مضامین

مسئلہ یمن، حکومت اور پارلیمنٹ

شیعہ نیوز(پاکستان شیعہ خبر رساں ادارہ ) تحریر :ثاقب اکبر

کیا یمن کے مسئلے پر حکومت پارلیمنٹ کی قرارداد کے ساتھ ہے؟ یہ سوال آج نئے سرے سے اس لیے پیدا ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کسی اور ملک اور طاقت کے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گا۔ انھوں نے 9مارچ 2018کوکہا اگر ایران اور سعودی عرب میں اختلافات ہیں تو اس کے خاتمے کے لیے دعا گو ہیں لیکن ہم نے کسی کی پراکسی بننے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے نام لے کر کہا کہ ہم نے یمن کی جنگ میں شرکت نہیں کی۔ ہم نہیں چاہتے کہ امت میں انتشار ہو۔یاد رہے کہ پاکستان پر سعودی عرب کی طرف سے دباؤ رہا ہے کہ وہ یمن کے خلاف عسکری محاذ پر سعودی عرب کا ساتھ دے لیکن پاکستان کی,

پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد کے ذریعے حکومت کو یہ راہنمائی دی کہ یمن کے مسئلے پر پاکستان جنگ کا فریق نہ بنے بلکہ ثالث کا کردار ا دا کرے۔ اس سلسلے میں 10اپریل 2015ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قرار داد پیش کی تھی جو اتفاق رائے سے منظور ہو گئی تھی۔بعدازاں بھی پاکستان پر سعودی دباؤ جاری رہا لیکن پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ ہم سعودیہ کی داخلی سیکورٹی کے لیے تو تعاون کر سکتے ہیں لیکن پاک فوج کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ البتہ گذشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ پاکستان کے فوجی دستے تربیت اور مشاورتی امور کے لیے سعودی عرب,

روانہ کیے جارہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے فوجی دستے 1982 سے دو طرفہ معاہدے کے تحت سعودی عرب میں موجود ہیں، جو تربیت اور مشاورتی امور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔پاکستانی فوجی دستوں کی ان حالات میں سعودی عرب میں موجودگی یقینی طور پرسوال انگیز ہے جب کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی مسلسل غریب اور کمزور ملک یمن پر بمباری اور فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔وزیر خارجہ خواجہ آصف کے مذکورہ بیان سے ایک دفعہ پھر پاکستان کی سرکاری پالیسی کے خدوخال اجاگر ہوئے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں امریکا کے ایماء پر,

کئے جانے والے جہاد کو ہدف تنقید بنایا اورکہا کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستانی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے سمجھوتہ کیا۔ مقتدر قوتوں نے حکمرانی کی خاطر ملک بیچا۔ ہم نے میڈاِن امریکا جہاد لڑا اور جہادی بنائے۔ ہم نے اپنا کیا حال کر لیا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ان کی پراکسی بنے لیکن پاکستان امریکا کی پراکسی کبھی نہیں بنے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نائن الیون کے بعد ہم نے پھر وہی غلطی دہرائی جس کا آج خمیازہ بھگت رہے ہیں، مرواتا کوئی اور ہے لیکن آلہ قتل ہمارے ہاتھ ہوتا ہے۔اس جرأت مندانہ بیان کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پاکستان گذشتہ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ,

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button