مضامین

خرم ذکی ۔۔۔ ایک اور چراغ گل ہوا

رپورٹ: ایس ایم عابدی

 ایک اور لاش گری۔ ایک اور چراغ گل ہوا۔ اس بار اس وحشت نے خرم ذکی کو نگل لیا۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والا پاکستان کا یہ نامور اور بہادر صحافی صرف چالیس برس کا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کو چیلنج کرنے کے لئے اس نے بے خوفی سے آواز بلند کی تھی۔ خرم ذکی کو خاص طور سے لال مسجد فیم مولانا عبدالعزیز کی فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی تقریروں کا بھانڈا پھوڑنے اور ان کے خلاف مظاہرہ کرکے مذہبی منافرت کا مقدمہ درج کروانے پر شہرت حاصل ہوئی تھی۔ خرم ذکی کو نارتھ ناظم آباد کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ اپنے ایک ساتھی راؤ خالد کے ساتھ ایک ریستوران میں رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر فائر کھول دیا۔ دونوں شدید زخمی ہوئے۔ ساتھ میں ایک راہگیر بھی گولیوں کا نشانہ بنا۔ تاہم خرم ذکی اسپتال پہنچنے تک دم توڑ گئے اور ملک میں تشدد، انتہا پسندی اور مذہبی منافقت کے خلاف ایک دلیر آواز خاموش ہو گئی۔

کسی دانشور، صحافی ، سماجی کارکن یا انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کی بات کرنے والے کسی شخص پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ گزشتہ برس اپریل میں کراچی ہی کی ایک ہیومن رائیٹس ایکٹیوسٹ سبین محمود کو بلوچستان میں مظالم کے خلاف ایک سیمینار منعقد کروانے کے فوری بعد قتل کردیا گیا تھا۔ انہوں نے شہر میں آزادی اظہار کو فروغ دینے کے لئے T2F کے نام سے ایک فورم قائم کیا تھا۔ وہ اختلاف رائے کے مہذب اظہار کی مثبت روایت کو فروغ دینے کی کوشش کررہی تھیں۔ اس سے ایک سال قبل ملتان میں ایڈووکیٹ راشد رحمان کو ان کے دفتر میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ انسانی حقوق کے لئےکام کرنے والے ایک ممتاز قانون دان تھے۔ انہوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے ایک ایسے لیکچرر کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، جو توہین مذہب کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کئے گئے تھے لیکن انتہا پسند مذہبی گروہوں کے دباؤ اور دہشت کی وجہ سے کوئی ان کا مقدمہ لڑنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ راشد رحمان نے یہ بھاری پتھر اٹھایا اور تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں خاموش کروا دیا گیا۔ پورا شہر قاتلوں کو جانتا ہے لیکن پولیس ان تک پہنچ نہیں پاتی۔ ان کے بعد کوئی وکیل توہین مذہب میں گرفتار جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کرنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔

ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ فوج اور رینجرز نے اب اسلحہ برداروں کا صفایا کرنے کے بعد ان کی مالی امداد کرنے والے بدعنوان سیاست دانوں اور افسروں کی گرفت شروع کی ہوئی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس ملک میں حرف حق کہنے والوں پر حملوں کو دہشت گردی نہیں سمجھا جاتا۔ ان دو برسوں میں جب کہ آپریشن ضرب عضب کامیاب ہوا ہے اور کراچی میں رینجرز نے شہر کی رونقوں کو بحال کیا ہے، انسان دوستوں اور مذہب کے نام پر ظلم بپا کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی حفاظت کا کوئی اہتمام دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پولیس اور سیکورٹی اداروں کو ملک کے اہم اور اہم ترین لوگوں کی حفاظت سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ رہی سہی صلاحتیں ملک میں جمہوریت کی بحالی اور کرپشن کے خاتمہ کے لئے ہر آئے دن سڑکوں پر موجود مظاہرین کی حفاظت پر صرف ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں انسان اور انسانیت کی بات کرنے والوں کی کون پروا کرتا ہے۔

لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں ابھی تک فرقہ واریت کی بنیاد پر کام کرنے والے مذہبی گروہ طاقتور بھی ہیں اور متحرک بھی۔ آپریشن ضرب عضب یا قومی ایکشن پلان ابھی تک ان کا زہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ایسے میں خرم ذکی ، سبین محمود اور راشد رحمان جیسے لوگ اپنے ضمیر کے مطابق آواز بلند کرتے رہیں گے لیکن انہیں خاموش کروانے والے بھی اپنی تلواریں نیام سے باہر ہی رکھیں گے۔ جو قوم اپنے سوچنے والوں اور حق آواز بلند کرنے والوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، وہ فلاح اور بہتری کا راستہ کیسے تلاش کر پائے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button