مضامین

آل سعود اور تکفیری وہابی ملاّ روضہ رسول (ص) مسمار کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کر رہے ہیں

برطانیہ کے معتبر اخبار ڈیلی اںڈی پینڈنٹ رپورٹر اور فری لانس ایڈیٹر اینڈریو جانسن نے ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کے ایک بڑے تکفیری وہابی سرکاری مولوی نے ایک ڈاکومنٹ لکھی ہے جس میں اس نے یہ تجویز دی ہے کہ مسجد نبوی سے ملحقہ روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منہدم کر دیا جائے اور جسم اطہر کو وہاں سے جنت البقیع میں نامعلوم جگہ منتقل کر دیا جائے۔ یہ ڈاکومنٹ مدینہ میں مسجد نبوی کے نگران مولویوں میں گردش کر رہی ہے جبکہ مکہ اور مدینہ دونوں حرموں کے ںگران سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ ہے۔ اس اخبار سے پہلے یہی خبر روس، فرانس سمیت کئی اور ملکوں کے ذرائع ابلاغ بھی دے چکے ہیں کہ سعودی عرب کے حکمران خاندان آل سعود پر انتہائی سخت گیر وہابی مولوی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مسجد نبوی کے ساتھ بنے قبہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرایا جائے اور یہاں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے دو ساتھی حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما کے اجسام کو وہاں سے ہٹا دیا جائے اور ان کو جنت البقیع میں بغیر نشاندھی کئے دفنا دیا جائے لیکن آل سعود اور اکثریتی وہابی علماء کا خیال یہ ہے کہ ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ اس سے پورے عالم اسلام ميں خاص طور پر اہل سنت و اہل تشیع کی طرف سے سخت ردعمل آئے گا کیونکہ ان دونوں کے ںزدیک روضہ رسول بہت ہی مقدس، مکرم اور برکت والی جگہ ہے۔

اصل میں حجاز میں جب سے وہابی ازم نے غلبہ حاصل کیا اس وقت سے وہابی لوگوں کی کوشش رہی ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے ملحق مزار انور کو بھی منہدم کر دیا جائے اور یہ کوشش ابن سعود نے 1926ء میں حجاز کو پہلی مرتبہ اپنی پوری گرفت میں لینے کے بعد بھی کی تھی اور اس وقت اس نے جب مکہ اور مدینہ میں جنت البقیع و جنت معلی دونوں کو مسمار کر ڈالا اور دیگر کئی ایک مقدس اور تاریخ اسلامی ميں انتہائی اہمیت کے حامل آثار کو تباہ کر ڈالا تھا اور اس کے اس اقدام کی پورے عالم اسلام نے مذمت کی تھی اور جب اس نے روضہ رسول (ص) کو منہدم کرنے کی کوشش کی تو اس پر ترکی کے کمال اتاترک نے حجاز پر حملہ کرنے کی دھمکی بھی دی جبکہ ہندوستان جو اس وقت برطانوی کالونی تھا میں کمیٹی برائے حفاظت مقامات مقدسہ حجاز بھی تشکیل دی گئی تھی اور اس وقت پورے عالم اسلام میں آل سعود کے خلاف جذبات پیدا ہوئے اور آل سعود کو خاصا خظرہ محسوس ہا تو اس نے پورے عالم اسلام سے سنّی اور شیعہ علماء کے وفود طلب کئے اور یہ پہلی عالمی موتمر اسلامی تھی جو آل سعود نے بلوائی تھی اس موتمر میں بقول شبیر عثمانی دیوبندی، مولوی مخمد علی جوہر ابن سعود نے وعدہ کیا کہ مدینہ ومکّہ کا انتظام و انصرام عالم اسلام کی ایک متفقہ نمائندہ کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے گا اور وہی حرمین شریفین کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہوگی، آل سعود نے جنت البقیع اور جنت معلی کو دوبارہ تعمیر کرنے کا وعدہ بھی کیا لیکن یہ وعدے کبھی پورے نہیں ہوئے بلکہ مزید حجاز سے اسلامی کلچر اور اس کی نشانیوں اور تاریخ کو مٹائے جانے کا سلسلہ توسیع حرم پروجیکٹوں کے نام سے کیا جاتا رہا ہے اور حرمین شریفین کو آل سعود اور ان کے وہابی پرچارکوں نے اپنی ذاتی پراپرٹی بنائے رکھا ہوا ہے۔

اسلامی ثقافت و ورثہ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر عرفان علوی کہتے ہیں کہ آل سعود اور ان کے سعودی وہابی مولویوں نے حجاز کو مکمل طور پر تاریخ آل سعود بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور جو ان کے وہابی نظریات کے آڑے آنے والی شئے ہو اسے یہ ہر صورت مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں انھوں نے حضرت خدیجہ (ع) کے مکان سے لیکر مولد نبوی اور محلہ بنی ہاشم سے لیکر قبور اصحاب رسول و اہل بیت اطہار و صالحین امت کے نشان مٹا ڈالے اور ابھی عین مولد نبوی جہاں مکتب قائم کر دیا گیا تھا وہاں پر میٹرو اسٹیشن کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور توسیع حرم پروجکیٹ میں ان کے زیر غور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزار بھی ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، جو چیز عالم اسلام کے اکثریتی لوگوں کے ںزدیک بہت محترم و مکرم ہے اور عقیدتوں و محبت کا محور و مرکز ہے اس کو وہابیت شرک اور کفر خیال کرتی ہے اور 1925ء سے کسی خاص موقع کی تلاش میں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button