مضامین

شریف حکومت اور بدمعاش دہشتگرد، در پردہ تعلقات (4)

nawaz sharefدہشت گردوں کے ایک گروہ سے مذاکرات کریں گے تو دوسرا کسی جرنیل کو اڑا دے گا اور ایک لیڈر کو رہا کریں گے تو دوسرے کے نام پر تباہی مچائیں گے، نواز حکومت اور ملٹری اشرافیہ کن سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور کس ایجنڈے پر بات کرنا چاہتے ہیں، دہشت گردوں کے آگے ہتھیار ڈالنے والے سیاستدانوں اور ملٹری بیورو کریٹس ہمیشہ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے نام پر جہاد کا جھانسہ دیکر دوسروں کے بچوں کو قربانی کا بکرا بناتے رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلح افواج اور ایٹم بم کی موجودگی میں پرائیویٹ جہاد کے کیمپ کھول کر غیر ریاستی عناصر کو پاکستانی ریاست پر مسلط کرنے والے جرنیل اسلام آباد کی سڑکوں پر دہشت گردوں کے ہاتھوں ستم کا نشانہ بننے والوں کے مظاہروں میں آکر انہیں تسلیاں دیتے ہیں کہ آپ صبر کریں، لیکن دوسری طرف خودکش حملے کرنے والے انہیں طالبان کو پاکستان کا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گرد پاکستان کا نہیں بلکہ ان چند مفاد پرست لوگوں کا اثاثہ ہیں، جو اپنی اولاد کے ہمراہ ڈی گراونڈ میں پاکستانیت کے چمپیئن بنے پھرتے ہیں، لیکن غریبوں کے بیٹے پاکستان اور اسلام کے نام پر جنگوں میں جھونک رہے ہیں۔ پاک آرمی کی روٹیاں توڑنے کے بعد اپنی گردنوں میں سریا تانے یہ دفاعی ماہرین، تجزیہ نگار اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ جرنیل اپنی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ لمبے بالوں اور موٹی توندوں والی بلائیں تیار کرکے انڈیا کو ڈرانے کی پالیسی مملکت پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہے۔

مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ کن کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور وہ کن شرائظ پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا حساب کسی کے پاس نہیں کہ پاکستان کے کونے کھدروں میں کتنے دہشت گرد گروپ ہیں، یہ حیوان مال اتنے ناجائز بچے دے چکے ہیں کہ ہمارے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کوئی پتہ نہیں ہوسکتا ہے میرے کمرہ عدالت میں بھی کوئی ٹارگٹ کلر موجود ہو۔ اب ہم چیف جسٹس آف پاکستان کی بات کو مذاق سمجھیں یا اس پر یقین کریں، سیاستدان اور جرنیل مذاکراتی عمل کو واحد حل سمجھتے ہوئے ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ابراہیم پراچہ اور جنرل حمید گل سمیت جو لوگ بھی پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ طالبان ان کی بات مانتے ہیں، یہ سب دکھاوا ہے۔ جو کھیل ان لوگوں نے شروع کیا تھا، وہ ان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ اگر ایسا نہیں تو انہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کا تعلق طالبان سے ہے، یا وہ سرکاری مخبر ہیں۔ لیکن یہ بات کہاں تک درست ہے اس پر کوئی گواہ موجود نہیں، ورنہ عدالت عالیہ انہیں سرکار کے لیے دہشت گردوں کی مخبری کے غیر آئینی جرم میں سزا سنا چکی ہوتی، کیونکہ پاکستان کے باقی اداروں کی طرح عدالتیں بھی امن و امان کے قیام کے لیے بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ اگر نیویارک میں بھارتی وزیراعظم اور نواز شریف کی ملاقات کامیاب ہوجاتی تو یہ اس کا مطلب ہوتا کہ اس بات پر دونوں کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ دہشت گرد دونوں کا اثاثہ ہیں اور کوئی بھی انہیں کھونا نہیں چاہتا۔

پاکستان کو اس گرداب سے نکالنے میں صرف ایسا لیڈر ہی کامیاب ہوسکتا ہے، جو امریکہ جیسی طاقت کے سامنے سر اٹھا کر بات کرسکے، ورنہ دہشت گرد ریاست پر حاوی رہیں گے اور قائد اعظم کا پاکستان اپنا مقصد تخلیق کبھی حاصل نہیں کر پائے گا۔ جس کے اندر اتنی طاقت ہوگی کہ عالمی طاقتوں کے آگے سر نہ جھکائے، وہ کسی ایرے غیرے کو پاکستان کے اندر بھی سر اٹھانے نہیں دے گا۔ فیصلے کرنا قومی لیڈروں کی ذمہ داری ہوتا ہے، ورنہ ہر کس و ناکس اپنے آپ ذمہ دار بن جاتا ہے اور اختیارات غیر ذمہ دار ہاتھوں میں منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو موجودہ حکومت کے اقدامات کا نتیجہ بھی یہی ہوگا۔ یہ کیسا طرفہ تماشا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام، سپاہ اور فوجی افسران لڑیں لیکن مذاکراتی عمل کا کنٹرول ایسی قوتوں کے ہاتھ میں ہو، جنہیں اس جنگ میں ایک خراش تک نہیں آئی۔ لیکن بے حسی کا عالم یہ کہ کسی کو اعتراض نہیں۔ ہونا تو ہمیں بھی نہیں چاہیے مجبور ہیں 72، 72 شہداء کے لاشے پڑے ہیں، مائیں بہنیں بیٹھی ہیں اور قاتل مسکرا رہے ہیں۔ بے شک کربلا بپا ہے اور شام غریباں کا منظر ہے، لیکن شام میں مدفون مسافرہ شام کے جانثار یزیدی طاقتوں کے مقابلے میں نائب امام ؑ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اللہ تعالٰی پاکستان سمیت دنیا بھر کو بشریت کی حقیقی رہبریت کے نور سے منور فرمائے۔ امین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button