کرائے کے قاتلوں کو مجاہد کہنا جہاد کی توہین اور فساد فی الارض ہے، سبطین سبزواری
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)شیعہ علما کونسل کے زیراہتمام سانحہ کوئٹہ میں وکلا، صحافیوں اور شہریوں کی شہادت اور زرغون روڈ کوئٹہ پر شریعت کورٹ کے جج کے کانوائے میں بم دھماکے کیخلاف یوم احتجاج منایا گیا۔ جس میں خطبات جمعہ میں علما کرام نے دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کیخلاف تقاریر کیں اور قراردادیں منظور کیں جبکہ نماز جمعہ کے بعد مساجد اور امام بارگاہوں سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
زرائع کے مطابق لاہور میں گیلیکسی سٹاپ فیروز پور روڈ پر مسجد الحسین ؑ سے احتجاجی ریلی شیعہ علما کونسل پنجاب کے صدر علامہ سبطین حیدر سبزواری کی قیادت میں نکالی گئی۔ جس سے مولانا الحاج حسن رضا قمی، مولانا حافظ کاظم رضا نقوی، شہباز حیدر نقوی اور دیگر رہنماوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محض اجلاس اور ٹاسک فورس کا قیام ہی کافی نہیں، دہشتگردی سے تنگ قوم اب اس ناسور کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے، اس لئے حکومت اور ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، 3 دہائیاں ہوگئی ہیں کہ پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تکفیریت اور دہشتگردی نے ریاست پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، عام شہری محفوظ ہے، نہ وکیل اور جج، تو عام لوگوں کو انصاف کون فراہم کرے گا۔
علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں، فوج کے کامبنگ آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئٹہ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں فوجی آپریشن فی الفور یقینی بنایا جائے تاکہ ان متاثرہ شہروں سے تکفیری دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے متعدد بار سکیورٹی اداروں کی توجہ دہشتگردی کی طرف مبذول کروائی اور تکفیری دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کا مطالبہ کیا مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا، اہل تشیع ڈیرہ اسمٰعیل خان میں مسلسل لاشیں اٹھار رہے ہیں، کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا جارہا ہے، مگر کسی کو ملکی سلامتی کی کوئی فکر نظر نہیں آتی، حکمران ہیں کہ زبانی بیان بازی سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں، جو کہ افسوسناک رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ موثر اقدامات کے بغیر دہشتگردی ختم کرنا ممکن نہیں، ماضی میں جہاد کی نجکاری جس انداز سے کی گئی اس سے اسلام کو بدنام کیا گیا، کرائے کے قاتلوں کو مجاہد کہنا جہاد کی توہین اور فساد فی الارض ہے، سکیورٹی اداروں کو بھی اس روش کا نوٹس لینا چاہیے۔