مضامین

انہدام جنت البقیع میں آل سعود کا کردار واہداف

مترجم: محمد شارب مصطفوی

جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع ہے ،وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344 ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کردیا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیاگیا، یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشور اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ ان قبور کی تعمیر نو کے لئےایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تاکہ یہ روحانی اور معنوی اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں ؛ حفاظت اور تعمیر نو کے ساتھ یہاں مدفون شخصیات اورہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کیا جاسکے۔۸شوال تاریخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے جب 1344 ہجری قمری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم و مسمار کردیا تھا۔ یہ دن تاریخ اسلام میں یوم الہدم کے نام سے معروف ہے، وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اسے خاک کے ساتھ یکساں کر دیا گیا۔

مدفون شخصیات:

مورخین کے مطابق بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم(ص) کے بعد ان کے بہترین صحابہ کرام دفن ہوئے اور جیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاں دس ہزار سے زیادہ اصحاب رسول مدفون ہیں کہ جن میں سے ان کے اہل بیت (ع)،امہات المؤمنین،آنحضرت کے فرزند ابراہیم،چچا عباس،پھوپھی صفیہ بنت عبد المطلب،آنحضرت کے نواسےامام حسن علیہ السلام،اکابرین امت،اور تابعین شامل ہیں،یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمار شہر مدینہ کے ان مزاروں میں ہونے لگاکہ جہاں حجاج کرام بیت اللہ حرام اور رسول اللہ کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاں نماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیارت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے؛نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے وہاں کی زیارت اور وہاں مدفون افراد پر سلام کیا اوراستغفار کی دعا کی۔ تین ناموں کی شھرت رکھنے والے؛ اس قبرستان ’’بقیع،بقیع الفرقدیا جنت البقیع‘‘ کی تاریخ ، قبل از اسلام سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیں اس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں لیکن اس کے باوجود جو چیز مسلم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع ، ہجرت کے بعد شہر مدینہ کے مسلمانوں کے لئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا،شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمدسے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں’’بنی حرام اور بنی سالم‘‘میں دفن کیا کرتے تھے۔

جنت البقیع 495 ہجری قمری یعنی پانچویں صدی ہجری کے آواخر سے صاحب گنبد و بارگاہ تھا؛ حجاز میں شریف مکہ کی شکست کے بعد محمد بن عبد الوھاب کے پیروکاروں نےمقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کردیں تو عالم اسلام میں بے چینی پھیل گئی، جب وہابیوں کا مکہ اور مدینہ پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے دین کی تجارت شروع کی اور مسلم دنیا کے بڑے علماء جو حج کے لئے آتے،ان کے توحید خالص کی دکان سے استفادہ کرتےاور ان کی فقہ کا سودا مفت اپنے وطن لے جاتے ؛وہابیت اور آل سعود کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام یہ بھی ہے کہ تمام دنیا اور اسلامی ممالک کے خائن اور ایجینٹ مؤلفین کے قلم کو ریالوں اور ڈالروں کے بدلے خرید لیا جائے، اسی طرح انہوں نے حج کے موقع کا خاص فائدہ اٹھایا جب کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ عظیم مسلم علماء جو بھی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ میں جمع ہوتے ہیں ، اس موقع پر یہ لوگ ان علماء سے روابط پیدا کر کے ان کو ہر ممکن طریقے سے اپنا ہمنوا بناتے ہیں ۔ اور ان کے ذریعہ سے اپنا نصاب ساری دنیا میں مشہور کرتے ہیں؛ جب ایک مفتی اپنا عقیدہ تبدیل کرتا ہے تو اس کے ذیل کے علماء بھی اس کی تقلید کرتے ہیں ، اسطرح یہ مسلک ساری اسلامی دنیا میں عام ہوگیا ۔

ایک مفتی کا عقیدہ تبدیل کر کے اس کے زیر اثر سارےعلاقے کے لوگوں کے عقیدے تبدیل کرنا آسان ہو جاتا ہے اور آل سعود نے یہی ٹکنیک اپنا رکھی ہے، آل سعود اسلامی امت کے الھیٰ مقدسات کی توہین ،ان کے عقائد کی تصنیف ،نیز مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اس باطل فرقہ کو اسلامی ممالک میں پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہی ہے اور اس باطل فرقہ کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اسلامی عقائد کی بیخ کن اور استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔

سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت وہابیت کی سرپرستی اور طاغوت کی نوکری کی بدولت قائم ہے۔ جبکہ تکفیریت اور دہشتگردی وہابیت کا لازمہ ہے، یعنی اگر تکفیریت اور دہشت گردی کو نکال دیا جائے تو وہابیت کی حقیقت اور شناخت ہی ختم ہو جاتی ہےیہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لئے وہابیت یعنی تکفیریت اور دھشت گردی کو تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ پس جب تک آل سعود تکفیریت اور دھشت گری کی کی سرپرستی نہ کرے اس کی حکومت کو خطرہ ہے ۔ اس لئے آل سعود اپنی حکومت کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی جنایت مرتکب ہونے کے لئے آمادہ رہتے ہیں ۔ اس طرح طاغوت کی نوکری کا تقاضا ہے کہ وہ دینی ملی اور قومی غیرت کو الوداع کہہ کر دشمنی اور وطن ستیزی کو قبول کئے رہیں ۔ آل سعود کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واض
ح ہوئی کہ ہمیشہ آل سعود نے تکفیریت اور دہشت گردی کو جنم دے کر فروغ پایا وہاں ۔وقت کے طاغوت کی نوکری کا بھی حق ادا کیا اور دین مقدس اسلام کی پشت میں منافقت اور تفرقے کا چھرا گھونپا ہے ۔ اس کی علت وہ دو معاہدے ہیں جو آل سعود نے اپنی حکومت کی بقا کی خاطر کئے ہیں ۔ ایک وہابیت کے بانی محمد بن عبد الوھاب کے ساتھ دوسرا بوڑھا استعمار برطانیہ کے ساتھ۔ اس مختصر سے مقالے میں ان معاہدوں کی تفصٰل بیان کریں گے۔

معاہدہ آل سعود اور محمد بن عبد الوہاب کے درمیان:

محمد بن عبد الوھاب نے 1160 ہجری میں آل سعود سے تعلق رکھنے والے درعیہ کے حاکم ابن سعود کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ نجد اور اس کے تمام دیہاتی علاقے آل سعود کے زیر تسلط رہیں گے اور محمد بن عبد الوہاب نے حکومتی ٹیکسیز سے زیادہ جمع ہونے والے جنگی غنائم، ابن سعود کو دینے کا وعدہ کیا ۔ جس کے مقابلے میں ابن سعود ، ابن عبد الوہاب کو اپنے نظریات منتشر کرنے کی مکمل آزادی دیگا ۔ ابن سعود نے جنگ فی سبیل اللہ کے نام پر محمد بن عبد الوہاب کی بیعت کی اور کہا کہ توحید کی مخالفت کرنے والے افراد کے خلاف جنگ اور وہ کام جس کا تو نے حکم دے رکھا ہے،اس پر فرح مندی کی بشارت دیتا ہوں لیکن دو شرائط کی بنیاد پر ۔

1۔ اگر ہم تمہاری حمایت و مدد کریں اور خداوند ہمیں کامیابی عطا کرے تو میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم ہمیں ترک نہ کردواور ہماری جگہ کسی اور کے ساتھ معاہدہ نہ کر لو،؟!محمدبن عبدالوہاب نے ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا ۔

2۔ اگر ہم درعیہ کے لوگوں پر ٹیکس لاگو کریں تو مجھے خوف ہے کہیں تم انہیں منع نہ کردو؟! محمد بن عبد الوہاب نے کہاں کہ ایسا نہیں کرونگا۔

مختصر

محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت :

محمد بن عبد الوہاب 1111 یا 1115 ہجری میں پیدا ہوا اور 1207 میں فوت ہوا ،نوّے سال سے زیاد زندہ رہا،عینیہ کے علاقے نجد میں جوان ہوا اور حنبلی علماء سے تعلیم حاصل کی پھر مدینہ چلا گیا۔ احمدامین کہتا ہے کہ وہ چار سال بصرہ میں مقیم رہا ،اس طرح پانچ سال بغداد، ایک سال کردستان،دوسال ہمدان، اور اس کے بعد اصفہان میں رہا اور اپنی ایجاد کردہ بدعتیں لوگوں تک پہنچاتا رہا ، اس کے بھائی شیخ سلیمان نے اس کی ایجاد کردہ بدعتوں اور باطل اعتقادات کی رد میں کتاب تالیف کی جس کا نام ’’الصواعق الالھیہ فی الرد علی الوہابیہ‘‘ رکھا۔ محمد بن عبد الوہاب پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے افراد جیسے مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی وغیرہ کی تعلیمات کے مطالعہ کا شوق رکھتا تھا ۔ چنانچہ اس کے ہم عصر مرزا ابو طالب اصفہانی نے اظہار کیا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب نبوت اور اپنے اوپر وحی کے نزول کا مدعی ہے ۔

بعض محقیقین کا کہنا ہے :اگر محمد بن عبد الوہاب ،ابن تیمیہ کے افکار کو ترویج نہ دیتا تو ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم کی موت کے بعد یہ افکار ختم ہو جاتے اور زمین پر وہابیت کا وجود نہ ہوتا ۔ ابن سعود نے ابن عبد الوہاب کی بیٹی سے اپنے بیٹے عبد العزیز کے ساتھ شادی کی؛ ان کے درمیان روابط زیاد ہ گہرے ہو گئے اور وہی معاہدہ ابھی تک دونوں خاندانوں کے درمیان جاری وساری ہے۔ جب محمد بن عبد الوہاب نے اس معاہدے کی بدولت اپنے آپ کو قدرت مند محسوس کیا تو اپنے انصاروپیروکاروں کو اکھٹا کیا اور انہیں جہاد کا شوق دلایا اور ہمسایہ مسلمان شہروں کو خط لکھا کہ اس کے نظریات کو تسلیم کریں اور اس کی فرمانبرداری کو قبول کر یں ۔
وہ چوپاؤں، نقدی اور اجناس کا دسواں حصہ وصول کرتا تھا اور مخالفت کرنے والوں پر حملہ کر دیتا تھا۔بہت سے لوگوں کو قتل اور اموال کو غارت اور عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا لیتا تھا؛ اس کا نعرہ یہ تھا کہ وہابیت کو قبول کروورنہ مارے جاؤ گے تمہاری عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے۔

آل سعود کا برطانیہ کے ساتھ معاہدہ:

آل سعود کی حکومت کے بقا کے لئے بوڑھے استعمار کے ساتھ ایک شرمناک معاہدہ طے پایا ۔1328ہجری میں عبد العزیز ابن سعود نے کویت میں انگریزوں کے نمائندہ ویلیم سے ملاقات کی ،تیسری ملاقات کے بعد عبد العزیزابن سعود نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے برطانیہ کو تجویز پیش کی کہ نجد اوراصاء دولت عثمانیہ سے چھیننے کا بہترین موقع یہی ہے ۔ اس طرح ایک ذلیلانہ معاہدہ طے پایا کہ انگلستان اصاء اور نجد میں حاکم ریاض کے موقف کی حمایت کرے گا اور اسی طرح دولت عثمانیہ کی طرف سے بحری اور بری ممکنہ حملوں کی صورت میں اس کی دوسری حامی حکومتوں کے ساتھ ملکر عبد العزیز کی مدد کریگااور منطقہ میں آل سعود کی حکومت کے بقا اور دوام کے لئے کوشاں رہے گا۔ عبدالعزیز نے بھی نوکر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ برطانیہ حکومت کے ذمہ داروں کے ساتھ مشورت کے بغیر کسی بھی حکومت سے رابطہ نہیں کرے گا ،ابن سعود اس بات کا پابند ہے کہ کسی بھی ریاست اور حکومت کے ساتھ معاہدہ ،رابطہ اور تعلق برقرار نہیں کرے گا ۔ ابن سعود ، امیر نجد حق نہیں رکھتا کہ حکومت برطانیہ کی اجازت کے بغیر سرزمین نجد کے کسی حصے کے بارے میں دوسروں کے ساتھ معاہدہ کرے ، اسے اجارہ یا رھن و گروی کے طور پر رکھے، کسی اور استعمال کے لئے دے ، کسی اور حکومت کو یا اس کے کسی ماتحت فرد کو ہدیہ کے طورپر عطا کرے ۔

ابن
سعود اپنے باپ کی طرح اس بات کا پابند ہوگا کہ سرزمین کویت، بحرین ،قطر،عمان اور ان کے ساحلی علاقوں کے شیوخ کی زمینوں میں اسی طرح برطانیہ کے حمایت یافتہ اور اس کے ساتھ ہم پیماں شیوخ کی زمینوں میں ہر قسم کی مداخلت اور تجاوز سے اجتناب کرے گا۔

عبد اللہ بن العزیز کا کردار:

وہابیت کو خوش کرنے لئے ابن عبد العزیزنے مکہ ،جدّہ اور مدینہ سے اسلامی آثار کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ مکہ میں موجود حضرت عبدالمطلب علیہ السلام ، ابو طالب علیہ السلام ، ام المؤمنین خدیجہ علیھا السلام کے علاوہ مقام ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت زہراء علیھا السلام کے روضہ مبارکہ کو مسمار کردیا ، بلکہ تمام زیارت گاہوں، مقدس مقامات اور گنبدوں کو ڈھا دیا ، جب مدینہ کا محاصرہ کیا تو مسجد حضرت حمزہ علیہ السلام اور مدینہ سے باہر ان کی زیارتگاہوں کو گرادیا۔ علی وردی کہتا ہے کہ بقیع مدینہ میں پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے اور اس کے بعد قبرستان تھا کہ جہاں حضرت عباس ، عثمان، امہات المومنینؑ،،بہت سے صحابہ اور تابعین کے علاوہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام میں چار امام (امام حسنؑ،امام زین العابدینؑ،امام محمد باقرؑاور امام جعفر صادقؑ) مدفون تھےکہ شیعوں نے ان چارائمہ کی قبور پر ایران ،عراق میں موجود باقی معروف ائمہؑ کی طرح خوبصورت ضریح تعمیر کر رکھی تھی، جنہیں وہابیوں نے مسمار کر دیا ۔ لیکن صاحبان عقل وخرد کیلئے لمحئہ فکریہ یہ ہے کہ اسی سعودی عرب میں یہودی باقیات قلعہ خیبر آج بھی مغربی اور یہودی سیاحوں کی توجہ کا مرکزبڑی آب وتاب سے موجود ہے جو آل سعود اور وہابیت کی آل یھود کےساتھ دوستی اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، آج بھی شیطان بزرگ آمریکہ اور اس کے ناجائز بیٹے کی خوشنودی کی خاطر آل سعود خادمین حرمین شریفین کی ڈھال کو استعمال کرتے ہوئے شام، عراق، بحرین اور یمن کے مظلوم مسلمانوں کو بے دریغ قتل کر رہا ہے اور خصوصاً اہل یمن کے غیور مسلمان ان کی سفاکی کا نشانہ بن رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں طاغوت کے مفادات کے تحٖفظ کے لئے فرزندان توحید کے خون کا پیاسا ہو چکا ہے ۔ اب علما کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آل سعود کے قبیح چہرے پر موجود منافقت کے نقاب کو نوچ کر دنیا کے سامنےاس کی حقیقت کو عیاں کریں۔

یہ عالم اسلام کی چودہ سالہ تاریخ کا مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی دستاویزات واسناد کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وہابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اور دور حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اس بات کا سوال کر رہا ہے کہ وہ اس تاریخی بے حرمتی پر خاموش کیوں ہیں !۔

اظہار افسوس:

افسوس۔ گذشتہ صدی میں 1344 ہجری قمری 8 شوال المکرم کو آل سعود نے بنی امیہ و بنی عباس کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے خاندان نبوت وعصمت کے لعل وگوہر کی قبروں کو ویران کر کے؛ اپنے اس عناد وکینہ کا ثبوت دیا جو صدیوں سے ان کے سینوں میں پنہاں تھا۔ آج آل محمد(ص) کی قبریں بے سقف ودیوار ہیں جبکہ ان کے صدقے میں ملنے والی نعمتوں سے یہ یہودی نما سعودی اپنے محلوں میں مزے اڑا رہے ہیں۔ اس چوری کے بعد سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ چند ضمیروقلم فروش مفتی اپنے بے بنیاد فتووں کی اساس ان جعلی روایات کو قرار دیتے ہیں جو بنی امیہ کے دور حکومت شام میں بنی، بکی اور خریدی گئیں ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘ کی دعویدار قوم آج قرآن کے صریحی احکام کو چھوڑ کر اپنی کالی کرتوتوں کا جواز نقلی حدیثوں کی آغوش میں تلاش کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان مقدس ہستیوں کی مزاروں کو مسمار کردینے کے بعد اب اس مملکت سے چھپنے والی کتابوں میں ، بقیع میں دفن ان بزرگان اسلام کے نام کا بھی ذکر نہیں ہوتا ، مبادا کوئی یہ نہ پوچھ لے کہ پھر ان کے روضے کہاں گئے!۔

نتیجہ:

آج آل سعود کی کج فکری کے نتیجے میں یہ عظیم بارگاہ اور بلند وبالا گمبد منہدم کردیا گیا اور ہمارے ائمہ کی قبر یں زیر آسمان ہو گئیں ان پر سایہ نہیں رہا ۔

حوالہ:

راہنمائے حج وعمرہ وزیارات مسجد نبوی
تاریخ حرم آئمہ بقیع،محمد صادق
گنجینہ ھای ویران
کشف الارتیاب
البقیع با یوسف الھاجری
مراۃ الحرمین ابراھیم رفعت پاشا
اخبار مدینۃ الرسول، مکتبۃ دارالثقافۃ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button