اک مسیحا جو قتل ہوا
تحریر: سید اسد عباس
راتوں کو دیر تک جاگنا، ملت کے امور پر غور و فکر، عملی اقدامات، روابط پھر انہی سوچوں میں گم اگلے روز کے کاموں کے بارے میں سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں کا سفر۔ پو پھٹتے ہی ایک نئے ولولے جوش کے ساتھ بیداری، یاد خدا، نجی امور کی ترتیب اور نئی منزلوں کا سفر اس کی زندگی کا معمول تھا۔ یہ ان تھک مبارز میری شنید معلومات کے مطابق ایسا ہی تھا۔ 6 مارچ 1995ء کی رات جو کہ اس مبارز کی بدنی زندگی کی آخری رات تھی، بھی اس کا یہی وطیرہ تھا۔ نہ جانے رات کس وقت تک یہ مجاہد اسلام جاگ کر اپنے امور کو انجام دیتا رہا اور پھر تھکاوٹ سے چور ہو کر نہیں معلوم اس کی آنکھ کب لگ گئی۔ 6 مارچ 1995ء کی رات اور 7 مارچ 1995ء کی صبح تک کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ لاغر و نحیف مگر انتہائی مستعد اور متحرک بدن نہایت تیزی کے ساتھ ابدی سکون کی جانب گامزن ہے۔ 7 مارچ 1995ء کے دن کا آغاز اگرچہ رات بارہ بجے سے ہوتا ہے، تاہم عمومی انسانی فعالیت کا آغاز وقت سحر سے ہوا۔ مسجدوں سے اذان فجر کی صدائیں، پرندوں کی چہچہاہٹ، لاہور کی دھرتی جو رات کا سحر ٹوٹنے کی منتظر ہوتی ہے، کی کشادہ شاہراوں پر اکا دکا موٹر کاروں، سائیکلوں، موٹر سائیکلوں کی صدائیں۔ گھڑیاں بہت تیزی سے گزر رہی تھیں۔
ایسا شاید سب کے لئے نہیں تھا، عموماً لوگ ان لمحات پر غور نہیں کرتے۔ تاہم آج میرا تخیل رات کے پچھلے پہر مجھے ان لمحوں میں لے گیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرے ہمراہ اس وادی کا سفر کریں۔ میرا تخیل کہتا ہے کہ جس مبارز کا تذکرہ میرے پیش نظر ہے، یقیناً اسے ایسی علامات محسوس ہو رہی ہوں گی کہ جن سے اسے اندازہ ہو کہ اس کا سفر دنیا ختم ہوا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج سے چودہ سو سال قبل امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے انیس رمضان کی رات محسوس کر لیا تھا کہ آج رات وعدے کی رات ہے۔ میں نے ایسا کئی اور لوگوں میں بھی مشاہدہ کیا ہے کہ وقت آخر آنے سے قبل ہی ان لوگو ں کو یقین کامل ہو چکا ہوتا ہے کہ اب ان کا کوچ ہے۔ اپنے والد کی اس کیفیت کا عینی گواہ ہوں کہ ایک روز صبح بیدار ہوکر انہوں نے اچانک مجھے مخاطب کرکے کہا کہ اب میری روانگی ہے، والد محترم عموماً ایسی بات نہیں کہتے تھے بلکہ یہ بات انہوں نے مجھ سے پہلی اور آخری دفعہ کہی۔ میں نے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے معلوم؟ آپ کی بیماری ایسی نہیں ہے کہ جس میں جان کو کوئی خطرہ درپیش ہو، آپ کی ٹانگ ٹوٹی ہے جو جراحت کے بعد جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی، تاہم والد محترم نے پھر یقین سے کہا کہ نہیں میرے کوچ کا وقت ہے۔
ان سے اس یقین کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ آج میں نے کافی عرصے کے بعد اپنی دادی اماں کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے مجھے بہت پیار سے بلایا ہے اور کہتی ہیں کہ اب ہمارے پاس آجاؤ۔ ان کے بلانے سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اب مجھے جانا ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ 7 مارچ کے اس شہید کو بھی علم ہوچکا ہوگا کہ اب اس کی روانگی کی گھڑی آچکی ہے۔ قریبی رفقاء کا کہنا ہے کہ اسے مصدقہ ذرائع سے علم تھا کہ کچھ لوگ اس کی جان کے درپے ہیں اور وہ کسی بھی لمحے اس پر حملہ کرسکتے ہیں۔ دوستوں کے کہنے پر ہی اس سید نے احتیاطی تدابیر بھی کیں۔ مگر جیسے جیسے وقت قریب تر ہوتا گیا، سید نے اپنے گرد موجود حفاظتی حصار کو جان بوجھ کر ہٹا دیا۔ 7 مارچ 1995ء کی صبح ایک تقی حیدر کے علاوہ کوئی ان کے ہمراہ نہ تھا۔ تقی حیدر بھی ضد کرکے رکا، ورنہ سید اسے بھی اپنے سے جدا کرنا چاہتا تھا۔ میرا گمان ہے کہ اسلام کا یہ بطل جلیل و زکی چاہتا ہوگا کہ کوئی اور شخص میرے ہمراہ دشمن کے تیر ستم کا نشانہ نہ بنے، وہ تن تنہا دشمن کے ظلم کے سامنے کھڑا ہو اور اپنے خون میں غلطاں اپنے رب کے حضور پیش ہو۔ بہت سے لوگ یقیناً اس مبارز کو جان چکے ہوں گے، تاہم جو نہیں جان پائے ان کی مشکل کو آسان کرتا ہوں۔ آج میرا موضوع سخن وہ ہستی ہے جسے میں بالمشافہ نہیں ملا، لیکن جس کسی سے بھی اس کا ذکر سنا، ایسے جذبات کے ساتھ سنا کہ دل اس کی سچائی کی گواہی دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ آنسو، ہچکیاں، بڑے بڑے دل گردے والوں کو اس کا ذکر کرتے ہوئے بلکتے دیکھا۔
وہ آج بھی کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور ڈاکٹر صاحب اس دروازے سے داخل ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان رفقاء سے جدا ہوئے اکیس برس بیت چکے ہیں، تاہم ان کی یاد ان کے دلوں میں یوں زندہ ہے جیسے ابھی چند لمحے قبل ہی جدا ہوئے ہوں۔ عجیب محبت اور وارفتگی کا رشتہ ہے، جو بہت کم انسانوں کے بارے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ یقیناً اپنے مولا کے اس فرمان کی جیتی جاگتی تصویر تھا کہ لوگوں کے مابین ایسے رہو کہ اگر تم ان کے درمیان ہو تو خوش ہوں اور اگر تم ان سے جدا ہو جاؤ تو تمہیں یاد کریں۔ میں ذکر کر رہا ہوں ڈاکٹر سید محمد علی نقوی شہید کا۔ وہ جو کہ مسیحا تھا اور قتل ہوا۔ مسیحا کا قتل بذات خود دشمن کی بربریت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے، اس بارے میں کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ قاتل نے غیر انسانی فعل سرانجام دیا۔ انسانی عقل سوچ سکتی ہے کہ وہ انسان جو دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو بچانے والا ہو، ان کے دردوں کو دور کرنے کی کوشش کرنے والا ہو، کیسے کوئی انسان اس کے قتل کا ارادہ کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اسلام کا وہ بطل جلیل ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی اس دین کی سربلندی کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ انسانی اقدار کا احیاء، اسلامی معاشرے کا قیام، دین دو
ست نوجوانوں کی تنظیم ان کا خواب تھا۔ ان میں سے کچھ خواب ان کی زندگی میں ہی شرمندہ تعبیر ہوئے اور کچھ خواب تاحال تعبیروں کے منتظر ہیں۔
ڈاکٹر سید محمد علی نقوی شہید اسلام کے مجاہدوں کی اس صنف سے تھے، جو زندگی کو خدا کی جانب سے تفویض کردہ ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر اسے مقصد کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔ یہ مبارز اپنے حصے کا کام اس بھرپور انداز سے انجام دیتے ہیں کہ اس سے بہتر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایک دن میں چوبیس گھنٹے، ہر گھنٹے کے ساٹھ منٹ اور ہر منٹ کے ساٹھ سیکنڈ یہ حضرات اپنے مقصد سے جڑے رہتے ہیں۔ وہ سوتے اور کھاتے بھی اس لئے ہیں کہ اپنی بدنی صلاحیات کو آئندہ کے کاموں کے لئے مجتمع کرسکیں۔ ایسی شخصیات کے بارے میں اظہار خیال ہم جیسوں کی بساط سے باہر ہے۔ یہ ہستیاں اس بات کی بین دلیل ہیں کہ کار انبیاء آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور باطل کی مکمل نابودی تک یہ سلسلہ اسی انداز سے جاری و ساری رہے گا۔ ایک ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اپنی ذمہ داری انجام دے چکے گا تو نئے دور کا نیا محمد علی ایک نئے نام اور نئی شناخت کے ساتھ ظہور کرے گا اور دین مبین کی سربلندی کے لئے اپنا تن من دھن لٹا کر اس آخری انقلاب کی راہیں ہموار کرے گا، جس کا وعدہ خدا نے اپنی کتاب میں ان الفاظ میں کیا ہے:
حق آگیا اور باطل مٹ گیا یقیناً باطل مٹ جانے والا ہی تھا
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں یہ ہستیاں حق کی وہ کرنیں ہیں، جو مختلف ادوار میں ظاہر ہوکر باطل سے ٹکراتی ہیں اور اس کی تیرگی کو مات دیتی ہیں، خداوند کریم شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور دیگر شہدائے اسلام بالخصوص ان ایام کے شہداء منجملہ شہید ڈاکٹر علی شریعتی، شہید عبد العلی مزاری کی ارواح کو اپنا قرب حقیقی عطا فرمائے اور پرچم اسلام کو اس علمبردار کے ہاتھوں سے سرافراز فرمائے، جس نے باطل کو وعدہ شدہ شکست سے دوچار کرنا ہے۔ آمین