آئیں چنانچہ ظالم حکمران آپ کے جنازے اور قبر مطہر سے خوفزدہ تھے یہی وجہ ہے کہ جب قید خانے سے آپ کا جنازہ باہر نکالا جارہا تھا تو حکومتی مشینری یہ اعلان کررہی تھی کہ حکومت وقت سے بغاوت کرنے والے کا جنازہ ہے تاکہ آپ کی شخصیت اور کردار کو لوگوں کی نظرو ں میں داغدار کیا جاسکے لیکن اس میں ناکام ہوئے، آپ کا مزار مقدس کاظمیہ بغداد میں آج بھی مرجع خلائق ہے