
فلسطینیوں کے مسائل کی بنیادی وجہ امت مسلمہ کی منافقت ہے، علامہ جواد نقوی
شیعہ نیوز: ارض مقدس فلسطین پر صہیونزم کی یلغار، اسلام اور مسلمانوں کے قلوب پر ایک دیرینہ زخم ہے، جس میں روز بروز شدت لائی جا رہی ہے۔ ہر چند ملکی و غیر ملکی میڈیا پہلی دفعہ اتنی توجہ کیساتھ فلسطین کے مسئلے کو پیش کر رہا ہے، حکومتوں کی بھی دلچسپی اور بھرپور توجہ ہے، لیکن اس توجہ میں سارا رخ اول تو مذمتی حد تک ہے اور مذمت کا رخ بھی اسرائیل کی طرف ہے، باقی اس ظلم کے شرکائے جرم، اصل بانی، محرک اور سہولت کاروں کا کہیں بھی ذکر نہیں آتا اور سب اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ ستم یہاں تک پہنچا کیسے ہے؟ ان خیالات کا اظہار مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ اور تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے حوزہ علمیہ جامعہ العروة الوثقیٰ میں یوم یکجہتی فلسطین اجتماع سے خطاب میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ فلسطین پر آخری حملہ نہیں، ستر سال سے ہر روز فلسطینی یہ دن دیکھ رہے اور مقابلے میں جو مذمتی لوگ ہیں وہ ان اسرائیلی قاتلوں کی مذمت کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے، جس سے اسرائیل کو دوبارہ موقع ملتا ہے اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ فلسطینیوں پر ظلم کرتا ہے اور اب تو اس نے یلغار کا دائرہ بڑھا کر سوریا، لبنان، ایران اور ان ممالک تک بھی بڑھا دیا ہے اور ہر روز کارروائیاں کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں صہیونی تو مسلم ہیں کہ وہ جنایت کار، انسانیت و اسلام دشمن ہیں لیکن یہ خونخوار بھیڑیا برطانیہ کا لگایا ہوا شجرئہ خبیثہ ہے اور امریکہ نے اس کی پرورش کی ہے اور ابھی تک کھل کے ڈھٹائی کیساتھ، ہر امریکی صدر، ہر دور میں آکر، کھل کے اور بلا قید و شرط اس کی حمایت کرتا ہے۔ ان تمام ممالک کے ساتھ پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک کی دوستی ہے یہ بات بھی طے ہے کہ جو کچھ بھی پہلے غزہ میں ہو رہا تھا وہ ان عرب ممالک کے تعاون سے ہو رہا ہے اور جو ابھی ہو رہا ہے وہ مکمل طور پر انہی کی ایما پر ہو رہا ہے۔ ابھی امریکہ نے اسلحے کا پورا ایک ذخیرہ اسرائیل کی طرف بھیجا ہے اس کے باوجود مختلف اسلامی ممالک جن کی سرحدیں اسرائیل کیساتھ ملتی ہیں، کسی ملک نے بھی ایک سپاہی بھیجنے کا اشارہ تک بھی نہیں کیا۔ سودی عرب نے 39 ممالک کی فوج جس کا سربراہ پاکستان سے ہے، بنا رکھی ہے اور اس وحشیانہ بمباری و قتل و غارت پر صرف بیانات ہی دیئے ہیں۔ ترکی کا سربراہ اردگان ٹیلی فون کر دیتا ہے باقی اس کو ٹیلی فون کر دیتے ہیں، جیسے اسرائیل زبانی گولا باری کر رہا ہو۔ مذمتوں سے تو اسرائیل کا خاتمہ نہیں ہوگا، جبکہ سب کے اسرائیل کیساتھ تعلقات ہیں دوستیاں ہیں، لین دین ہے، اگر یہ سب ایک ایک دستہ بھی روانہ کر دیتے تو یہ سلسلہ رک جاتا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل جو بھی کر رہا ہے یہ اس کا حق ہے۔ جس پر کسی نے بھی امریکہ کو کچھ نہیں کہا اگر یہ منافق نہ ہوتے تو امت مسلمہ کا اتنا دردناک منظر نہ ہوتا۔ منافقت سے یہ مسئلہ یہاں تک آیا ہے۔ فلسطین نے الحمدللہ اس سے پہلے کبھی اتنی مقاومت نہیں دکھائی مگر ابھی ہزاروں، میزائل اور راکٹ اسرائیل کو مار چکے ہیں، جن میں سے بہت سارے اسرائیل کے ٹھکانوں پر جاکر لگے اور کئی انہوں نے روک لیے ہیں۔ یہ سب مسلمان حکمرانوں کے خیانت کے باوجود ہے۔ یہاں سے سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطین کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آگئی یہ ادرک اور شعور ہونا چاہیے۔ یہ مقاومت پوری تاریخ پر بھاری ہے۔ یہ سخت ترین محاذ ہے۔ اگر یہ جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے اور اسرائیل کے ناپاک وجود کے خاتمے تک جنگ جاری ہے اور مظلوموں کی حمایت تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔