مضامین

لاپتہ بلاگرز اور خوابیدہ امت

تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اس ملک سے ہی اسلام کی روشن تعلیمات سے پوری دنیا میں اُجالا ہوگا۔ اس حوالے سے ہر مذہبی جماعت اپنا "نظام مصطفی(ص)” نافذ کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ ہر فرقہ یہ کہتا ہے کہ جو اِس کے نظریات ہیں وہی عین اسلام ہیں، باقی سب کافر۔ یعنی اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کی تعلیمات کا ہی مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ اسلام اقلتیوں کو ان کے حقوق دیتا ہے۔ اسلام امن پسندی، برداشت، بھائی چارے کا درس دیتا ہے، اسلام دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو بھی ان کے عقیدہ کے مطابق مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہاں ہم اتنے پکے مسلمان ہیں کہ کسی دوسرے غیر مسلم کو تو دُور کی بات ہے، اپنے ہی مسلمان بھائی تک کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم سب (مسلمانوں) میں ایک قدر مشترک ہے کہ ہم اسلام کا چہرہ مسخ کرنیوالی داعش، القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سمیت دیگر کالعدم جماعتوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں، یقیناً یہ سب جماعتیں بُری ہیں، ان میں اچھے اور بُرے کی تمیز کرنیوالے بھی بُرے ہیں، لیکن کاش ہم اپنے گربیان میں جھانک لیں کہ ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو کس سطح تک سمجھا ہے؟

خود احتسابی ایک بہترین عمل ہے اور اسلام اس کی بار بار تلقین کرتا ہے، مگر ہم ہیں کہ اس کی قریب بھی نہیں بھٹکتے۔ آج کل میڈیا کا دور ہے۔ میڈیا ایک مافیا اور ایک موثر ترین ہتھیار بن چکا ہے۔ محاذوں پر لڑی جانیوالی جنگیں بھی اب میڈیا کے ذریعے لڑی جا رہی ہیں اور میرے عظیم مذہب کی عظیم اور لاریب کتاب نے اِسی ہمارے دور کیلئے کہا ہے کہ "جب یہود و نصاریٰ تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئیں تو پہلے تحقیق کر لیا کرو” آج کا مغربی میڈیا کلی طور پر یہود ونصاریٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہودی جس طرف چاہتے ہیں دنیا کو لگا لیتے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنے دین کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر یہودیوں کی بتائی گئی بھیڑ چال چل رہے ہیں۔ کوئی ایک جھوٹی خبر چلے تو پوری قوم بغیر تحقیق کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ ہم پہلے سو رہے ہوتے ہیں، مغربی میڈیا سے کوئی "شرلی” چلے، ہم فوراً جاگ جاتے ہیں اور پھر احتجاجی مظاہرے، جلسے، جلوس، ریلیاں، اور نعرے بازی، یہ ہے ہمارا وطیرہ۔

ہمارے ملک سے 4 بلاگرز لاپتہ ہوئے۔ یہ بلاگرز ہیں بھی یا نہیں، ابھی تک یہ معاملہ کلیئر نہیں ہو سکا۔ نہ ہی یہ پتہ چل سکا ہے کہ ان کیخلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے کہ یہ "گستاخ” بلاگرز ہیں اور شان رسالت (ص) میں گستاخیاں کرتے تھے، کیا ہم میں سے کسی نے ان کے وہ بلاگ پہلے پڑھے ہیں، جن میں گستاخی کی گئی ہو؟ یقیناً کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جس نے ان کے گستاخانہ بلاگ پڑھے ہوں گے، اگر ایسے بلاگ پہلے تھے تو ہم خاموش کیوں تھے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی ان کیساتھ گستاخی میں ساتھ شامل تھے، لیکن اب جب وہ لاپتہ ہوئے ہیں تو ایک مخصوص طبقے کی جانب سے مہم چلائی جا رہی ہے کہ وہ گستاخان رسول ہیں۔

لاپتہ بلاگرز میں سے 2 کے اہل خانہ نے تو باضابطہ پریس کانفرنس کر ڈالی اور ان تمام الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ گستاخ ہیں۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور عقیدہ ختم نبوت پر پکا یقین رکھتے ہیں۔ ہم توہین رسالت (ص) کا سوچ بھی نہیں سکتے، نہ ہی لاپتہ بلاگرز نے کبھی توہین کی تھی۔ ان اہل خانہ کیساتھ ایک مفتی صاحب نے بھی قوم کو ہوش کے ناخن لینے کی ہدایت کی۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ کوئی بھی خبر بلاتحقیق سچی نہ سمجھ لی جائے۔ ہم نے اسلام کے نام پر ملک بنایا، اس کا آئین بھی قرآن کے اصولوں کے مطابق مرتب کیا، اس کے باوجود ہم مغربی میڈیا کے یہودی مالکان کی منظم سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اگر مغربی میڈیا کی افواہوں کے بجائے قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کر دیں تو دشمنان اسلام کی تمام سازشیں دم توڑ دیں گی، لیکن ہم ہیں کہ کوئی کہے کتا کان لے گیا، ہم کان نہیں دیکھتے اور کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ ہم کیسے مسلمان ہیں؟ کیا ہمارے نبی کریم (ص) ہمیں اپنا اُمتی مان لیں گے،؟؟ ہم ایسے مسلمان ہیں جو ہمیشہ استعمال ہو جاتے ہیں، کیا اب بھی وقت نہیں آ گیا کہ ہم جاگ جائیں؟

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button