دہشتگردی اور غافل حکمران (خصوصی کالم)
تحریر: تصور حسین شہزاد
سول اور عسکری قیادت نے شمالی اور جنوبی وزیرستان سے شدت پسندوں کا صفایا کرنے پر آمادگی میں یکسوئی اختیار کی ہے، جس کے نتیجہ میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے خیبر ایجنسی کی وادی تیرہ میں بمباری کرکے دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو واصل جہنم کیا۔ یہ کارروائی وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس میں لئے گئے فیصلے کے پیش نظر کی گئی۔ کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کی ہونے والی جگ ہنسائی سے وزیراعظم کافی دکھی دکھائی دیتے ہیں۔ بالخصوص وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے رویے سے بھی وزیراعظم کافی آزردہ خاطر ہیں۔ چوہدری نثار کو ہی دہشت گردی کی روک تھام کا ہدف دیا گیا تھا اور انہی کے مشورے پر ہی وزیراعظم نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
وزیر داخلہ نے ان دونوں اہداف کی کامیابی کے لئے بلند بانگ دعوے کئے تھے۔ مذاکرات کے بارے میں ان کے کئی ایک بیانات تو ایسا تاثر لئے ہوتے تھے کہ جیسے وہ آج ہی کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر بیل نے منڈھے چڑھنا تھا نہ چڑھی۔ اسی طرح انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف ریپڈ رسپانس فورس کا مژدہ سناتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چٹکی بجاتے ہی دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیں گے، مگر کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے حملے نے وزیر داخلہ کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ چوہدری نثار کا کردار اس حوالے سے مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ چوہدری صاحب کی پوری فیملی امریکن نیشنلٹی ہولڈر ہے۔ چوہدری صاحب کے حوالے سے بھی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ امریکہ سے خصوصی ڈکٹیشن لیتے ہیں اور اچھے برے طالبان کی اصطلاح کے بھی بانی چوہدری نثار خان ہی ہیں۔ وہ اچھے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات اور برے طالبان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا کہتے رہے، لیکن اچھے طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے نہ انہوں نے برے طالبان کا کوئی سدباب کیا۔
جب پاک فوج نے جنوری فروری میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی آپریشن کیا تھا تو اس وقت موسم کی وجہ سے پہاڑوں پر برف جمی تھی اور شدت پسندوں کے سرحد پار بھاگنے کے راستے مسدود تھے۔ پاک فوج کے دو تین دن کے کامیاب آپریشن سے ہی دہشت گردوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ان کے بہت سے کمانڈرز اور جنگجو مارے گئے تھے، تو تب دہشت گردوں نے باقاعدہ جنگ بندی کی حکمت عملی کے تحت چوہدری نثار علی خان تک رسائی حاصل کرکے جنگ بندی کی اپیل کی تھی اور وزیراعظم نے بغیر کسی مشاورت کے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ان کی پیشکش کو شرف قبولیت بخشا، جس سے ظاہر ہے کامیابی سامنے دیکھنے والی عسکری قیادت کو سخت ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا، اور عسکری ماہرین نے بھی وزیراعظم کے اس فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیا۔ اگر اس وقت آپریشن کو صرف ایک ہفتہ مل جاتا تو مذاکرات کی پیش کش کرنے والے دہشت گرد ہتھیار ڈال چکے ہوتے اور آج پاکستان کو دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا سامنا نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو دہشت گردی میں جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنی ساکھ اور اعتبار کے حوالے سے بھی خسارے کا سامنا ہے، اور یہ سب قیادت کے ناعاقبت اندیش فیصلوں کی وجہ سے ہوا۔
محب وطن عناصر کل بھی یہی کہتے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف واحد حل آپریشن ہے، آج بھی یہ قول فیصل ہے کہ دہشت گردوں کا علاج فوج کے پاس ہے۔ نجانے کیوں سیاسی قیادت فیصلہ سازی میں تاخیر کا شکار ہوجاتی ہے۔ اگر چند ماہ پہلے شروع کئے گئے آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچا دیا جاتا تو آج پاکستان آبرومندانہ طریقے سے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے اپنا حصہ مانگ رہا ہوتا۔ مگر وائے افسوس کہ امریکہ واپس جاتے ہوئے بھارت کو خطے کا تھانیدار بنا کر جا رہا ہے، ہمارے حکمران بھی ذہنی طور پر اس کی تھانیداری قبول کرچکے ہیں اور اسے خوش رکھنے کے لئے تحفوں تحائف کی رشوت پہنچائی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ریاست کی قوت کو منوا لینا اولین ترجیح ہوتا ہے۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو باغی تصور کیا جاتا ہے، ان کا سر کچلنے کے لئے کسی قسم کی مصلحت کوشی اختیار نہیں کی جاتی، پاکستان واحد ملک ہے جہاں حکمران دوراندیش فیصلوں میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حکومتی اشرافیہ میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا ہونا پاکستان کے لئے نہایت خطرناک بات ہے۔ جب تک ہم اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال باہر نہیں کریں گے، ہم استحکام پاکستان کی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔