مضامین

مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی گھمبیر صورتحال

تحریر: ہادی محمدی

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے سے امریکی حکمران عالمی اور مشرق وسطی خطے کی سطح پر ایک بہت بڑے چیلنج سے روبرو رہے ہیں۔ یہ چیلنج اپنے زیر اثر علاقوں میں پیش آنے والے صدمات پر مشتمل تھا جس کے باعث ان علاقوں میں امریکہ کی پوزیشن شدید متزلزل ہو گئی جہاں اس نے فوجی موجودگی اختیار کر رکھتی تھی۔ مسلح کاروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے پیش نظر امریکہ ان علاقوں میں اپنی فوجی موجودگی کم کرنے اور فوجی تنصیبات ختم کرنے پر مجبور ہو چکا تھا۔ اسی صورتحال کے پیش نظر امریکہ نے افغانستان سے اچانک اور سراسیمہ طور پر فوجی انخلاء کا فیصلہ کیا۔ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء خود امریکی تجزیہ نگاروں کے بقول کسی طرح سے بھی میدان جنگ سے فرار سے مختلف نہیں تھا۔

دوسری طرف امریکہ نے عراق میں طاقتور انداز میں فوجی موجودگی کیلئے تمام ضروری اقدامات انجام دے رکھے تھے جن میں سے ایک بغداد میں خطے کا سب سے بڑای سفارت خانہ تعمیر کرنا تھا۔ یہ امریکی سفارت خانہ ایک فوجی اڈے کی مانند ہے اور اس میں فوجی ضرورت کا ہر سامان موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسلامی مزاحمت کی کاری ضربوں نے امریکہ کو بہت زیادہ جانی اور سیاسی نقصان برداشت کرنے پر مجبور کر دیا جس کے باعث امریکہ عراق سے بھی فوجی انخلاء پر مجبور ہو چکا ہے اور خود امریکی حکمرانوں نے اس مقصد کی تکمیل کیلئے دسمبر کے آخر کو ڈیڈ لائن کے طور پر اعلان کیا ہے۔ لہذا عراق میں امریکی فوجی کچھ دنوں کے مہمان رہ گئے ہیں۔

لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے اور امریکہ درپردہ عراقی عوام اور اسلامی مزاحمتی قوتوں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ اپنے فوجیوں کو نیا روپ دے کر عراق میں ہی باقی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف انہیں فوجی مشیر ظاہر کرنے کے درپے ہے جبکہ دوسری طرف نیٹو کی چھتری بھی استعمال کرنے کیلئ کوشاں ہے۔ عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہوں نے امریکہ کے ان عزائم کو بھانپتے ہوئے اسے خبردار کیا ہے کہ وہ ان حربوں سے عراقی قوم اور اسلامی مزاحمت کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا اور ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا جائے گا چاہے وہ کسی روپ میں بھی ہوں اور چاہے کسی بھی چھتری کے نیچے سرگرمیاں انجام دے رہے ہوں۔

لہذا عراق میں امریکہ فوجی اور سیاسی لحاظ سے شدید بحرانی اور پریشان کن صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ عراق کے حالیہ پارلیمانی الیکشن میں دھاندلی کر کے اس ملک پر اپنی کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنے کا امریکی خواب بھی چکناچور ہو چکا ہے اور اس کا یہ تازہ ترین حربہ بھی ناکامی کا شکار ہو گیا ہے۔ اس وقت عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہ سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور آئندہ تشکیل پانے والی پارلیمنٹ میں ان کی بھاری اور موثر موجودگی یقینی ہو چکی ہے جس کے باعث امریکہ عراق کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ امریکہ نے عراق پر بیس سالہ فوجی قبضے کے دوران اس ملک کی مقننہ، عدلیہ اور حکومت میں اپنے مہرے گھسانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اب اس کی یہ کوشش بھی بے نتیجہ ثابت ہو گئی ہے۔

یمن میں امریکہ کی ناکامیوں کی سطح فوجی میدان سے کہیں زیادہ اوپر جا چکی ہے اور اس میں سیاسی اور سفارتی میدانوں میں ہونے والی ناکامیاں بھی شامل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذاکرات اور سفارتکاری کے میدان میں انصاراللہ یمن چھایا ہوا ہے۔ یمن کا اہم ترین صوبہ مارب امریکی اتحادیوں کے ہاتھ سے تقریباً نکل چکا ہے اور عنقریب اس کے مرکزی شہر مارب پر بھی انصاراللہ یمن اور یمن آرمی کا کنٹرول بحال ہونے والا ہے۔ اس شکست کے اثرات سعودی عرب میں حکمفرما آل سعود خاندان میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ مغربی ممالک کے بقول سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کی جسمانی صورتحال انتہائی خراب ہے اور وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل نہیں رہے۔ دوسری طرف سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی شخصیت بھی متنازع ہے اور ان کے سیاسی حریف انہیں نیا فرمانروا بنانے کے خلاف ہیں۔

شام، لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی صورتحال مغربی ایشیا کے دیگر حصوں سے بہتر نہیں ہے۔ لہذا امریکہ نے اپنی اسٹریٹجی میں بنیادی تبدیلی لاتے ہوئے مستقبل میں فوجی طاقت کا سہارا لینے کی بجائے نرم طاقت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عنقریب عراق میں امریکی سفیر کے طور پر ایسی خاتون کو تعینات کیا جائے گا جنہیں انٹیلی جنس کے شعبے میں کافی تجربہ حاصل ہے۔ وہ لبنان میں موجود خاتون امریکی سفیر سے مل کر خطے میں پراکسی وار، ٹارگٹ کلنگ، نرم جنگ، سیاسی انارکی وغیرہ جیسے اقدامات کو فروغ دینے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ امریکہ کو درپیش چیلنجز کا سلسلہ یہیں تک ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ ویانا میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جاری جوہری مذاکرات میں بھی شدید صدمات سے روبرو ہو رہا ہے۔ یوں شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی سالگرہ کے موقع پر امریکہ سے عاری خطے کی علامات ظاہر ہونے لگی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button