مشرق وسطی

شہید القدس کے خون کا انتقام یقینی ہے، تہران سے غزہ تک مقاومتی محاذ کا عزم

 

سڑک پر کھڑا ضعیف العمر شخص امام خمینی کی تصویر ہاتھ میں لئے انگلی کے اشارے سے اعتماد سے بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا کہ امام خمینی نے بالکل درست فرمایا تھا کہ ہمیں امریکہ کو مشرق وسطی سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ امریکہ غلطی کرنے کی جرائت نہیں کرسکتا ہے۔ امام موسی صدر نے درست کہا تھا کہ اسرائیل شر کا مجسمہ ہے۔

شہید اسماعیل ہنیہ کی تشییع جنازہ کے لئے آنے والے ہر فرد کے اس طرح کے خیالات تھے۔ صہیونی دشمنوں سے لڑنا اور اس راہ میں شہید ہونا ہر ایک کی آرزو تھی۔ شرکاء کے ہاتھوں میں ایران، فلسطین اور حزب اللہ کے پرچم تھے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے تاثرات قابل غور تھے جو شہید ہنیہ کو فلسطینی عوام کے نجات دہندہ اور ایران کے مہمان قرار دیتے تھے۔

باقر قالیباف کی تقریر کے بعد حماس کے اعلی رہنما خلیل الحیہ نے خطاب کیا اور میثم مطیعی نے ترانہ پڑھا۔ اس کے بعد رہبر معظم کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جب رہبر معظم نے یہ جملہ پڑھا کہ اللہم انا لانعلم منہ الا خیرا "خدایا ہم اس میت کے بارے میں خیر ہی جانتے ہیں” اس وقت مجھے مرحوم یاسر عرفات یاد آئے۔ وہ بھی فلسطین کے رہنما تھے لیکن فرانس میں گمنانی کی حالت میں دنیا سے چلے گئے کیونکہ دشمن سے ساز باز کی وجہ سے فلسطین کی سرزمین دشمن کے حوالے کی تھی۔

شہید ہنیہ نے محمود عباس کی طرح دشمن کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے بجائے بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا۔ فلسطینی عوام کے دکھ درد میں شریک رہے۔ خاندان کے درجنوں افراد کو بیت المقدس کی راہ میں قربان کردیا۔ ایسے عظیم انسان کا انجام شہادت پر ہی ہوتا ہے۔

نماز جنازہ کے بعد تشییع کا سلسلہ شروع ہوا۔ شہید اسماعیل ہنیہ اور ان کے ذاتی محافظ کے اجساد خاکی کو تہران یونیورسٹی سے انقلاب اسکوائر کی طرف لے جایا گیا۔ شرکاء صہیونی حکومت، امریکہ اور برطانیہ کے خلاف فلک شگاف نعرے لگارہے تھے۔

شرکاء کے ہاتھوں میں ایران کے علاوہ فلسطین اور مقاومتی تنظیموں کے پرچم بھی تھے۔ ایران اور فلسطین کے پرچموں کو باندھ کر یہ پیغام دیا جارہا تھا کہ شہادتوں سے ایران اور فلسطین ایک دوسرے سے دور ہونے کے بجائے پہلے زیادہ نزدیک ہوں گے۔

تشییع جنازہ کے شرکاء نوحہ خوانی اور سینہ زنی کررہے تھے۔ شہداء کی میتوں کو لے کر گاڑی آزادی اسکوائر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ دمشق میں شہید عماد مغنیہ، بغداد میں قاسم سلیمانی، بیروت میں صالح العاروری اور فواد شکر اور تہران میں اسماعیل ہنیہ کا خون بہایا گیا۔ اگر ان واقعات کے درمیان بہت فاصلہ تھا تاہم ایسا لگ رہا تھا کہ سب ایک ہی وقت میں شہید ہوگئے ہیں۔ تہران سے لے کر بغداد اور دمشق سے لے کر بیروت تک صہیونی شرپسند حکومت کے خلاف اتحاد قائم ہوگیا ہے جو اس کینسر کے پھوڑے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے جدوجہد میں مصروف ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button