مضامین

کرونا وائرس، امریکہ کا تیار کردہ حیاتیاتی ہتھیار

تحریر: علی احمدی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا بھر میں 1 لاکھ 69 ہزار افراد اس وائرس کی زد میں آ چکے ہیں جن میں سے 6 ہزار 518 افراد فوت ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں کرونا وائرس پھیل جانے کے خوف سے کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والی مارکیٹس پر شدید رش ہو گیا ہے۔ دوسری طرف یورپ، ایشیا اور امریکہ کے اسٹاک ایکسچینج بھی تیزی سے گر رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ پر الزام عائد کیا تھا کہ امریکی فوج نے کرونا وائرس چین منتقل کیا ہے۔ اس بیان کے ردعمل میں امریکہ نے واشنگٹن میں چینی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ اب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دوبارہ اپنے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کرونا وائرس پہلی بار امریکہ میں 2015ء میں بنایا گیا تھا اور امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے نے یہ وائرس چین میں پھیلایا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاو لیجیان نے اپنے بیان میں کہا کہ میڈیکل شعبے میں تحقیقی مقالات شائع کرنے والے ریسرچ میگزین Nature Medicine میں 2015ء میں ایک مقالہ شائع ہوا تھا۔ اس مقالے میں امریکی محققین کی جانب سے ایک نئی قسم کے وائرس دریافت کرنے کی خبر دی گئی تھی جو براہ راست انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس مقالے کے مصنف نے لکھا: "نئے وائرس (کوویڈ 19) کو SHC 14 نامی وائرس سے بنایا گیا ہے جو عام طور پر چمگادڑ میں پایا جاتا ہے۔ کوویڈ 19 ایک ترقی یافتہ وائرس ہے جو انسان کے بدن میں بھی فعالیت انجام دے سکتا ہے۔” گذشتہ ہفتے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا تھا: "کرونا وائرس کب امریکہ میں آیا تھا؟ کتنے افراد اس کی زد میں آ چکے ہیں؟ یہ افراد کس اسپتال میں ہیں؟ عین ممکن ہے امریکی فوج اس وبائی مرض کو چین کے شہر ووہان لائی ہو۔ صداقت کا ثبوت دیں اور اپنی معلومات منظرعام پر لائیں۔ امریکہ ہمیں وضاحت دینے کا پابند ہے۔” چین کے عالمی ریڈیو چینل نے بھی اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کچھ سنسنی خیز حقائق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

اس ریڈیو رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ کرونا وائرس سے متاثر بعض ایسے مریض بھی فوت ہوئے ہیں جن کے بارے میں امریکی ڈاکٹرز یہ سمجھتے رہے کہ وہ انفلوینزا سے متاثر ہوئے ہیں۔ لہذا اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں پھیل جانے والے کرونا وائرس کا اصلی سورس چین نہیں بلکہ امریکا تھا۔ کرونا وائرس امریکہ سے چین منتقل ہوا۔ دوسری طرف کینیڈا کے تحقیقاتی ادارے "گلوبل اسٹڈیز” نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں تائیوان کے ایک ماہر حیاتیات کے بقول کہا گیا ہے: "ایران اور اٹلی میں دریافت ہونے والے نئے کرونا وائرس کا جینوم (ڈی این اے) چین میں پائے جانے والے کرونا وائرس سے مختلف ہے۔ لہذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران اور اٹلی میں سامنے آنے والا کرونا وائرس چین سے منتقل نہیں ہوا۔” مزید برآں، لانسٹ نامی انٹرنیٹ سائنٹیفک میگزین نے 24 جنوری کو ایک مقالہ شائع کیا جو ووہان میں چین اینگتن اسپتال کے سات ماہر ڈاکٹرز کی جانب سے لکھا گیا تھا۔ اس مقالے میں بھی انتہائی اہم انکشافات کئے گئے ہیں۔

اس مقالے میں کہا گیا ہے: "ہمارے اسپتال میں زیر علاج کرونا وائرس کے سب سے پہلے متاثرین کی تعداد 41 تھی۔ ان میں سے 13 افراد ایسے تھے جو ہر گز ووہان میں سمندری غذاوں کی مارکیٹ نہیں گئے تھے۔” اسی طرح 26 جنوری کے دن سائنس میگزین نے ایک مقالہ شائع کیا جس میں تاکید کی گئی تھی کہ چین میں کرونا وائرس کے پھیلاو کا آغاز ووہان میں سمندری غذاوں کی مارکیٹ سے نہیں ہوا۔ اس مقالے میں امریکہ کی جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل لوسی کے بقول کہا گیا ہے: "13 متاثر افراد کا اس مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ تعداد کم نہیں ہے۔” ڈینیل لوسی کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں چین میں کرونا وائرس کے پھیلاو کا کوئی اور سورس تھا۔ دوسری طرف خود امریکہ مین نئے کرونا وائرس کے باعث حالات روز بروز مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس ملک کی 50 ریاستوں میں سے 49 ریاستیں اس وائرس سے متاثر ہو چکی ہیں۔ امریکہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 3802 تک پہنچ چکی ہے جن میں سے 69 افراد فوت ہو چکے ہیں۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ میں نیا کرونا وائرس آئندہ چند ماہ سے ایک سال تک رہ سکتا ہے اور 160 سے 214 ملین افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button