مضامین

آپریشن ضرب عضب سے عسکریت پسندی کمزور

15 ارب روپے (15 کروڑ ڈالر) کی لاگت سے شروع کیے جانے والے آپریشن ضرب عضب کا واحد مقصد شمالی وزیرستان میں ہر طرح کے عسکریت پسندوں کا صفایا کرنا تھا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم باجوہ نے 27 جون کو کہا تھا کہ فوج کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروپوں یا حقانی نیٹ ورک کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام دہشت گرد گروپوں کا صفایا کیا جائے گا۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو اس آپریشن میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ فوج کی کارروائی کے دوران 6 سو سے زائد عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں اور ان کے ایک سو سے زائد خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں۔ اگر شمالی وزیرستان میں شورش پسندوں کی تعداد کو مد نظر رکھا جائے تو وہ ہزاروں میں بنتی ہے اور اس کے مقابلے میں مرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے مگر اس سے بھی فوج کا شورش پسندوں کی بیخ کنی کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔

تجزیہ کار اور قبائلی امور کے ماہر ایمل خٹک نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ عسکریت پسندوں نے اپنی تعداد کے مقابلے میں نسبتاً کم ہلاکتوں کا سامنا کیا ہو گا مگر ان کے خفیہ ٹھکانوں، تربیتی مراکز اور کمان و کنٹرول نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔

تعداد سے کہیں زیادہ اہم چیز آپریشن کے بارے میں عوامی شعور اور قبائلیوں کی جانب سے اپنے آبائی علاقے کو عسکریت پسندوں سے صاف کرنے کے حکومتی عزم کی تعریف ہے۔

میر علی کے نواحی علاقے گنڈی خیل کے رہائشی رزاق داوڑ نے آپریشن ضرب عضب کی وسیع حمایت کی ایک وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ آپریشن تمام گروپوں کے خلاف ہے کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے حقانی ہوں یا گل بہادر یا افغان یا عرب، ازبک یا تاجک یا کوئی بھی گروپ، عوام کے لیے وہ سب ایک جیسے ہی ظالم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہم سیکورٹی فورسز کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جائے اور انہیں ہمارے علاقے سے نکال دیا جائے۔

عسکریت پسندوں کا فرار
عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے چیلنجوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس قسم کے آپریشن کی تیاریاں سب کو نظر آ سکتی ہیں۔

ایک سینئر عسکری تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیر اسحاق نے کہا کہ اس طرح کے بڑے آپریشن قدرتی طور پر زیادہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کے لیے بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی، فوجی ساز و سامان کی نقل و حرکت اور اہم مقامات پر گولہ بارود ذخیرہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس ناگزیر ہلچل کے باعث عسکریت پسندوں کو متاثرہ علاقوں سے فرار ہونے کا انتباہ مل جاتا ہے۔ اور آپریشن ضرب عضب کو اس سے استثناء حاصل نہیں۔

سابق فوجی کمانڈر اسحاق نے کہا کہ مارے جانے والے سینکڑوں عسکریت پسندوں میں شاذ ہی کوئی معروف کمانڈر شامل ہے کیونکہ ان کی اکثریت چھاپے شروع ہونے سے قبل ہی علاقے سے محفوظ مقامات کو نقل مکانی کر گئی تھی۔

اگر زندہ بچنے والے عسکریت پسند بعد میں واپس بھی لوٹ آئیں تو انہیں منظم حملے کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ ضرب عضب کے دوران ان کے نیٹ ورک اور اہم صلاحیتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

اسحاق نے کہا کہ عسکریت پسند فاٹا میں شاید اب بھی چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں سرگرم ہوں مگر اب ان کے پاس بڑے ٹھکانوں کی سہولت موجود نہیں ہے جو انہیں وزیرستان میں حاصل تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آپریشن میں شورش پسندوں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے اور اب تحریک طالبان پاکستان یا حقانی نیٹ ورک کے لیے اپنے کمان و کنٹرول نظام کی تعمیر نو تقریباً نا ممکن ہو گی۔

کیا وہ دوبارہ منظم ہو جائیں گے؟
تاہم ایک خدشہ لاحق ہے اور وہ یہ کہ عسکریت پسند دوبارہ نمودار ہو کر کہیں اور تباہ کن کارروائیاں کریں گے۔

بعض افراد کا کہنا ہے کہ آپریشن میں ایک کوتاہی یہ سرزد ہوئی کہ پاکستان نے عسکریت پسندوں کو ایک جگہ محدود کرنے اور انہیں فرار ہونے سے روکنے کے لیے مزید اقدامات نہیں اٹھائے۔

افغان صحافی رحمت اللہ زیارمل نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بہتر انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشن کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گرفتاری یا موت سے بچنے کی خاطر بعض دہشت گرد پہاڑوں میں خفیہ ٹھکانوں کو فرار ہو گئے ہیں۔ مکمل حملہ کرنے سے قبل فرار کے راستوں کو مسدود کرنے کی ضرورت تھی۔

اسحاق نے کہا کہ دہشت گردوں کے فرار کو مکمل طور پر روکنا تقریباً نا ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بعض عسکریت پسند فرار ہو کر محفوظ مقامات کو چلے بھی گئے ہیں تو فوج نے ان کے نیٹ ورک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے اسے شورش پسندوں کی بزدلی کی ایک اور علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ چھاپہ مار جنگ میں یہ حکمت عملی عام ہے کہ جب ریاست آپریشن کرتی ہے تو شورش پسند فرار ہو جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button