مضامینہفتہ کی اہم خبریں

اہل غزہ کی مظلومیت پر احتجاج کرتا مغربی جوان

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکہ سمیت یورپ کے مختلف ممالک میں انسانوں کی بڑی تعداد اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔ سچ پوچھیں تو پہلی بار یورپ اور امریکی اسٹبلشمنٹ کے سامنے ان کی عوام بالخصوص جوان کھڑے ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سے فلٹر لگانے کے باوجود اہل غزہ کی آواز دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچ رہی ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی اور یورپی ٹی وی چینلز پر یہ مکالمے ہو رہے ہیں کہ اس تحریک میں کونسا نعرہ لگنا چاہیئے اور کیسے لگنے چاہیئے؟ اس کا مطلب ہے کہ نعرے اپنا کام کر رہے ہیں اور بڑی قوت سے فلسطین دشمنوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔“from the river to the sea, Palestine will be free” دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہو گا، اس نعرے کو لے کر باقاعدہ قانون سازی کرکے اس پر پابندی لگانے کی بات ہو رہی ہے۔

عجیب منطق نکالی ہے کہ اس نعرے میں  یہودیوں کی نسل کشی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ پروپیگنڈا کرکے رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں معلوم ہونا چاہیئے کہ برطانیہ کی مداخلت اور اسرائیل کے قیام سے پہلے یہاں ایک ہی فلسطین تھا، جس میں مسیحی، یہودی اور مسلمان مل کر رہتے تھے۔ ویسے اب امریکی کو امریکی پیمانوں پر فلسطین کا سبق پڑھانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ مہدی حسن نے اپنے پروگرام میں ایک امریکن مصری کو بلایا ہوا تھا، اس نے بڑی زبردست بات کی کہ یہی نعرہ اسرائیل کا منصبوبہ بنانے والی بڑی پارٹی کا سلوگن تھا۔ اگر یہ دہشتگردی اور نسل کشی کا منصوبہ ہے تو یہ بہت پہلے صیہونی تحریک نے بنایا تھا اور اس پر عمل بھی کیا۔

کہیں فلسطینی پرچموں پر پابندی کی بات ہو رہی ہے، ویسے یہ طالب علم بھی عجیب جذبے کے مالک ہوتے ہیں۔ نتائج سے بے پرواہ ہوتے ہیں اور جس کو سچ سمجھیں، اس کے لیے لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ایک امریکی تجزیہ نگار کہہ رہا تھا کہ امریکہ میں سرکاری اور پرائیویٹ تمام گروہوں کے مفادات ہیں، اس لیے اگر وہ فلسطین کے حق میں بولیں گے تو وہ مفاد خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ طالب علم اس سے بچے ہوئے ہیں۔ اس لیے بے خطر ہو کر اہل غزہ کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، ویسے انہیں بھی ڈگریوں کے حوالے سے دھمکایا جاتا ہے، مگر وہ کسی کے دھمکانے میں  نہیں آرہے۔ امریکی ریاست کیلفورنیا کے مشہور پِٹزر کالج میں طالب علموں نے بڑا عجیب کام کیا، پہلے تو وہ کوشش کرتے رہے کہ ان کا کالج اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلیمی و تحقیقی تعلقات کو ختم کر دے۔

جب ایسا نہیں ہوسکا اور کالج کے پرنسپل نے ووٹنگ کے وقت ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ اگلے مرحلے میں طالب علموں نے کالج کے کانووکیشن میں یہ حکمت عملی اپنائی کہ ہر طالب علم جب سٹیج پر آتا ہے تو ایک خوبصورت فلسطینی پرچم کالج کے پرنسپل کو دے دیتا ہے۔ طالب علموں کی یہ ادائے معصومانہ اور احتجاج کا یہ پروقار طریقہ کہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں، دنیا بھر میں وائرل ہوچکا ہے۔ اس ویڈیو کو کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں اور لاکھوں لوگ اس پر کمنٹس کر رہے ہیں۔یہی نہیں ایک یونیورسٹی میں طالبات ٹرے میں تربوز کاٹ کر تقسیم کر رہی ہیں اور اسے میڈیا والوں کو دکھایا جا رہا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ تم فلسطین کے نام لینے پر بھی پابندی لگا دو، تب یہاں اہل فلسطین کے لیے آواز بلند کرنے کے راستے موجود ہیں۔

اپریل میں برطانیہ کی سپریم کورٹ کے چار سابق ججوں سمیت تقربیاً 600 وکلا نے برطانوی وزیراعظم کو ایک خط لکھا، جس میں نسل کشی کے ممکنہ خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکی صدر جیوبائیڈن کی لیگل ٹیم کے بیس وکلاء نے اسے خط لکھا کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اس لیے اسلحہ دینے کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ اسی طرح خود امریکی حکومت کے سو سے زائد آفیشل اس جنگ کے خلاف احتجاج کرچکے ہیں۔ جیوبائیڈن کی ٹیم کے کافی لوگ صرف اہل فلسطین پر ہونے والے مظالم کو نہ روکنے کی وجہ سے چھوڑ چکے ہیں۔

جواں کہاں رکتے ہیں؟ کچھ دنوں سے ایک مہم سوشل میڈیا پر شروع کی گئی ہے، جس میں ان تمام بڑی نام نہاد سیلبرٹیز کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہوں نے اہل غزہ کی نسل کشی کی مذمت نہیں کی گئی یا اسے روکنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اب لوگ ان کی فہرستیں بھی بھیج رہے ہیں، ان فہرستوں میں مختلف شخصیات شامل تھیں، جن میں کم کارڈیشن، ٹیلر سوئفٹ، بیونسے، جسٹن بیبر، زندیا، کین ویسٹ، نلی سائرس اور سیلنا گومز کے نام تقریباً تمام فہرستوں میں شامل تھے۔ یہ عام لوگ ہیں اور صرف اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ان شخصیات نے نسل کشی پر کوئی بات نہیں کی، اس لیے انہیں بلاک یا ان فالو کر دو۔

بین الاقوامی ادارے اگرچہ امریکی اور مغربی استعمار کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن چکے ہیں، مگر پھر بھی وہاں سے کبھی کبھی مظلوموں کے حق میں  آوازیں اٹھ ہی جاتی ہیں۔ جنوبی افریقہ اسرائیل کو عدالت کے کٹہرے میں لے آیا تھا۔ ابھی جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ جس انداز سے اسرائیل نے جنگ کو جاری رکھا، وہ "قدرتی طور پر نسل کشی” کے زمرمے میں آتا ہے، کیونکہ جنوبی افریقہ کے کیس کے مطابق اسرائیل "غزہ میں فلسطینیوں کو تباہ کرنے” کا ارادہ رکھتا ہے۔ سابقہ فیصلے کے اس پیرا گراف کو کافی توجہ ملی، اس میں کہا گیا کہ "عدالت کے مطابق، حقائق اور حالات یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے جن حقوق کا دعویٰ کیا گیا اور جن کے تحفظ کی وہ کوشش کر رہا ہے، معقول ہیں۔ اگر ججز انسانی ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں تو اسرائیل پر نسل کشی ثابت ہوچکی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button