پاکستان میں شیعہ اور سنی پر ایک ہی گروہ حملہ آور ہے: حافظ حسین احمد
جمیعت علمائے اسلام کے رہنما اور ملی یکجہتی کونسل کے جنرل سیکریٹری حافظ حسین احمدنے کہا ہے کہ شیعہ اور سنی پر ایک ہی گروہ حملہ آور ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر لاشیں کون گرا رہا ہے، اور چیف جسٹس نے تو یہ بھی کہا ہے کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کو غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے، جو اس قتل و غارت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔تو حافظ حسین احمدنے کہا کہ غیر ملکی کون۔؟؟ کون فنڈنگ کر رہا ہے۔؟ کیا آپ کی مراد بھارت ہے، جس کی دوستی کا دم بھرتے ہو، افغانستان ہے جس کے لیے اپنے ملک کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ میرے بھائی! جو آپ کے ملک کو توڑ رہا ہے، آپ اس کے لیے نیٹو سپلائی بحال کر رہے ہو۔ وہ امریکہ جو آپ کے ملک کو توڑنے کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ پارلیمنٹ کے اندر آکر کہتا ہے کہ ہمارے ملک کو فلاں فلاں توڑنے والے ہیں، تو جو توڑنے والے ہوتے ہیں وہ دشمن ہوتے ہیں، نہ کہ دوست۔
ایک سوال کہ مولانا حسن جان سمیت ان کی تنظیم کی اہم شخصیات کو مارا گیا؟ کس کا ہاتھ ملوث دیکھتے ہیں۔تو انہوں نے کہا کہ یہ بلیک واٹر ہے اور سارے حملے ایک ہی جانب سے ہو رہے ہیں، کیا یہ اسلام آباد میں پکڑے نہیں گئے۔؟ کیا طالبان کے حلیے میں وہ پھر نہیں رہے تھے، کیا پولیس انہیں گرفتار کرکے تھانے نہیں لے گئی تھی؟ کیا میڈیا نے اسے نہیں دکھایا۔؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس کو قبول کیا اور بعد ازاں اس کو رہا کر دیا اور آئی جی نے کہا کہ میرا اختیار ہے۔ کیا ریمنڈ ڈیوس نے قتل عام نہیں کیا، کیا اس کو رہا نہیں کرایا گیا۔ جب ہم نے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تو بجائے وہ ہم سے معافی مانگتے، ہم نے ان سے معافی مانگ لی۔ کیا ہیلری کلنٹن نے نہیں کہا کہ دونوں ممالک کی جانب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر فنڈنگ باہر سے ہو رہی ہے اور 56 ایکٹر (امریکی سفارتخانہ کیلئے دی گئی اراضی) اسلام آباد میں امریکہ کے لیے نو منزلہ عمارت کے لیے جگہ دی جاتی ہے اور جس میں حسین حقانی بھی ملوث ہے، اس وقت بلیک واٹر بھی یہاں موجود تھی، اب بھی موجود ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہی نشانے اور ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہے۔ کبھی اس کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جاتا ہے، کبھی اس کو علیحدگی پسندی کا رنگ دیا جاتا ہے۔
ملک میں جاری فرقہ واریت میں کون لوگ اور گروہ ملوث دیکھتے ہیں، اور ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔؟ اس سوال کے جواب میں جے یو آ ئی اور ملی یکجہتی کونسل کے رہنما حافظ حسین احمدنے کہا کہ اس ایشو پر میرا ایک سوال ہے کہ فرقہ واریت میں اپنا ہے یا پرایا ہے، اْسے قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ آپ کراچی میں کوئی ایک جگہ تو دیکھائیں، جہاں درجنوں کے حساب سے لوگ قتل نہ کیے گئے ہوں۔ وہاں وفاقی حکومت نہیں، صوبائی حکومت نہیں، تینوں حکومتیں ایک دوسرے کو قاتل کہتی ہیں اور تینوں سچ کہتے ہیں۔ اسلام آباد میں پوش سیکٹر ہیں جس میں بڑے بڑے بنگلے ہیں، کیا وہاں سڑک بند نہیں کی گئی، کیا وہاں پر ڈبل دیوار کھڑی نہیں کی گئی؟ یہاں پر کون رہ رہے ہیں، جو سفارتکار نہیں اور سفارتی ایریا میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے ہزاروں کی تعداد میں بنگلے دیئے گئے اور کئی کئی سال کے کرایے ایڈوانس میں دیئے گئے۔ یہ کون لوگ ہیں اور کس کے کہنے پر یہ یہاں قیام پذیر ہیں اور ان کا یہاں پر کیا مقصد ہے؟ کیا یہ لوگ آپ کے پابند ہیں یا کیا سفارتکاری کے یہی آداب ہیں۔؟ اب پھر بھی پوچھا جائے کہ فرقہ واریت اور قتل میں کون لوگ ملوث ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ کراچی میں تھا، شاہ فیصل میں جامعہ فاروقیہ ہے اور اس کے ساتھ ہی امام بارگاہ ہے۔ جامعہ فاروقیہ کی جانب سے ایک ٹیکسی آتی ہے اور اس میں سوار افراد جامعہ فاروقیہ پر فائرنگ کرتے ہیں، کچھ آدمی زخمی ہوتے ہیں اور گرتے ہیں، وہاں پر جو لڑکے کھڑے تھے، انہوں نے اس گاڑی کا نمبر نوٹ کیا۔ ٹھیک دس منٹ بعد امام بارگاہ پر فائرنگ ہوتی ہے، کچھ افراد زخمی ہوتے ہیں اور وہ بھی ٹیکسی کا نمبر نوٹ کرتے ہیں۔ دونوں جانب سے افراد تھانے پہنچے ہیں اور رپورٹ درج کراتے ہیں تو دونوں جانب سے ایک ہی ٹیکسی نمبر پیش کیا جاتا ہے۔یعنی ایک ہی ٹیکسی سے سنی مدرسے پر فائر ہوا اور ٹھیک دس منٹ بعد اسی ٹیکسی سے امام بارگاہ پر فائر ہو رہا ہے، تاکہ امام بارگاہ والے لوگ سمجھیں کہ ان پر سنیوں نے حملہ کیا ہے اور مدرسے والے لوگ سمجھیں کہ ان پر شیعوں نے حملہ کیا ہے۔ دونوں نے آکر رپورٹ درج کرائی کہ امام بارگاہ والوں نے مدرسے پر حملہ کیا اور امام بارگاہ والوں نے رپورٹ درج کرائی کہ مدرسے والوں نے امام بارگاہ پر حملہ کیا۔ جب دیکھا کہ جس ٹیکسی سے فائرنگ ہوئی وہ ایک ہی نمبر کی ٹیکسی ہے اور ایک ہی ٹیکسی سے امام بارگاہ اور مدرسہ پر فائرنگ ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ کوئی اور ہی کہانی ہے۔
منبع: اسلام ٹائمز