محمد مرسی کی رحلت سے زیادہ المناک حقیقت!
تحریر: محمد سلمان مہدی
مصر کے سابق صدر محمد مرسی نے کمرہ عدالت میں ایک دردناک موت کا ذائقہ چکھا۔ لیکن انکی موت سے زیادہ المناک وہ حقیقت ہے جسے اگر مرسی خود بھی سمجھ جاتے تو نہ صرف یہ کہ ان کی صدارت بھی بچ جاتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مصر کا انقلاب ناکام نہ ہوتا۔ غمزدہ کرنے والی ایسی موت کے وقت بحیثیت مسلمان ہماری ساری توجہ تعزیت پر ہوتی ہے اور ہماری روایات یہی ہیں کہ ایسے وقت میں مرنے والے کی زندگی کے مثبت پہلوؤں کا تذکرہ کرکے دعائے مغفرت کی جائے۔ البتہ ان روایات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ چند اہم نکات کی طرف توجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے،کیونکہ محمد مرسی عام شخصیت نہ تھے، وہ عصر حاضر میں ایک اہم اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے عرب مسلمان اکثریتی ملک مصر میں انقلاب کی تاریخ کا اہم کردار تھے، یہی وہ پہلو ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تحریر پیش کرنا ضروری خیال کیا ہے۔
محمد مرسی کا مختصر زندگی نامہ کچھ یوں ہے کہ وہ 20 اگست 1950ء یا 1951ء کو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹا پر واقع مصر کے الشرقیہ صوبے کے العدوۃ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1975ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے انجینیئرنگ میٹالرجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ امریکا گئے، جہاں 1982ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے انجینیئرنگ کے شعبے میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ اس کے بعد 1985ء تک وہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی نارتھرج میں انجینیئرنگ پڑھاتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے اسپس شٹل انجن پروگرام کی ڈیولپمنٹ پر امریکی خلائی ادارے ناسا کے لئے بھی خدمات انجام دیں۔
1985ء میں وہ اپنے وطن لوٹے، جہاں اپنے ہی صوبے الشرقیہ کے صدر مقام زقازیق کی انجینئرنگ یونیورسٹی (جامعۃ الزقازیق) میں پروفیسر آف انجینیئرنگ بھی مقرر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سال 2010ء تک وہ اس عہدے پر کام کرتے رہے، البتہ سال 2000ء میں آزاد حیثیت سے وہ مصر کی قومی اسمبلی مجلس الشعب کے رکن بھی مقرر ہوئے تھے۔ اخوان المسلمون پر پابندی تھی، اس لئے آزاد حیثیت میں انتخابی معرکہ میں شرکت کی۔ 2005ء میں بھی کالعدم اخوان المسلمون نے آزاد امیدوار کھڑے کئے تھے اور مجلس الشعب کی کل نشستوں میں بیس فیصد نمائندگی حاصل کر لی تھی۔ یہ الگ بات کہ اس وقت صدر حسنی مبارک نے اخوان مخالف اقدامات کرکے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھی۔
بعدازاں قید میں جیل کے اسٹاف اور معالج سے بات چیت کے دوران حسنی مبارک نے کہا کہ امریکا نے سال 2005ء میں ان کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی تھی اور وہ کہتے تھے کہ انقلاب مصر کو امریکا نے 2005ء میں شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا محسوس بھی کرتے تھے اور امریکیوں نے ان سے ایسا کہا بھی تھا تو انہوں نے جواب میں امریکا کو مطلع کر دیا تھا کہ 2011ء میں وہ اقتدار چھوڑ دیں گے۔ البتہ وہ اپنے بیٹے جمال کو اس عہدے پر دیکھنا چاہتے تھے جبکہ امریکا ان کی خواہش سے متفق نہیں تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ محمد مرسی کا تعلق حزب الحریۃ و العدالۃ یعنی حریت و عدالت پارٹی سے تھا، جو مصر کے قانون کے مطابق سال 2011ء میں رجسٹرڈ کروائی گئی تھی۔ اس جماعت کے نائب صدر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کی جماعت میں چالیس فیصد اراکین اخوان المسلمون سے تھے۔ رجسٹریشن کی درخواست 18 مئی 2011ء کو دی گئی۔ یاد رہے کہ مصر کا انقلاب 25 جنوری کو شروع ہوا تھا اور 11 فروری 2011ء کو نائب صدر عمر سلیمان نے اعلان کیا تھا کہ حسنی مبارک مستعفی ہوچکے ہیں اور اقتدار مسلح افواج کی سپریم کاؤنسل کے حوالے کر دیا ہے۔
حریت و عدالت جماعت کی جانب سے اخوان المسلمون کے پرانے رہنما اور مالی مدد فراہم کرنے میں پیش پیش خیرات الشاطر کو صدارتی امیدوار بنانے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ان پر پابندی لگا دی گئی تھی، کیونکہ ماضی میں انہیں کسی جرم میں سزا ہوچکی تھی۔ یوں محمد مرسی کا نام نامی صدارتی امیدوار کے لئے سامنے آیا۔ مصر میں قومی اسمبلی کے لئے دو مرتبہ انتخابات ہونے کے بعد صدارتی انتخابات بھی دو مرحلوں میں ہوا تھا اور حریت و عدالت جماعت التحالف الدیمقراطی یعنی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔ یہ اتحاد شروع میں پندرہ جماعتوں پر مشتمل تھا، جو بعد ازاں دس گیارہ جماعتوں تک محدود ہوگیا۔ اس اتحاد کو چھوڑنے والی جماعتوں میں مذہبی جماعت النور بھی شامل تھی۔
یہ سارا پس منظر اس لئے بیان کیا گیا کہ مصر کے انقلاب کی ناکامی کی وجوہات کے پس پردہ عوامل سے آگاہی ہوسکے۔ مصر کے انتخابات میں امریکا ہی کے مصری نژاد شہری ڈاکٹر محمد البرادعی بھی کودے تھے۔ وہ بین الاقوامی ادارہ برائے ایٹمی توانائی کے سربراہ بھی رہ چکے تھے۔ مصر میں انقلابیوں نے انقلابی مراحل میں اقتدار کے مراکز پر کنٹرول کرنے کی بجائے حسنی مبارک کے جانشینوں سے مذاکرات کرکے آگے کے مراحل انجام دیئے۔ جیسا ان جانشینوں نے کہا، انہوں نے مانا۔ خیرات الشاطر پر پابندی انہوں نے قبول کرلی۔ اقتدار و اختیار حسنی مبارک کے جانشینوں کے ہاتھ میں ہی رہا۔ اخوان المسلمون نے کمپرومائزنگ رویہ اختیار کیا۔
انتخابات کے نتیجے میں محمد مرسی صدر بن گئے، لیکن مصر کی خارجہ پالیسی میں کوئی انقلابی جوہری تبدیلی نہ لاسکے۔ اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے میں وو ناکام رہے۔ امریکی حکومت کی ڈکٹیشن مصر کے فیصلوں میں نمایاں رہی۔ صدر باراک اوبامہ، ہیلری کلنٹن اور جون کیری سے تعلقات پر انحصار کیا جاتا رہا جبکہ امریکا کے اعلانیہ اتحادی سعودی عرب کے بادشاہ پر اندھا اعتماد کرنے لگے۔ حالانکہ اس وقت کے سعودی بادشاہ عبداللہ حسنی مبارک کے اقتدار کے حامی تھے۔ محمد مرسی نے امریکی و سعودی حکومتوں پر اعتماد کیا، جو کہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ ان کی حکومت کو انقلابی اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔
مصر کے عوام نے اسرائیلی سفارتخانے پر دھاوا بولا تو انہیں سزا دی گئی۔ ایک تو یہ کہ اخوان المسلمون نے اسرائیل کے خلاف عوامی احتجاج میں اس وقت شرکت بھی نہیں کی جبکہ محمد مرسی کے صدر بننے کے بعد ان مظاہرین کو سزا بھی سنائی گئی۔ کہاں تو وہ 2010ء میں القدس ٹی وی کو انٹرویو میں یہودیوں کے لئے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کر رہے تھے اور کہاں صدر بننے کے بعد ان کی حکومت نے عاطف سالم کو اسرائیل میں سفیر مقرر کر دیا، جس نے اس وقت کے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو اسناد پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ امن کے پیغام کے ساتھ آئے ہیں اور اس پیغام کے ساتھ کہ وہ یعنی مرسی کی صدارت کے تحت مصر واقعی اسرائیل کے ساتھ باہمی اعتماد اور شفافیت کے لئے کام کر رہے ہیں۔
صدر مرسی اور اخوان المسلمون کے سامنے راہ روشن تھی۔ انقلاب مصر اسلامی بیداری کا نتیجہ تھا۔ مصر میں ہم سب خالد ہیں، کے نعروں نے یہ ماحول بنایا تھا۔ کون خالد، جی وہی خالد اسلامبولی جس کی غیرت نے گوارہ نہ کیا کہ اس کا مادر وطن مصر غاصب و جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرلے، اس نے صدر انور سادات کو محض اس لئے قتل کر دیا کہ مصر کے صدر نے اسرائیل سے امن معاہدہ کر لیا، اسرائیل نامی جعلی وجود کو قانونی ریاست تسلیم کر لیا۔ انہیں وہ نعرہ یاد رکھنا چاہیئے تھا کہ جب انقلاب کے آغاز کے ایک سال بعد بھی اقتدار پر فوجی افسران مسلط تھے تو کسی انقلابی نے قاہرہ میں ان کے لئے یہ نعرہ بھی لگایا تھا کہ ”تم نے انقلاب کو بیچ دیا۔ “ کہا جا سکتا ہے کہ مرسی کو اتنا وقت نہیں ملا!
کیا انقلاب وقت مانگتا ہے، یا آناً فاناً پرانا نظام دفن کر دیتا ہے؟ انقلاب بارگیننگ نہیں کرتا۔ انقلاب ایک سو اسی درجہ مختلف حالت کر دینے والی تبدیلی کا نام ہے۔ ایران کے انقلابیوں کو کتنا وقت لگا تھا اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں؟ اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے، اس کے سفارتخانے کو فلسطینی سفارتخانے میں تبدیل کرنے میں اور امریکی سازشوں کے مرکز کو بے نقاب کرنے میں؟! ایرانیوں کے پاس تو اس وقت کوئی ماڈل بھی نہیں تھا، مرسی اور اخوان کے پاس کم از کم ایران کے اسلامی انقلاب کی مثال تو تھی۔ دنیا کا کوئی بھی خالص اسلامی انقلابی امریکا اور اس کے اتحادیوں پر کیسے اعتماد کرسکتا ہے؟ وہ فلسطین کو غصب کرنے والی نسل پرست زایونسٹ حکومت کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے؟!
یقیناً محمد مرسی کی قید و بند میں ملزم کی حیثیت سے موت واقع ہونا ہم سب کے لئے افسوسناک خبر ہے۔ لیکن ان پر جن الزامات میں مقدمہ چلایا گیا، ان میں یہ الزام نہیں تھا کہ انہوں نے اسرائیل سے معاہدہ ختم کر دیا تھا، سفارتخانہ بند کرکے روابط منقطع کر دیئے تھے!! البتہ ان پر ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے قطر کو ریاستی راز افشاء کر دیئے تھے، حالانکہ قطر کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ہیں اور اس کے حکمران اسرائیل حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، جبکہ حماس کو بھی اسرائیل سے جنگ بندی کرنے کے لئے درمیان میں ضامن بنتے رہے ہیں۔ قطر بھی امریکی اتحادی ہی ہے اور مرسی صاحب پر یہ الزام لگانے والے بھی امریکی اتحاد کا اٹوٹ انگ ہیں! یہ وہ المناک حقیقت ہے جس کا ادراک اگر مرسی صاحب کر لیتے تو نہ تو مصر کے انقلاب کا اور نہ ہی ان کا اپنا یہ انجام ہوتا!!