اسرائیلی صدر کا دورہ بھارت پاکستان اور اسلام کیخلاف سازشوں کو منظم کرنا ہے، اعجاز ہاشمی
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) جمعیت علما پاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی نے بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ممالک کو باہمی اختلافات میں قوت صرف کرنے کی بجائے، یہود و ہنود کی سازشوں کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ دنیا میں امن قائم اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے، ترکی کے صدر طیب اردوان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب قابل تحسین ہے، کشمیر پر کھل کر حمایت کی،
کاش اسرائیل کیخلاف بھی کچھ کہہ دیتے، ترکی کے پاکستان کیساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات قابل فخر ہیں۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ اسرائیلی صدر ریون ریولین کا دورہ بھارت کا مقصد پاکستان اور اسلام کیخلاف سازشوں کو منظم کرنا ہے، جس کا احساس مسلم ممالک کو ہونا چاہیے، خاص طور پر ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کیخلاف توانائیاں استعمال کرکے امت کی کمزوری کی بجائے متحد ہوکر مضبوطی کا باعث بنیں تاکہ اسلامی تشخص دنیا میں ابھر کر آئے اور عالمی دہشتگردی کے ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی بہتری کیلئے پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب اہمیت کے حامل ہیں، انہیں متحد ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین میں اور بھارت کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کی بدترین مثال قائم کرکے دنیا کے سامنے کس طرح انتہا پسندی کیخلاف بات کرتے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے، دونوں ممالک کا ایجنڈا اسلام دشمنی ہے، دہشتگردی کا خاتمہ نہیں بلکہ دونوں ریاستیں ہی دہشتگردی کو دنیا بھر میں پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ او آئی سی کو غیر جانبدار کردار ادا کرتے ہوئے تمام مسلم ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنا چاہیے۔
سعودی عرب کی قیادت میں 34۔ممالک کے عسکری اتحاد سے امت مسلمہ تقسیم ہوئی ہے اور اس تاثر کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اتحاد ایران، شام، عراق اور یمن کیخلاف تشکیل پایا ہے، ہمیں چاہیے کہ ایسی فضا قائم کریں جو ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کے دور میں تھی، جب اسلامی سربراہی کانفرنسیں منعقد ہوئیں اور اتحاد و اتفاق کی باتیں کی جاتی تھیں مگر آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے ماضی کو نہ صرف فراموش کرتے جا رہے ہیں بلکہ فرقہ بندی کی بنیاد پر بغض اور دشمنی کا شکار ہو چکے ہیں، کچھ لوگ پاکستان کو بھی شام بنانے کی سازش کر رہے ہیں، ہمیں ان کیخلاف صف بندی کرنی چاہیے تاکہ ایسے عناصر کا محاسبہ کیا جا سکے، جیسے مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور علامہ ساجد علی نقوی نے 1990 کی دہائی میں کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی عسکری اتحاد میں صرف 34 نہیں تمام 57 اسلامی ممالک شامل ہونے چاہیں تاکہ تقسیم کی بجائے اتحاد کا عملی مظاہرہ ہو۔