حضرت فاطمہ زہراء س کی یوم ولادت خواتین کے لیے اپنے مقام،حقوق،ذمہ داری کی شناخت کا بہترین موقع ہے
بیس جمادی الثانی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت کادن ہے۔ اس دن کو "یوم خواتین” اور "روز مادر” کے عنوان سے منایا جاتاہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بعثت سے پہلے کے دور کو جاہلیت کا زمانہ کہاگیا ہے۔ جہاں دیگر انسانی اقدار ناپید اور غیر انسانی افکار،رسومات اور اعمال کادور دوری تھا۔انہی جاہلی تصورات میں سے ایک عورت کے بارے میں منفی تصور تھا۔اس ماحول میں عورت انتہائی حقیر مخلوق تھی۔،ان کی نگاہ میں عورت صرف بچوں کی پرورش کے لئے ایک وسیلہ تھا۔ عرب میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کی داستان کو قرآن اور تاریخ نے محفوظ کیاہے۔کہ جب کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تواس کاچہرہ سیاہ ہوجاتا۔یعنی بیٹی کی پیدائش کواپنے لیے ننگ و عار سمجھتے تھے۔ بلکہ معصوم بچیوں کو زندہ درگو کرنے کے واقعات بھی تاریخ نے نقل کی ہے۔ان حالات میں پیغمبر اکرم کی بعثت کے پانچویں سال حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت ہوتی ہے۔ یعنی وحی الٰہی کا نزول اور فاطمہ کی ولادت ایک ساتھ ہے۔اس طرح آپ کی تربیت قرآن کے سایے میں ہوا۔ اور آپ کامربی و استاد ختمی مرتبت جیسی عظیم ہستی اور خدیجہ جیسی پاکیز ہ ماں کے دامن میں آپ کی پرورش ہوئی۔پیغمبر کے بعثت کا مقصد ہی ان جاہلی رسومات کومٹاناتھا۔اورانسانی اسلامی معاشرے کاقیام آپ کانصب العین تھا۔
آپ نے قرآن کریم کے دستورات کی روشنی میں اسلام کی حیات بخش تعلیمات انسانیت کے لیے پیش کی۔ان میں سے ایک عورتوں کے بارے میں موجود منفی افکار کی نفی اور ان کو معاشرے میں حقیقی مقام عطا کرنا تھا۔
جس کے لیے آپ نے دو طریقہ کار اختیار کیا۔
پہلا طریقہ آپ نے عورت کے مقام کو مختلف زاویوں سے بیان کیا۔جیسے بیٹی،ماں،زوجہ،بہن کامقام اور عورت کی فضیلت اور حقوق۔
دوسرا طریقہ کار آئیڈیل خواتین کو معاشرے میں روشناس کرایا ۔ان کی تعریف،تمجید اور مقام ومنزلت کوبیان بیان کیا۔
انہی میں سے ایک حضرت زہرا کی ذات گرامی ہے۔جس کی فضیلت،مقام اور کردار کے بیان کو پیغمبر نے اپنی پوری زندگی میں بنیادی اہمیت دی۔
فاطمہ زہراء س کی سیرت ،کردار،معرفت اور عمل نے ہی آپ کواس مقام پر پہنچادیا کہ رسول اکرم ص نے آپ کو”عالمین کے عورتوں کا سردار”ام ابیہا” جیسےالقابات سے نوازا۔ ساتھ ہی آپ کے احترام میں پیغمبر کا کھڑا ہونا بھی آپ کے عظمت کی دلیل ہے۔ یہ سب ایسےماحول میں ہوا جہاں عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔
حضرت فاطمہ زہراس نےمختصرزندگی میں بیٹی، زوجہ اور ماں تینوں صورتوں میں اپنا کردار اس طرح ادا کیا کہ تاریخ کی تمام خواتین کے لئے نمونہ عمل بن گئی۔ ساتھ ہی اپنی انفرادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی میں حجاب وعفت کی حفاطت کے ساتھ آپ نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ اور دنیا پر یہ واضح کیا، کہ کمال کے حصول،معرفت کے اعلیٰ مدارج طے کرنے اور عملی طور پر اسلام وانسانیت کی خدمت میں عورت مرد سے کسی صورت کم نہیں بلکہ عورت علمی اور عملی لحاظ سے مردوں سے آگے بھی جاسکتی ہے۔
زہراء سلام اللہ علیہا کی یوم ولادت خواتین کے لیے اپنے مقام،حقوق،ذمہ داری کی شناخت کا بہترین موقع ہے۔حضرت زہرا نے بیٹی ہونے کے لحاظ سے پیغمبر کےساتھ بچپن سے ہی اسلامی پیغام کی اشاعت اور اس راہ میں سخت مشکلات کو برداشت کیا اور پیغمبر کی دلجوئی اور دشمنوں کے مقابل دین کا دفاع اور پیغام اسلام کو نشر کرنے میں اپنی زندگی وقف کردی، ایک زوجہ ہونے کے اعتبار سے آپ نے ہمیشہ گھریلوامور میں حضرت علی کاساتھ دیا۔اورمثالی زوجہ ہونے کاثبوت دیا اور ماں ہونے کے ناطے امام حسن،امام حسین، حضرت زینب جیسی اولاد کی تربیت کا فریضہ انجام دیا جن کا کردار رہتی دنیا کے لئے مشعل راہ ہے۔
دور حاضرمیں مغرب کی پیروی میں عورت کو حقوق، آزادی،برابری کے نام پرجدید جاہلی نظریات کاسامنا ہے جس کامقصد آزادی کے نام پر عورت کو خواہشات میں اسیر کرنا ہے۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر ان کی شخصیت،وقار،حیا،عفت اور مقام کاخاتمہ ہے۔ تاکہ عورت خاندانی نظام سے روگردانی اختیار کرئے، بچوں کی تربیت،شوہر داری اور اپنی اصلی ذمہ داریوں کو فراموش کرئے۔ اور گھر سے باہر بازار کی زینت اور مردوں کی خواہشات کی تکمیل کاذریعہ بن جائے۔ جو کہ کسی صورت اسلامی عورت کے لئے قابل تقلید نہیں۔
اس صورتحال میں حضرت فاطمہ زہرا س کی سیرت وزندگی کا ہر پہلو ہی معاصر عورت کے لئے ایک کامل آئیڈیل ہے کہ وہ حجاب وعفت کی حفاظت، اسلامی اقدار کی رعایت اور اپنے وقار کو محفوظ رکھ کر اپنی ذمہ داریوں پر عمل پیر ہوسکتی ہے۔ اس راہ میں حضرت زہرا ہر حوالے سے کامل عورت کی عملی تصویر ہے۔اسی جانب علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں اشارہ کیا ہے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
آن ادب پرودہ صبر ورضا
آسیا گرداں ولب قرآن سرا
حضرت فاطمہ س تسلیم ورضا کی کھیتی کاحاصل اور ماوں کے لئے اسوہ کاملہ ہیں۔آپ نے صبر ورضا کی ادب گاہ میں پرورش پائی تھی؛ہاتھ چکی پیستے اور لبوں پر قرآن کی تلاوت ہوتی تھی۔
حضرت فاطمہ زہرا س کےذاتی اوصاف، کردار، عبادت وبندگی، انسانیت کی خدمت، علم وعمل، صبر، جدوجہد،استقامت،معرفت حق،اطاعت رسول،قرآن سے عشق، بچوں کی تربیت،رشتہ داروں سے نیک سلوک،حق کادفاع اور دینی موازین کی پابندی اور اخلاق اسلامی جیسے اوصاف کامطالعہ اور ان پر کاربند ہوکر آج کی خواتین حقیقی انسانی معراج تک پہنچ سکتی ہیں۔
خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی انسانیت ،خواتین کے حقوق اور منزلت کو حضرت زہرا س کی سیرت میں تلاش کریں۔حضرت زہرا س اور دیگر اسلامی خواتین کی زندگی میں ان انسانی اقدار اور کمال کو ڈھونڈیں۔اور ان کو معاشرہ میں عام کریں۔ تاکہ آج کی خواتین ان اسلامی نمونوں کو پڑھ کر ان کے کردار کو اپنی عملی زندگی میں ڈھال سکیں۔ ان مثالی خواتین کی زندگی وکردار کے مختلف پہلووں سے ہماری خواتین آشنا ہوں۔ اور ان کی زندگی سے اپنے لئے الہام لیں۔ حضرت زہرا کی سیرت وکردار میں آج کے خواتین کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے مسلم مفکرین نے آپ کو ایک کامل شخصیت ہونے کے لحاظ سے تمام خواتین کے لیے نمونہ قرار دیاہے۔
امام خمینی ،خواتین کے نام اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں: اپنے اخلاق کو بہتر بنائیں اور دوسروں کو بھی اخلاق بہتر بنانے کی دعوت دیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے لئے نمونہ عمل قرار دو،ہم سب کو ان کی پیروی کرنی چاہیے۔حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے بے مثال معنوی کمالات،اچھے اخلاق،اچھی سیرت اور طرز عمل کے ذریعے سب پر برتری حاصل کی۔
تحریر: سکندر علی بہشتی