امریکہ میں خانہ جنگی کا خطرہ
تحریر: سید رحیم نعمتی
امریکہ کے سکیورٹی اداروں فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور داخلہ سکیورٹی کی وزارت نے ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا ہے جس میں فیڈرل عہدیداران کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے بارے میں وارننگ جاری کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس مشترکہ بیانیے میں ذکر ہوا ہے، یہ وارننگ گذشتہ ہفتے ایف بی آئی اہلکاروں کی جانب سے فلوریڈا ریاست میں واقع سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ میں داخل ہو کر سرچ آپریشن انجام دینے کے بعد جاری کی گئی ہے۔ یاد رہے گذشتہ ہفتے ایف بی آئی نے مارالاگو نامی ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر کریک ڈاون کیا اور وہاں موجود اہم دستاویزات ضبط کر لی تھیں۔ اب امریکہ کے ان دو سکیورٹی اداروں نے حکومتی عہدیداروں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے جان کا خطرہ لاحق ہے۔
اسی طرح ایف بی آئی اور منسٹری آف انٹرنل سکیورٹی نے اپنے اس مشترکہ بیانیے میں ملکی سطح پر "خانہ جنگی” یا "مسلح انقلاب” رونما ہونے کے بارے میں بھی خبردار کیا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ملک کے دو اہم سکیورٹی حکومتی اداروں نے ایسی وارننگ جاری کی ہے جس میں ملکی سطح پر خانہ جنگی یا مسلح انقلاب رونما ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے امریکہ میں خانہ جنگی کا امکان ایسا موضوع تھا جو بعض قیاس آرائیوں اور تجزیات میں سامنے آتا تھا۔ یہاں سے اس مسئلے کی سنگینی اور شدت ظاہر ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطرہ اس حد تک سنجیدہ ہے کہ ملک کے دو اہم سکیورٹی ادارے وارننگ جاری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب امریکہ میں بحران کی شدت کو محض عوامی احتجاج اور مظاہروں کی حد تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا۔
یہ وارننگ ان بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں جاری کی گئی ہے جو گذشتہ چند دنوں سے امریکہ کے حکومتی عہدیداروں کو درپیش رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست فلوریڈا کے جس جج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ کی تلاشی کا حکم جاری کیا تھا اسے براہ راست قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس جج اور اس کے اہلخانہ کو بھیجے گئے ایک پیغام میں یوں کہا گیا تھا: "میں تمہاری گردن میں پھانسی کا پھندا دیکھ رہا ہوں۔” مزید برآں، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ ہفتے جمعرات کے دن ریاست اوہایو میں ایف بی آئی کے دفتر پر 42 سالہ شخص ریکی شیفر نے مسلح کاروائی کی ہے۔ سوشل میڈیا پر ریکی شیفر کے پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی ہے اور اس کا یہ حملہ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر ایف بی آئے کے چھاپے کا ہی ردعمل تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایف بی آئی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپہ اور سرچ آپریشن اب محض ایک عدالتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ گرم سیاسی ایشو میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت نہ صرف امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی اس مسئلے میں الجھ گئی ہیں بلکہ ملک کے اہم سکیورٹی ادارے بھی اس میں مداخلت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ملک کے اہم سکیورٹی ادارے اس بابت شدید پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے شدت پسند حامی یا جیالے انتہائی اقدام پر نہ اتر آئیں۔ ان کی یہ پریشانی دائیں بازو کے مسلح اور انتہاپسند گروہوں سے متعلق بہت حد تک حقیقت کے قریب بھی ہے۔ ان کی جانب سے شدت پسندی کا ایک نمونہ گذشتہ ہفتے اس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹرمپ کے مسلح حامیوں نے ان کی رہائش گاہ کے سامنے طاقت کا مظاہرہ کیا۔
اس مظاہرے میں شریک افراد نے ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ایف بی آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ لکھا ہوا تھا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر ملک کے سکیورٹی اداروں کے خلاف تند و تیز مہم بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے کہ ریاست کے خلاف شدت پسندی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں "نازی ڈیموکریٹس” اور "امریکہ کی ڈکٹیٹر حکومت” جیسے جملے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی ایک ویڈیو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک حامی ٹیکساس کے مخصوص لہجے میں بولتے ہوئے کہتا ہے: "مجھے بھیڑیں نہیں چاہئیں بلکہ ایسے بھیڑیے چاہئیں جو میرے ہمراہ اس کرپٹ حکومت، کرپٹ پولیس والوں اور ہر کرپٹ شخص کے خلاف جدوجہد کرے اور اپنے ملک کو ماضی کی شان و شوکت کی جانب واپس پلٹا سکے۔”
اس قسم کے ردعمل سے ان ماہرین کی رائے کی تصدیق ہوتی ہے جن کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ سے بازیاب ہونے والی اہم دستاویزات کا مسئلہ امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی معمولی جھگڑا نہیں ہے بلکہ امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں اور تاجر پیشہ سیاست دان کے درمیان بھرپور جنگ ہے۔ ایسے انٹیلی جنس ادارے جو خفیہ طور پر حکومت کے اجرائی اور سکیورٹی بازووں کے طور پر عمل کرتے ہیں اور ایسا تاجر پیشہ سیاست دان جو سیاست کے کھیل میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا خواہاں ہے۔ یہ تاثر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے سامنے آنے والے پیغامات میں بہت اچھی طرح قابل مشاہدہ ہے۔ لہذا عین ممکن ہے آگے چل کر یہ ٹکراو مزید شدت اختیار کر جائے اور یہی وہ خطرہ ہے جس کے بارے میں ایف بی آئی اور انٹرنل سکیورٹی منسٹری نے وارننگ جاری کی ہے۔