ایرانی صدر کی المناک موت
تحریر: آغا مسعود حسین
ابھی کچھ دن قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی تین دن کے دورے پر پاکستان آئے تھے، ان کا حکومت پاکستان کے علاوہ پاکستان کے عوام نے ان کا والہانہ استقبال کرکے یہ ثابت کردیا کہ ایران اور پاکستان نہ صرف ماضی کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ آئندہ بھی باہم مل کر دونوں جدید حالات کے تقاضوں کی روشنی میں ایک دوسرے کے ساتھ ہو شعبے میں مل کر کام کریں گے۔ لاہور میں اپنے مختصر قیام کے دوران انہوں نے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور ان کی اسلام سے محبت اور فارسی زبان سے ان کی غیر معمولی رغبت سے ایران میں ان کی فارسی شاعری کو بڑی قدر کی نگاہ سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ کراچی بھی میں تشریف لائے تھے اور یہاں کے معززین سے ملاقات کرکے پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کو مزید استحکام بخشا۔ کراچی یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔
اس طرح محترم رئیسی صاحب نے پاکستان میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران پاکستان اور ایران کے مابین کچھ غلط فہمیوں کو بھی دور کیا جو ان دونوں ملکوں میں دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں سے پیدا ہوگئی تھیں۔ پاکستان سے واپس ایران جاتے ہوئے انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’’دنیا کی کوئی طاقت ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں رخنہ نہیں ڈال سکتی ہے۔‘‘ اب کیونکہ ابراہیم رئیسی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے ہیں لیکن ان کی مسلمان ملکوں کے مابین خوشگوار تعلقات کے قیام کی خواہش اور کوشش نیز فلسطین کے مسئلے پر ان کی غیر مشروط حمایت ہرمسلمان کے دلوں کو قوت اور حوصلہ عطا کرتی رہے گی۔
تاہم جن حالات میں ان کی ناگہانی موت واقع ہوئی ہے اورجس طرح ان کا ہیلی کاپٹر زمین بوس ہوا ہے اس سے متعلق کئی سوالات پوری دنیا کے باشعور عوام کو یہ سوچنے پرمجبور کررہے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی گہری سازش معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جب وہ ڈیم کاافتتاح کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر پر سوار ہورہے تھے تو آذربائیجان کے صدر نے ان سے کہاتھا کہ ’’ہمارے تعلقات کچھ عناصر کو پسند نہیں آئیں گے‘‘۔ ان کا یہ جملہ دنیا کے بھر کے میڈیا پر وائرل ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ ان ممالک کی طرف تھا جو ایک عرصہ دراز سے ایران اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے تھے۔
ڈیم کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فلسطین اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ایران فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور صیہونی اسرائیل ریاست کی غزہ کے مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم کی مذمت کرتاہے اور بلکہ ان کی حمایت سے گریزاں نہیں ہوگا۔ 57 اسلامی ملکوں میں ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کے اندر جاکر ان کی تنصیبات پر حملہ کرکے صیہونی طاقت کے myth کو پاش پاش کردیا۔ یقیناً ایران کی اس کارروائی نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ واضح رہے کہ ایران نے اسرائیل پر اس لئے حملہ کیا تھا کہ اسرائیل نے شام میں واقع ایران کے سفارت خانے پر اچانک حملہ کرکے کئی فوجی کمانڈروں کو شہید کردیا تھا۔ اس طرح ایران نے جوابی کارروائی کرکے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو ایک گہری زک پہنچائی تھی جس کو صیہونی ریاست بھلائے نہیں بھول رہا ہے۔
صدر رئیسی کی المناک موت سے ایران کی آئندہ پالیسیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایران علاقائی ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ ان ممالک میں سامراج کی ریشہ دوانیوں کو روکا جاسکے۔ پاکستان کے عوام ابراہیم رئیسی کی المناک موت پر شدید افسردہ اور غمزدہ ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری ان کی آخری رسومات میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ خدا مرحوم ابراہیم رئیسی کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کے افراد نے مرحوم رئیسی کی المناک موت پر اپنے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے یہ عہد کیا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو ابراہیم رئیسی کی سوچ کے مطابق مزید آگے بڑھایا جائے تاکہ دوطرفہ تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوسکے۔