مضامین
پچیس 25شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم شہادت
شھادتِ امام جعفر صادق علیہ السلام
امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کو تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور علوم اہل بیت علیہم السلام کو فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کر لی۔ فقہ جعفریہ میں سب سے زیادہ احادیث راویوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جنہوں نے آپ سے کسب فیض کیا۔حریر:ایم صادقی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت:
آپ ۱۷ربیع الاول، ۸۳ ھجری قمری، پیر کے دن مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، آپ کی ولادت کی تاریخ کو خداوند عالم نے بڑا مقام دے رکھا ہے احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کو روزہ رکھنا ایک سال کے روزہ کے برابر ہے۔ آپکی ولادت کے بعد ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا یہ فرزند ان چند خاص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدا نے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور یہی میرے بعد میرا جانشین ہو گا۔ علامہ مجلسی رح لکھتے ہیں کہ جب آپ بطن مادر میں تھے تب کلام فرمایا کرتے تھے۔ ولادت کے بعد آپ نے کلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا آپ بھی ناف بریدہ اور ختنہ شدہ پیدا ہوئے ہیں، آپ تمام نبوتوں کے خلاصہ تھے۔
آپکا اسم گرامی، کنیت، القاب:
آپ کا اسم گرامی جعفر، آپ کی کنیت ابوعبداللہ، ابواسماعیل اور آپ کے القاب صادق، صابر، فاضل، طاہر وغیرہ ہیں علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے اپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفر بن محمد کو لقب صادق سے ملقب فرمایا تھا اور اس کی وجہ بظاہر یہ تھی کہ اہل آسمان کے نزدیک آپ کا لقب پہلے ہی سے صادق تھا، علامہ ابن خلکان کا کہنا ہے کہ راستگو ہونےکی وجہ سے آپ کے نام نامی کا جزو "صادق” قرار پایا ہے۔ جعفر کے متعلق علماء کا بیان ہے کہ جنت میں جعفر نامی ایک شیرین نہر ہے اسی کی مناسبت سے آپ کا یہ لقب رکھا گیا ہے چونکہ آپ کا فیض عام نہر جاری کی طرح تھا اسی لیے اس لقب سے ملقب ہوئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں سیاسی حالات :
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار امام باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد ۱۱۴ ہجری قمری میں اکتیس سال کی عمر میں امنصب امامت پر فائز ہوئے آپ کا دور امامت ۳۴ برسوں پر محیط ہے۔ ۱۱۴ سے ۱۳۲ہجری قمری تک اموی دور حکومت تھا جبکہ ۱۳۲سے لے کر ۱۴۸ ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک عباسی حکمراں برسراقتدار تھے۔ جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا۔ یہی وہ دور تھا جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی۔ آپکا دور علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی، دوسرے مختلف علوم کے ساتھ ساتھ عقائد و فلسفہ دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے۔
اسلامی علوم و معارف کی ترویج:
امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کو تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور علوم اہل بیت علیہم السلام کو فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کر لی۔ فقہ جعفریہ میں سب سے زیادہ احادیث راویوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جنہوں نے آپ سے کسب فیض کیا، ان میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تفل
ب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابر بن حیان کا نام خاص طور سے لئے جاتے ہیں۔ تاریخ میں ان کا شمار نامور لوگوں میں ہوتا ہے، ہشام بن حکم نے اکتیس اور جابر بن حیان نے دو سو زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل سنت کے امام ابوحنیفہ، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا دو سال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہا ہے، "میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔”
ب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابر بن حیان کا نام خاص طور سے لئے جاتے ہیں۔ تاریخ میں ان کا شمار نامور لوگوں میں ہوتا ہے، ہشام بن حکم نے اکتیس اور جابر بن حیان نے دو سو زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل سنت کے امام ابوحنیفہ، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا دو سال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہا ہے، "میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔”
ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا، "لولا السنتان لھلک النعمان” اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور اخلاقی کمالات کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے۔
آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اپنی باتوں کی نصیحت کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں "اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو” امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کا جائزہ لیا جئے تو اس کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام اور والد امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ گزارا یہ دور ۸۳ ہجری قمری سے لے کر ایک ۱۱۴ہجری قمری تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرا دور ایک ۱۱۴ہجری قمری سے ۱۴۰ ہجری قمری پر محیط ہے اس دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف پھیلانے کا موقع ملا جس سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس دور میں آپ نے چارہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب شیعہ کو عروج پر پہنچایا۔
تیسرا دور امام کی آخری ۸ کی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس دور میں آپ پر عباسی خلیفہ منصور دوانقی کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی۔ عباسیوں نے چونکہ خاندان پیغمبر کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا شروع شروع میں عباسیوں نے امام علیہ السلام پر دباؤ نہیں ڈالا اور انہیں تنگ نہیں کیا لیکن عباسیوں نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمائے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد امویوں کی روش اپنا لی اور آئمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے محبین کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس میں وہ امویوں سے بھی آگے نکل گئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور انقلابی دور تھا:
امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور انقلابی دور تھا۔ بنی امیہ سے نفرت کے وہ بیج جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیئے تھے اب پورے طور پر بارآور ہو رہے تھے۔ اموی حکومت متزلزل ہو رہی تھی، انکی طاقت روزبروز کمزور ہوتی جا رہی تھی اس دور میں بار بار زید بن علی بن الحسین علیہ السلام جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے چچا تھے خود بھی علم و ورع و اتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تھے، بنی امیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کر دیا لیکن شرائط ایسی نہیں تھیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بھی چچا کے ساتھ اس مہم میں شریک ہو جاتے، اس کے بعد زید علیہ السلام کا شہید کیا جانا اور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور انکے سر کو قلم کرنے کے بعد بدن کو ایک عرصہ تک سولی پر لٹکائے رکھنے کے بعد آگ میں جلا دیا گیا۔
بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول ص کو سکون رہا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ہی پھر فضا مکدر ہو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ہم نے شکست دی ہے وہ اولاد فاطمہ علیہ السلام کے ساتھ ہمدردی ھی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکھیں کھل جائیں۔ اور وہ اسی طرف جھک جائیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ہونے کے بعد جب بنی ھاشم نے مدینہ میں جمع ھو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن علیہ السلام کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اہل قرار دیا تھا اور سب نے ان کے ھاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ھاتھ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی سازشوں سے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ہو گئے اس لئے بہت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکھ میں کھٹک رہا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصیت سے اولاد امام حسن علیہ السلام کے خلاف ظلم و ستم شروع کر دیا گیا۔ عبداللہ بن الحسن علیہ السلام جو عبداللہ المثنی کے نام سے مشہور تھے۔ امام زین العابدین کے بھانجے یعنی فاطمہ بنت الحسین علیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشھور تھے جناب فاطمہ بنت الحسین علیہ السلام کے پوتے تھے۔
منصور نے اپنے دور میں نے تمام سادات حسنی کو قید کر دیا اور خصوص
یت سے عبداللہ المحض کو سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنہائی میں رکھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان واقعات سے قلبی طور پر رنجیدہ تھے چنانچہ جس دن اولاد حسن علیہ السلام کو زنجیروں سے باندھ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پہنا کر بےکجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے مدینہ سے نکالا گیا اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اس منظر کو دیکھ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور بلند بلند گریہ کرنے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رہے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراہیم کچھ دن پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چھپے رہے پھر ایک جماعت کو اپنے ہمراہ لے کر مقابلہ پر آمادہ ہوئے اس موقع پر عوام محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ہو رہی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر تمام جذباتی تقاضوں کے باوجود اس مہم سے علیٰحدہ رہے۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مہم وقتی حالات کی بنا پر شروع کی گئی ہے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نہیں ہے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے اگر میں نے اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول ص کی اشاعت کے طور پر انجام دے رہا ہوں دروازہ مسدود ہو جائے گا۔ یہی بے پناہ صبر و ضبط ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا ہے۔
یت سے عبداللہ المحض کو سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنہائی میں رکھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان واقعات سے قلبی طور پر رنجیدہ تھے چنانچہ جس دن اولاد حسن علیہ السلام کو زنجیروں سے باندھ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پہنا کر بےکجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے مدینہ سے نکالا گیا اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اس منظر کو دیکھ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور بلند بلند گریہ کرنے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رہے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراہیم کچھ دن پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چھپے رہے پھر ایک جماعت کو اپنے ہمراہ لے کر مقابلہ پر آمادہ ہوئے اس موقع پر عوام محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ہو رہی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر تمام جذباتی تقاضوں کے باوجود اس مہم سے علیٰحدہ رہے۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مہم وقتی حالات کی بنا پر شروع کی گئی ہے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نہیں ہے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے اگر میں نے اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول ص کی اشاعت کے طور پر انجام دے رہا ہوں دروازہ مسدود ہو جائے گا۔ یہی بے پناہ صبر و ضبط ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا ہے۔
امام ابوحنیفہ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگرد تھے:
یہ تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ جناب امام ابوحنیفہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد تھے لیکن علامہ تقی الدین ابن تیمیہ نے ہمعصر ہونے کی وجہ سے اس میں منکرانہ شبہ ظاہر کیا ہے ان کے شبہ کو شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے رد کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے "ابوحنیفہ ایک مدت تک استفادہ کی غرض سے امام محمد باقر ع کی خدمت میں حاضر رہے اور فقہ و حدیث کے متعلق بہت بڑا ذخیرہ حضرت ممدوح کا فیض صحبت تھا امام صاحب نے ان کے فرزند رشید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی کسب فیضں کیا، جس کا ذکر عموما تاریخ میں پایاجاتا ہے لیکن ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ خیال کی ہے کہ امام ابوحنیفہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر اور ہمعصر تھے اس لیے ان کی شاگردی کیونکر اختیار کرتے لیکن یہ ابن تیمیہ کی گستاخی اور خیرہ چشمی ہے امام ابوحنیفہ لاکھ مجتہد اور فقیہہ ہوں لیکن فضل و کمال میں ان کو حضرت جعفر صادق سے کیا نسبت، حدیث و فقہ بلکہ تمام مذہبی علوم اہل بیت کے گھرانے سے نکلے ہیں "و صاحب البیت ادری بما فیھا” گھر والے ہی گھر کی تمام چیزوں سے واقف ہوتے ہیں۔
بادشاہان وقت اور آپکی شھادت:
آپ کی ولادت ۸۳ ھ میں ہوئی ہے اس وقت عبدالملک بن مروان بادشاہ وقت تھا پھر علی الترتیب ولید، سلیمان، عمربن عبدالعزیز، یزیدبن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک، ولیدبن یزیدبن عبدالملک، یزیدالناقص، ابراہیم ابن ولید، اور مروان الحمار، خلیفہ مقرر ہوئے مروان الحمارکے بعد سلطنت بنی امیہ کا چراغ گل ہو گیا اور بنی عباس نے حکومت پر قبضہ کر لیا، بنی عباس کا پہلا بادشاہ ابوالعباس سفاح اور دوسرا منصور دوانقی ہوا ہے۔ اسی منصور نے اپنی حکومت کے دو سال گزرنے کے بعد ۱۴۸ ھجری میں جب آپ کی عمر مبارک ۶۵ سال تھی آپکو زہر سے شہید کر دیا۔ آپ قبرستان بقیع میں اپنے والد کے پہلو میں دفن ہیں۔