مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

شام میں کیا ہو رہا ہے؟ چشم کشاء حقائق

ان چند دنوں میں شام جب سب حلب اور حما میں دہشت گردوں کی تیز رفتار پیش قدمی سے حیران تھے، موثوق ذرائع سے میدان کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ کے سامنے جو متن ہے وہ اسی تلاش کا نتیجہ ہے۔ امید ہے کہ مفید ہوگا۔

شیعہ نیوز: بلاشبہ حالیہ واقعات کے لیے سب سے بڑا مجرم شام کی فاسد اور ناکارہ فوج کو قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ مدافع حرم رزمندگان کے پاس دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران شام کی بعثی فوج کے تلخ تجربات ہیں۔

دہشت گردوں کو لائنیں سونپنا، جاسوسوں کا نفوذ اور یہاں تک کہ اخلاقی اور عقیدتی فساد۔ یھی وجه ہے کہ اس طرح کی فوج ایک تکفیری مذھبی قوت کے خلاف جو کہ غلط عقیدے کے ساتھ ھی صحیح، جو جنگ لڑ رھی ھے اور قتل کر رہی ہے، کچھ نہیں کر سکتی اور شام کی عرب فوج کے حلب اور حما وغیرہ سے بار بار پیچھے ہٹنے کی اصلی وجہ یہی ہے۔

یہ کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بشار الاسد فوج کی تنخواہوں میں 50 فیصد کا اضافہ کا حکم دے رہے ہیں، یہ دراصل ان فوجیوں کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہے اور یہ بات واضح ہے کہ یہ مالی پیشکشیں بھی کامیاب نہیں ہوگی۔

یقینا کچھ قومی غیرت والے کمانڈروں اور افواج کو جیسے کہ جنرل سہیل حسن کو اس کلیت سے مستثنی کرنا چاہیے۔

ایران اور مزاحمتی محاذ اس معاملے میں بالکل حیران نہیں ہوئے۔ اطلاعاتی اندازے تین ماہ پہلے سے واضح طور پر بتا رہے تھے کہ ادلب میں مستقر دہشت گرد حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم جانتے تھے کہ سوچی اور آستانہ میں ترکی کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اردگان اپنے مقاصد کے لیے تکفیریوں کو استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شام میں حتمی فیصلہ گیری ایران کے پاس نہیں ہے۔ لہذا ایران کے بارے بار خبردار کرنے پر بھی شامی حکومت کا کوئی توجہ نہ دینا، اس صورتحال میں ایک اھم عنصر ھے۔

آئیے اس مسئلے کو کچھ زیادہ گہرائی سے دیکھتے ہیں۔ شام کی آبادی کا تقریباً 75 فیصد سنی، 10 فیصد مسیحی اور صرف 13 فیصد شیعہ (علوی اور اسماعیلی) ہے۔ حکومت میں سنیوں کو نہ لانے میں شامی حزب بعث کی حکومت اور حاکم علویوں میں وسیع پیمانے پر کرپشن نے 2011 کے بحران اور موجودہ واقعات کی بنیاد رکھی۔ (یقیناً ہم جانتے ہیں کہ حافظ اسد کے دور میں علویوں کو اوپر لانا دراصل دوسری وجوہات کی بنا پر تھا لیکن فی الحال اس موضوع کو بیان کرنے کا موقع نہیں ہے) ایک ایسے معاشرے میں جہاں اکثریت سنی ہے اور جو کہ قدیم زمانے سے اسلام اموی اورشیعہ مخالفت کے ساتھ رھے ھیں، موجودہ صورتحال میں تکفیری عناصر کو سب سے زیادہ سھولت فراہم کرتی ہے تاکہ وہ موجودہ کمزوریوں کو دیکھتے ھویے مزید بحران پیدا کریں۔

ایران اس مسئلے کو صحیح طور پر سمجھتے ہوئے اچھی طرح جانتا تھا کہ شام کو صاف کرنا – اور شاید یہ کہنا بھی درست ہو کہ ادلب کو آزاد کرنا – یہ کام زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوگا اور بنیادی تبدیلیوں کو دستور کار میں لانا ہوگا ورنہ ہر وقت ورق الٹ جانے کا امکان موجود ہے۔

شہید حاج قاسم سلیمانی نے تکفیری عناصر سے شام کے زیادہ تر علاقے کو آزاد کرانے کے بعد، بشار الاسد کو حکومت کی ساخت میں اصلاحات کرنے کا مشورہ دیا اور خود بھی اعتدال پسند سنی عناصر کے ساتھ مذاکرات کرکے صورتحال کو اعتدال پسند بنانے کی کوشش کی اور اس ضمن میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ لیکن بدقسمتی سے شامی حکومت (اور یقیناً ایران میں کچھ اصلاح طلب حکومتوں کی جانب سے) اس صورتحال سے نمٹنے کے موقع کو ضايع کیا گیا اور یوں ہاتھ آئی فرصت کا بہت بڑا حصہ ضائع کردینا کہا جا سکتا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے میدان میں فتح سے فائدہ اٹھانے کا موقع ضائع کر دیا اور امارات اور ترکی جیسے ممالک ہماری غیر موجودگی میں میدان مار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے شام کی سرحدوں کے قریب فوجی نفری میں اضافہ کر دیا، صیہونی ذرائع

یقینا صہیونیستی رژیم، امریکہ اور ترکی – ہر ایک اپنی اپنے مفادات کے تناظر میں– اس موجودہ فتنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن تجربہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمیں دشمن کی حرکات سے زیادہ اپنے ہی صفوں میں ہونے والی غلطیوں سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔
اس کی ایک واضح مثال شام میں سپاه پاسداران اور حزب اللہ کے فوجی مشیروں کے متعدد قتل ہیں جن میں شامی بعث پارٹی کے اندرونی عناصر کے ہاتھ ہونے کے آثار ملتے ہیں۔

اس نفوذ کو ہرگز ہلکی بات نہیں سمجھنا چاہیے۔ دفاع مقدس کے دوران جب ایران کے وزیر نے حافظ اسد سے میزائل کی درخواست کی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو رخصت کرنے کے بعد کہا: "کیا آپ نہیں جانتے کہ شام جاسوسوں سے بھرا ہوا ہے کہ آپ اس طرح کی درخواستیں کھلے عام کر رہے ہیں؟” یقینا "معلومات کی تجارت” کا مسئلہ لبنان اور یہاں تک کہ اسرائیل میں بھی مختلف صورتوں میں موجود ہے۔

ایران نے شام کے نئے فتنے میں کیوں فوری میدان میں قدم نہیں رکھا؟

مختصر یہ کہ شامی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایران اور مزاحمتی محاذ کے مجاھدین ان کی غلطیوں کی سزا نہیں بھگت سکتے۔ حشد الشعبی عراق کے سربراہ فالح الفیاض کا شام میں مداخلت نہ کرنے کے موقف کو اسی تناظر میں سمجھنا چاہیے۔

میدان جنگ اور فوجی لحاظ سے، جو علاقے تیزی سے فتح کیے جاتے ہیں وہ اتنی ہی تیزی سے دوبارہ حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کے علاوہ تحریر الشام (پرانے نام سے النصرة) کے عناصر نے اس دوران جو پیش قدمی کی ہے وہ تیز رفتار تو ہے لیکن دفاعی لائنیں مضبوط نہیں ہیں۔ لشکر 25 شام اور روسی واگنر فورسز کا حماہ اور مغربی حلب کے بلند مقامات پر ہیلی کاپٹر سے اترنا اس بات کا اشارہ ہے کہ تکفیریوں کی پشت کمزور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صورتحال کو درست کرنے کا موقع موجود ہے لیکن شام کو اس ضمن میں ایران کی نصیحتوں اور مشوروں کو قبول کرنا ہوگا۔

یہ درست ہے کہ شام ہمارے لیے حزب اللہ سے رابطے کا پل ہے لیکن اس بات کو شامی بعث پارٹی کے فیصلوں میں غلط حساب کتاب کا باعث نہیں بننا چاہیے۔

بدقسمتی سے یا تو آخری زمانے کے بارے میں تحلیل کی جا رہی ہیں (جن کے مطابق بنیادی طور پر شام کو سقوط کرنے اور سفیانی کے ظہور کی اجازت دینی چاہیے!) یا پھر سب کچھ ایران اور صہیونیستی رژیم کے درمیان کشمکش تک محدود کر دیا جاتا ہے اور ہر واقعے پر "غیر فوجی پسپائی اور الٰہی عذاب (!)” کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

کیا کیا جائے کہ کچھ لوگ درست تحلیل کے بجائے آسان ترین تحلیل کی تلاش میں رہتے ہیں۔
دشمن اور مغربی ممالک کے حامی داخلی میڈیا کے پروپیگنڈے کا ذکر الگ ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ شامی میدان جنگ پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے اور فیصلے کرتے وقت احتیاط برتنی چاہیے۔ اب مایوسی کی آیت پڑھنے اور سطحی تجزیے کرنے کا وقت نہیں ہے۔ نہ تو ہم شامیوں کی ہر کج روی کو برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں بالکل چھوڑ سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور اس کے دانشمند اور دوراندیش رہبر اور مزاحمتی محاذ کا مجموعی طور پر میدان پر نظر ہے اور اس پر عبور حاصل ہے۔ یہ علاقہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اتنا خرچ نہیں کیا کہ آج اسے آسان طریقے سے چھوڑ دیں۔ آنے والے دنوں میں ایران یہ ثابت کرے گا کہ مزاحمتی محور کو برقرار رکھنے میں اس کا ارادہ کتنا سنجیدہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button