مضامین

پاکستان کے سابق آرمی چیف کی آل سعود کے ساتھ خفیہ گٹھ جوڑ کی اندرونی داستان

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف 39 اسلامی ممالک کے نام نہاد فوجی اتحاد کے سربراہ بن گئے ہیں جب کہ معاہدے کی تصدیق پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کردی ہے۔  انہوں نے کہا ہے کہ معاہدے کی حتمی شکل سے پہلے قانونی عمل کی پیروی کی گئی جب کہ وزیراعظم نواز شریف بھی مشاورت میں شامل تھے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ راحیل شریف کی تقرری کا معاملہ کچھ عرصے سے زیرغور تھا تاہم وہ اب باقاعدہ طور پر 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ بن گئے ہیں۔

جنرل (ر) راحیل شریف کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان آنے کے بعد ریٹائرڈ فوجی افسران سے رابطہ کریں گے اور اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹائرڈ افسروں کی ایک بڑی تعداد کو بھی انتہائی پر کشش معاوضوں اور بہترین سہولتوں کے ساتھ سعودی اتحاد کا حصہ بنائیں گے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ آل سعود اس نام نہاد اتحاد کے اہداف کو ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود منظر عام پر نہیں لا رہے جس کی وجہ سے عالم اسلام کو شبہ ہے کہ یہ اتحاد یکطرفہ بنیادوں پر تشکیل دیا گیا ہے جس میں نہ صرف ایران بلکہ اہم اسلامی ممالک عراق، شام، لبنان کا ذکر تک نہیں کیا جا رہا اور سب سے اہم یہ کہ یہ اتحاد یمن کے مظلوم اور شیعہ عوام کیخلاف تشکیل دیا گیا ہے۔

اس ضمن میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ راحیل شریف کو اسلامی افواج کا سربراہ بنانے میں پاکستان کے جی ایچ کیو اور پاکستان کے وزیر اعظم کی مشاورت بہت سارے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مزید یہ کہ راحیل شریف کے دور میں‌ جب آل سعود نے پاکستان کو یمن میں‌ فوج بھیجنے کے لیے درخواست کی تھی تو پاکستان کا انکار دراصل یہی معاہدہ تھا جس کی پاسداری راحیل شریف نام نہاد اسلامی فوج کے سربراہ بن کر کریں گے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس اتحاد کے خفیہ مقاصد کیا ہیں؟ اگر یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تو اس میں ایران کی شمولیت کو کیوں ٹھکرایا گیا ہے؟‌ منفی ایران اتحاد سے یہ بات واضح‌ ہوتی ہے کہ اس اتحاد کا مقصد خطے میں سعودی مفادات کا تحفظ اور ایران کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اپنے کیریر کے دوران بے داغ اور عزت کمانے والے راحیل شریف ایک سنگین غلطی کے مرتکب ہونے جا رہے ہیں جس میں ان کا بے داغ دامن داغدار ہونے کا شدید خدشہ ہے۔

 تحریر از ٹی آے شفق

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button